عید کا دن خوشیوں کی نوید کا دن
مگر اس دن بھی بہت سے معصوم چہرے اداس ویران خالی نگاہیں بھوکے پیٹ دن اور
رات کے مختلف پہروں میں سڑک پر میلے کپڑوں میں ملبوس عید کی خوشیاں مناتے
چمکتے دمکتے ہنستے مسکراتے گاڑیوں میں آتے جاتے لوگوں کو حسرت سے دیکھتے
گزر گئے کیا یہ کھلا تضاد نہیں یقیناً یہ کھلا تضاد ہے ایسے لاوارث بچوں کے
لئے بہت سے حکومتی و نجی ادارے ہیں جو لوگوں کی امداد پر چل رہے ہیں لیکن
پھر بھی ایک کثیر تعداد یتیم مسکین اور غریب بچوں کی سڑکوں پر کسی بھی قسم
کےغم یا خوشی سے بے نیاز بے تاثر چہرے لئے آوارہ گردی کرتے لوگوں کے آگے
ہاتھ پھیلاتے نظر آتے ہیں جن کے ننھے ننھے پھیلے ہاتھوں کو کوئی نہیں
دیکھتا ہاں ان کی ویران بے حس اور ساکت سوالیہ أنکھوں کو دیکھ کر اس طرح
جھٹکے سے ڈر کر پیچھے ہٹتے ہیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر یوں منہ پھیر
لیتے ہیں جیسے یہ کسی انسان کے بچے نہیں بلکہ کوئی جن یا بھوت پریت ہیں
کیا خبر کہ اس کیفیت میں جب لوگ انہیں دیکھ کر ڈرتے یا انہیں نفرت و حقارت
سے دھتکارتے ہیں کیا احساسات ہوتے ہوں گے یا پھر انہیں کوئی احساس ہی نہ
ہوتا ہو کہ وہ اس سلوک کے عادی ہو کر بے حسی کا اس طرح شکار ہو جاتے ہیں کہ
انہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلتا اور وہ اسی کو زندگی سمجھتے ہوئے یونہی بے
مقصد زندگی کے دن گزارتے چلتے جاتے ہیں
یہ بچے شاید شعور کی عمر کو پہنچ کر بھی کبھی باشعور نہیں ہو پاتے ہوں گے
اور اپنے ساتھ ہونے والی ایسے بے حس لوگوں کی کہ جن کے پاس تعلیم تربیت حسن
اور دولت سب کچھ ہے لیکن غریب بچوں کے لئے دل میں احساس نہیں ہے ان کی بد
سلوکی کا دفاع کر پاتے ہوں گے یا نہیں
جب کہ اس عمر کو پہنچنے کے بعد تو شاید ان کی زندگی کچھ زیادہ ہی اذیت میں
گزرتی ہوگی کہ کچھ خدا ترس لوگ بچے سے سرزد ہونے والی چھوٹی موٹی خطاؤں سے
درگزر کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ ان کے اخلاق و کردار میں بہتری پیدا کرنے کا
ممکنہ اقدام یا انتظام ہو جائے تو شاید ان بچوں کو بھی ملک و قوم کی تعمیر
و ترقی میں کچھ کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکے یا کچھ رحم دل اور خدا
ترس انسان ان پر ترس کھا کر انہیں معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوئے انہیں نہ
صرف معاف کر دیتے ہوں بلکہ ان کی مدد بھی کرسکتے ہوں یا ان کے ساتھ شفقت کا
رویہ ہی برت سکتے ہوں
لیکن یہ بچوں جیسا ذہن رکھنے والے بڑے کہ جن کی نہ تربیت ہوپائی نہ جنہیں
تعلیم ہی دی جا سکی اسی لئے انہیں اپنے اچھے برے کی کوئی تمیز نہیں رہتی
جنہیں شعور ہی نہیں کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے نیکی کیا ہے گناہ کیا ہے
انہیں معاف کرنے یا ان کی تربیت کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچ سکتا بس
ایسے لوگوں کی خطا کی شروعات ہوتے ہی انہیں ظالم ہاتھوں کی گرفت میں دے دیا
جاتا ہے جو گھونسوں جوتوں تھپڑوں اور مغلظات کے سائے میں ان بچوں کی جو
حالت کی جاتی ہے اسے دیکھ کر انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہوگا
یہی نہیں بلکہ انہیں لے جا کر ایسی کال کوٹھری میں ڈال دیتے ہیں کہ تاحیات
جہاں سے واپسی ممکن نہ رہے یہ بھی انسانوں کے بچے ہوتے ہیں لیکن ان کا
مستقبل ایسی سیاہ رات کی طرح ہوتا ہے جس کی سحر کبھی طلوع نہیں ہوتی بلکہ
ان بچوں کا نہ تو کوئی ماضی ہوتا ہے نہ حال اور نہ ہی مستقبل دنیا کے جس
خطے کے باشندوں کے طرز زندگی میں اس قدر تضاد پایا جائے گا وہاں ممکن نہیں
کے ایک پر امن اور جرائم سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے
مانا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن میں ہمارے وطن کے باشندے بھی
شامل ہیں جو احساس رکھنے والے ہیں اور حتی الامکان ایسے بچوں کی مناسب
تربیت کے بندوبست میں کوشاں ہیں جو کہ خوش آئند بھی ہے لیکن ابھی اس عمل کی
منزل بہت دور ہے ابھی یہ کارواں مکمل نہیں ابھی کچھ اور مسافروں کو بھی اس
سفر میں شامل ہونا ہے اگر ہر فرد میں انسانیت کا جذبہ بیدار ہو جائے تو
دنیا سے غربت مفلسی جہالت بے راہ روی اور جرائم کا خاتمہ ممکن ہے تمام دنیا
میں امن سلامتی سکون اور محبت کا قیام ناممکن تو آؤ ہاتھ ملاو قدم بڑھاؤ
دئے سے دیا جلاؤ روشنی پھیلاؤ دنیا سے مفلسی کی جہالت کے اندھیرے مٹاؤ اللہ
ہم سب کا حامی و ناصر ہے
سڑکوں پر رلتے پھرتے یہ بچے بھی انسان کے بچے ہیں انہیں بھی مقام انسان اور
انسانیت سے روشناس کروانے میں اپنا کردار نبھاؤ |