مِیرا، کیپٹن نوید ، مذاکرات

سنا ہے کہ بلی کو ہمیشہ چیچھڑوں ہی کے خواب ستاتے ہیں!پھرایک وفاقی وزیرسے یہ سننے میں آیا کہ وسیع البنیاد امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں قوم فوجی آپریشن کے حق میں متحد ہو جائے گی! قوم ؟ قوم سے بہتر تھا کہ لفظ ہجوم کا استعمال کیا جاتا! یہ قوم نہیں ہجوم ہے۔ویسا ہی ہجوم جو کسی میلے ٹھیلے پر ، کسی کرکٹ میچ کے دوران یا کسی آفت کی صورت میں وقتی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر کسی جز وقتی مقصد کی خاطر کچھ دیر کے لئے اکٹھا ہوتا ہے اور پھر تتر بتر ہو کر بکھر جاتا ہے!ماضی میں ایسی کئی شاندار مثالیں موجود ہیں جیسے2007 کی وکلاء تحریک ، 2005 کا زلزلہ، 1940کی دہائی کی تحریکِ پاکستان !

بات امن مذاکرات کی تھی تو امن کی فاختہ کو ملاں کے ہاتھ میں تھما کر اگر یہ امید رکھی جائے کہ فاختہ خوب پھلے پھولے گی اور خوش باش چہچہاتی اڑتی پھرے گی تو معافی کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ بلی کو چیچھڑوں کے خواب۔

پاکستانی معاشرہ کے محرکات کو پرکھا جائے تو یہ عیاں ہے کہ پاکستان حد درجہ منقسم معاشرہ ہے۔ تقسیم ہے مذہب کے نام پر، فرقہ کے نام پر، ذات کے نام پر،معاشیات کے نام پر!!! پاکستانیت اس ہجوم کے لئے وہ آخری پہچان ہے کہ جس پر یہ کبھی جز وقتی طور پر متحد ہو سکے۔ پاکستانی معاشرے کی مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ایسی پولرآئیزیشن ضیاء دور کی آمریت کا تحفہ ہے اور گزری ہوئی تین دہائیوں میں معاشرے میں اپنی جڑیں بے حد پکی کر چکی ہے۔حکومت نے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو ہجوم منقسم تھا اور حکومت اگر فوجی آپریشن کی بات کرے گی تو بھی ہجوم منقسم ہی رہے گا کیونکہ معاشرہ پولرآئزڈ ہے۔ اس تمام صورتحال کی ذمہ دار پاکستانی ریاست ہے جو اس انتہائی نازک اور پاکستان کی بقاء سے جڑے معاملے پر ایک تتر بتر معاشرے کے مختلف دھڑوں کو خوش کرنے نکل پڑی ہے۔یہ آفاقی سچائی ہے کہ ایک ہی وقت میں تمام افراد کو کسی بھی معاملے پر خوش و مطمئین نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ پاکستان کے مفاد اور شہریوں کی حفاظت کے پیش نظر ریاست آگے آتی اور آہنی ہاتھوں سے دہشت گردی کا قلع قمع کرتی پر ہم سب نے دیکھا کہ ریاست کو اس پولرآئزڈ معاشرے کے دھڑوں نے ’گڈ‘ اور ’بیڈ‘ طالبان ، امریکی ڈرون حملوں کے شکار معصوم انتہا پسند اور ریاست کے کفریہ نظام سے خائف سچے مسلمان و مجاہدین کے لبادے اوڑھا کر ایسا یرغمال بنایا کہ اب تو ریاست بھی بے بس سی دکھائی دینے لگی ہے۔ ریاست کا کام مذہب کے نام پر بلیک میل ہونا نہیں بلکہ بوقتِ ضرورت عوام کے بہترین مفاد میں نا پسندیدہ، سخت مگر درست و دور رس فیصلے کرنا ہے۔ پر شاید ریاست ِ پاکستان ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ ملاں سوچ سے پنجہ آزمائی کر سکے۔

پاکستان میں قانون کا طرزِ عمل دیکھئے کہ میرا اور کیپٹن نوید کی متنازعہ ویڈیو کو لے کر ایک پٹیشن دائر کی گئی اور اس ویڈیو کو پاکستانی قوم کے لئے باعثِ توہین گردانا گیا پھر عدالت نے بھی پٹیشنر سے متفق ہوتے ہوئے ایف آئی اے کو میرا اور کیپٹن نوید کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔ میرا کی جانب سے یہ سوال میں اٹھاتا ہوں کہ میرا اور کیپٹن نوید کی انتہائی نجی ویڈیو کے جانے انجانے یا کسی بھی باعث انٹر نیٹ پر منظر عام پر آنے کے بعد اداکارہ کو چہار جانب سے ہر ممکنہ طریقہ سے زچ کرنے اور قانون کے دائرہ اختیار میں لانے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے پر دوسری جانب اسی انٹر نیٹ پر موجود ہمارے بھولے بھٹکے بھائیوں کے انسانی سر کاٹ کر فٹ بال کھیلنے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی سر کٹی لاشوں کو سڑک پر پھینک کر بے حرمتی کیے جانے کی ویڈیوز پر حکومت ، قانون ساز ادارے اور عدالتیں سب لب سیئے کیوں بیٹھے ہیں؟ کیا اس لئے کہ یہ معصوم قاتل اب امن مذاکرات کے فریق ہیں، امن کی فاختہ کو پنجرے میں قید کیے رکھے ہیں اور مضبوط سیاسی و مذہبی سپورٹ رکھتے ہیں؟ میرا صاحبہ کے لئے مخلص مشورہ ہے کہ آپ نہ ہی چوراہوں میں بم پھاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، نہ آپ کو سر کاٹ کر فٹ بال کھیلنے کا وسیع تجربہ ہے ، نہ ہی آپ حکومت کو ڈرا دھمکا کر مذاکرات پر اکسا سکتی ہیں اور نہ ہی ملاں و ملاں طرز کی سیاسی جماعتیں آپ کی پشت پناہی کرتی ہیں تو بہتر یہ ہے کہ آیا آپ راہِ فرار اختیار کریں یا انصاف بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں!

پاکستانی ریاست کی قوت دیکھئے کہ مذاکرات کے نام پر طالبان کے قیدی رہا کئے جا رہے ہیں اور بقول حکومت کے یہ وہ افراد ہیں جو عسکریت پسند نہیں تھے پر مختلف آپریشنز کے دوران دھر لئے گئے۔ واﷲ عالم کہ رہا کئے جانے والے واقعی عام افراد ہیں یا طالبان کے دباؤ کے تحت عسکریت پسند ہی چھوڑے جا رہے ہیں کیونکہ افواج تو پہلے ہی کہہ چکی تھیں کہ پاکستان کی حراست میں کوئی بھی غیر عسکریت پسندطالبان یا خواتین نہیں ہیں ۔ بدلے میں طالبان کتنے قید پاکستانی چھوڑ چکا ہے؟ ایک بھی نہیں! چھوڑنا تو دور کی بات شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی کی فی الحال کوئی خیر خبر تک نہیں ملی!!

یہ احساس دلایا جانا بھی اہمیت رکھتا ہے کہ خدارا پاکستان ایک ریاست کا نام ہے! اس ریاست کو ریاست کی طرح چلایا جانا اس کا حق ہے۔ ریاست کسی پر تشدد گروہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی بلکہ تشدد کا خاتمہ کر کے اپنی رٹ قائم کرتی ہے ۔جب تک ریاست طاقتور نہیں ہوتی ، اپنی عوام کو تحفظ، حقوق، آزادی اور باعزت روزگار مہیا نہیں کرتی تب تک ہجوم کا ایک متحد قوم بننا ممکن نہیں!!!

Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 13181 views Columnist for Roznama "Din"... View More