موجود دنیا میں مملکت پاکستان
دوسری ایسی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے ۔ چودہ سو
سال قبل والی کائنات ﷺ نے مکہ سے ہجرت کر نے کے بعد ایک ایسی ریاست قائم کی
تھی جس کی بنیاد دین کے رکن اعظم یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر
رکھی گئی تھی۔چودہ سو سال بعد تاریخ میں ایک با رپھر ایسی ہی ریاست کا
مطالبہ کیا گیا جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہو اور جس میں اسلامی اصولوں کا
عملی طور پر نفاذ کیا جا سکے۔ 1857 کی جنگ آزادی سے لے کر 1947 تک کی
جدوجہد،جس خطہ ارضی کو حاصل کرنے کے لیے گی گئی تھی، اس کے متعلق مسلمانانِ
ہندوستان کا موقف بڑا واضح تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی
وضاحت کےلیے جو نعرہ لگایا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ
"پاکستان کا مطلب کیا"
"لا الہ الا للہ محمد الرسول اللہ ﷺ"
قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے مقصد کو واشگاف الفاظ میں بیان
کیا تھا کہ
"ہم ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتےہیں جہاں ہم اسلام کے سنہری اصولوں کو آزما
سکیں"۔
آج ہم جو ایک آزاد مملکت میں آزادانہ حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں در حقیقت
اس کے پیچھےمسلمانانِ ہند کی قربانیوں کی طویل داستان پنہاں ہے ۔ اگر ہمارے
باپ دادا اس آزاد خطہ کے حصول کے لیے قربانیاں نہ دیتےتو شاید ہم آج تک
انگریز کے تلوے چاٹ رہے ہوتے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہی ساتھ ایک سوال ذہن میں
انگڑائی لیتا ہے کہ جس مقصد کےلیے ہمائے آباؤ اجداد نے قربانیاں دے کر یہ
ملک حاصل کیا تھا وہ مقصد حاصل ہوا یا نہیں ؟
اپنے ارد گرد دیکھ کر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جس مملکت کو اسلامی
اصولوں کی آماجگاہ ہونا چاہیے تھا اور جہاں سے عالم اسلام اور دنیا کی
امامت کرنے والے لوگ تیار ہونے چاہیں تھے وہ آج خود اپنے وجود کو برقرار
رکھنے کے لیے دوسروں کی مرہون منت بن چکی ہے۔علاج، تعلیم ، خوراک ، مکان
اور کپڑا انسان کی بنیادی ضروریات جیسی بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کی
بدولت لوگوں کی بڑی تعداد نے مختلف قسم کے جرائم والے پیشے اختیار کر لیے
ہیں۔ لوگ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی بھی غلط قدم اٹھا نے کے لیے
بڑی آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے نا اہل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور مفاد پرستیوں نے اس طرح کے
حالات پیدا کر دیے ہیں کہ جن سے نکلنے کی ہلکی سی بھی رمق نظر نہیں آتی
۔ارباب اقتدار اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے روزانہ نیا شوشہ چھوڑدیتے
ہیں اور قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر ان کو ناختم ہونے والی ابحاث میں
ڈال دیتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنا پانچ سالہ دور پورا کر کےپھر نئے طریقے سے
جال بچھانے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے جبکہ عوام ایک نئی
امید کے ساتھ پرانے شکاریوں کے جال میں دوبارہ پھنس جاتی ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے داخلی اور خارجی مسائل
ہمارے اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ملک کا امن وامان تباہ کرنے کے لیے ہماری
حکومتیں ایک طرف دہشت گردوں کو پنا ہ دیتی ہیں ان کی امداد کرتی ہیں اور
دوسری طرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلیے نئی نئی پالیسیاں بنائی
جاتی ہیں۔عالمی طاقتوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بھاری بھر کم رقوم
لی جاتی ہیں۔ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے جاتے
ہیں۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے قرضے دیے جاتے ہیں اور پھر مظلوم عوام
کو سود کے بوجھ تلے دب کر اصل رقم سے کہیں زیادہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔
اگرچہ کسی مملکت کو تباہ کرنےکے لیے یہی مسائل کافی ہیں لیکن اس قوم کا جو
سب سے بڑا نقصان ہوا ہے وہ ان کا "دینی نقصان" ہے۔علامہ اقبال نے اس حقیقت
کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ وہ اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ فطرت
کے ساتھ بغاوت کرنے والے دین و دنیا میں خائب و خاسر ہوتے ہیں۔
ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا
رخصت ہوا دلوں سے خیالِ معاد بھی
یہ جو ہم نے اسلامی تعلیمات اور سیکولرزم کو ملا جلا کر الحاد کی سی کیفیت
پیدا کر رکھی ہے اس کا لازمی نتیجہ وہی ہے جس کا نظارہ ہم پچھلے 66 سال سے
دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے غلط اور صحیح کی آمیزش اس طرح کر رکھی ہے کہ حق کی
پحچان بھی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔رہی سہی کسر میڈیا نے نکال دی ہے ۔کہ اپنی
RATING بڑھانے کے لیے بے ہودہ قسم کا ڈانس، فیشن شوز اور حیاء سوز مناظر
دکھا ئے جاتے ہیں۔ثقافت کے نام پر بے حیائی اور عریانی کو فروغ دیا جاتا
ہے۔ دن رات تجزیہ نگار لا یعنی و لا حاصل بحث چھیڑ کر اپنی دانست میں جہاد
کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ نت نئے فیشن ، موسیقی کی رُتوں اور موبائل فون
کے پیکجزنے مخلوقِ خدا کو فطرتی سادگی سے دور کر کے ایک عجیب و غریب عذاب
سے دوچار کر دیا ہے۔ تکلف نے مہمان نوازی، فیشن اور عریانی نے طہارت کا
عنوان حاصل کر کے اپنے دامن کو بڑے احتیاط سے بچا لیا ہے۔
تعلیم کے نام پر جو کچھ ہم سکھاتے اور سیکھتے ہیں اس کی مکمل وضاحت کرنے
میں شاید میں ناکام رہوں لہذا آپ اپنے گردو پیش میں نظر دوڑائیں تو آپ کو
فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ سربراہان مملکت اور اعلی اداروں
میں کام کرنے والے ہمارے معاشرے کے اعلی تعلیم یافتہ افراد ہی تو ہیں۔ یہی
تو وہ طبقہ ہے کہ جس نے ہمیں زوال کی حدوں کے آخری سرے تک پہنچانے میں مکمل
ایمانداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم جو کچھ تعلیمی اداروں میں سکھاتے ہیں اس کے
نتائج نہایت ہی تباہ کن اور ہلاکت خیز ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو بڑے
اطمینان سے دلاسا دے رکھا کہ تدریس پیغمبرانہ پیشہ ہے اور ہم ہمہ وقت عبادت
میں مصروف رہتے ہیں۔در اصل ہم اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ غلط چیز کا
نام بدل دینے سے غلط چیز صحیح میں نہیں بدل جاتی۔سکولوں کالجوں میں کلچرل
شو، ٹیبلو اور مختلف ناموں پر جو کچھ ہوتا ہے نہ جانے اس سے ہم اپنے بچوں
میں کون سی صلاحیتیں پیدا کرنا چاہتےہیں۔ کسی شاعر نے بڑی اچھی تصویر کش کی
ہےکہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا ،نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی، املاک بھی، جاگیر بھی فتنہ
اعلٰی حکام نے دانستہ طور پر ایسے اقدامات کیے ہیں جو کسی بھی مملکت کو
تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔جو لوگ معاشرے کے ناکارہ اور گھٹیا ترین لوگ تھے
آج وہ معزز و محترم نظر آتے ہیں۔کل تک لوگ جن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے
تھے وہ آج ملک سے سپر سٹاراور پاکستا ن آئڈل بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہمار ے تعلیمی اداروں میں ایسی قوم کی پرورش ہو رہی ہے جو مغربی طرز زندگی
کے دلدادہ ہیں اور مشرقی اور اسلامی تہذیب و تمدن کو فرسودہ تہذیب سے تعبیر
کرتے ہیں ۔
ہماری نوجوان نسل کھانے میں اٹالین پیزق، رشین سالاد، بولنے میں انگریزی پر
فخر کرتے ہیں۔علامہ اقبال نے بالکل درست تصویر کشی کی تھی کہ
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے پیش نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین آخر
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
آخر یہ کیا مذاق ہے جو ہم اپنے اور اللہ کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ایک طرف
نماز سے غفلت، موسیقی کی رنگینی ، فحاشی اور عریانی ، اللہ کی حدود کی
پامالی اور دوسری طرف جنت کی خواہش اور اللہ کی مدد کی امیدلگائے بیٹھے ہیں
۔ اس ہی چیز کو علامہ نے خود فریبی کا نام دیا تھا۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام ایک دین فطرت ہے اور فطر ت کے ساتھ
بغاوت کرنے والی قومیں اپنا وجود زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتیں ۔
اگر ہم اپنے جملہ مسائل کا حل چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دین فطرت کی طرف ہی
رجوع کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ انسان جو زندگی کے اصول وضع
کرتا ہے وہ کسی طور پر بھی اللہ کے عطا کردہ اصولوں کا مقابلہ نہیں کر
سکتے۔ اللہ نے جو نظام انسانیت کے لیے وضع کیا ہے وہ عین فطری نظام ہے اور
اس سے ہٹ کر ہر راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر بام رکھ دیا |