بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قرآن مجیداﷲ تعالی کی وہ سچی کتاب ہے جو اپنے آغاز سے آج تک بالکل محفوظ و
مامون ہے،اسکے مندرجات میں کوئی ردوبدل واقع نہیں ہوااور نہ ہی دنیا سے
اسکی زبان متروک ہوئی۔قرآن مجید نے واضع طور پر فرمادیاہے کہ اﷲ تعالی سود
کو کم تر کرتا ہے اور صدققات کی پرورش کرتا ہے یعنی سود سے بظاہر دولت
بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں کم ہو رہی ہوتی ہے جبکہ صدقات سے
دولت کم ہوتی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں بڑھ رہی ہوتی ہے۔انسان بڑا ہی
جلد باز واقع ہوا ہے،وہ قریب کو جلدی دیکھتاہے اور اسے شدت سے چاہتا ہے
جبکہ بعید کامشاہدہ تاخیر سے کرتا ہے اور اسکے انجام کو حالات کے رحم و کرم
پر چھوڑ دیتاہے۔اسی کا نتیجہ ہے سود خوراپنے وقتی مفاد کی خاطر اجتماعیت کا
ابدی مفاد قربان کر دیتاہے اوربعد ازاں جب اجتماعیت اسکے سودی رویے کا شکار
ہوتی ہے تو خود سود خور بھی اجتماعیت کے ساتھ تباہی کے اس گڑھے میں آن
گرتاہے۔
سرمایادارانہ معاشی نظام کی بنیادیں سودکی اینٹیں اور خودغرضی کے مصالحے سے
چنی گئیں ہیں،ایسی بنیادوں پر استوار عمارت سے اعلی اسلامی اخلاق سے قطع
نظر بنیادی انسانی اخلاقیات کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔قرآن میں اﷲ تعالی کا
ارشاد ہے کہ سود خور کو شیطان نے چھوکر گویاخبطی کردیاہے۔سود خور ہرمعاملے
کوپیسے اور مفاد کے ترازو میں تولتاہے،رشتے ،ناظے،تعلقات،شرم و حیااور
اقداروروایات سب اسکے نزدیک ثانوی حیثیت میں چلی جاتی ہیں ،پیسہ،دولت،سونے
چاندی کے ڈھیراورننانوے اور سو کی بڑھوتری ہی اسکی زندگی کی کل متاع ہوتی
ہے۔پیسے کے نقصان کے علاوہ انکا کوئی غم نہیں ہوتا اور سودونفع کے سوا انکی
کوئی خوشی نہیں ہوتی۔
قرآن نے ہی کہا کہ وہ گویا اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں،چنانچہ پیسے کے
پجاریوں کی ذاتی زندگی بھی بہت عبرتناک بن جاتی ہے،پیسے کی خاطر انکا
آرام،سکون،خانگی زندگی،حتی کی اکل و شرب تک اس حد تک متاثر ہوجاتے ہیں کہ
وہ کوہلوکے بیل ہی بن جاتے ہیں۔کتنے ہی لوگ ہمارے سامنے ہیں کروڑوں کی
جائدادیں اور روزانہ لاکھوں کے لین دین کرنے والے کئی کئی دن نہانے سے
غافل،میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس،ہفتوں تک ایک جگہ اپنے ٹھیے پر گزارنے
والے اور بڑھی ہوئی توندوں اور لٹککتے ہوئے جسموں کے ساتھ اپنی جوانی کے
بہترین دن دولت کی دیوی کی پوجا اور بڑھاپے کی عبادت گزاری کے ایام ہائے
دنیا اور ہائے پیسہ کی نذر کر دیتے ہیں۔ساری ساری عمر کماکما کر بھی خود
انکے اپنے نصیب میں کیا ہوتا ہے؟یہ نوشتہ دیوارہے جو جاہے پڑھ لے۔
سودی فکر اور منافع خوری کے کلچرسے تعلق رکھنے والے لوگ جب مل بیٹھ کر کوئی
معاشی نظام کی تشکیل کریں گے تو کیا وہ کل انسانیت کے لیے بہتری کا باعث
ہوگا؟؟؟نہیں قطعاََ نہیں،وہ سب سے پہلے اپناذاتی مفادپیش نظر رکھیں گے یا
بہت بہت اور بہت ہی بلند سوچ کے مالک ہوئے تو اپنا قومی و نسلی یا علاقائی
مفاد ہی انکا مطمع نظر ہوگا۔انکاہر زاویہ فکر اس دائرے کے گرد گردش کرے گا
کہ کس طرح دوسری اقوام سے دولت کے انبارکھینچ کھینچ کر اپنے ملک میں لائے
جائیں چاہے اسکے نتیجہ میں دوسری اقوام نان شبینہ کی محتاج ہی کیوں نہ
ہوجائیں،انکی نظر دیگراقوام عالم کے خزنوں پر اور انکے انسانی و قدرتی
وسائل پر جمی رہے گی کہ کسی طرح انہیں لوٹ لوٹ کر تو اپنے قبضے میں لائیں۔
آج کے حالات اس پر شاہد ہیں سودی معیشیت خواہ وہ سرمادارانہ نظام سے تعلق
رکھتی ہو یا پھر اشتراکی فکر سے متعلق ہو،پوری دنیا میں ایک استھصالی
جابرانہ نظام کی پرورش کا باعث بنتی ہے۔دولت اور سیال مادے کی خاطر دنیامیں
بڑی بڑی جنگوں سے گلی محلے کی سیاست تک انسانوں کے خون کی ارزانی سودی
معیشیت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔چھوٹی قوموں کے ایوان ہائے اقتدار میں
غداروں کی بولیاں لگانا اور اپنی قوم کو کم سے کم قیمت پر فروخت کرنے والے
کو مسند اقتدارپر براجمان کرنااور پھر اسکی اور اسکے اقتدار کی اس شرط پر
حفاظت کرنا کہ وہ اپنے ملک کے وسائل پر ہمارا قبضہ روا رکھے اور قوم کو ان
سب امور سے بے خبر رکھ کر انہیں عریانی و فحاشی کے بے ہودہ سیلاب اورموسیقی
کے بے ہنگم شور میں اس قدر گم کردے کہ وہ اپنی تباہی سے بے خبر رہ کر اپنے
آپ کو آسودہ محسوس کریں،سودی معیشیت کے وہ ثمرات بد ہیں جن سے پوری دنیا
دوچار ہے۔
بہت وقت نہیں گزرا کہ لین دین سونے چاندی کے سکوں میں ہوا کرتا تھا،ملکہ
وکٹویہ کے مہر کیے ہوئے سکے شایدآج بھی کچھ پرانے لوگوں کے پاس موجود
ہوں،پھر سود خوروں نے ساری دنیا سے سونے چاندی کو اکٹھا کر کے تو کاغذ کے
کرنسی نوٹ جاری کروا دیے،اور سونا چاندی دنیا سے ناپید ہونے لگے یہاں تک کہ
خواتین کے زیور کے لیے بھی سونے کی دھات ہزاروں روپے تولے کی قیمت پر پہنچ
گئی جو کچھ ہی عرصہ قبل ہاتھوں میں عام گردش کرتی تھی۔جب نوٹ بھی دولت اور
زر کا نعم البدل قرار پاگئے تو ان سود خوروں نے پلاسٹک کرنسی جاری کر دی،اب
صورتحال یہ ہے کہ ایشیا میں تو پھر بھی کارڈوں کے ساتھ ساتھ کچھ نقد بھی
جیب میں موجودہولیکن یورپ اور امریکہ میں تو ایک ایک شہری کے پاس دس دس
پلاسٹک کارڈزہیں جن سے وہ ایام روزوشب کا کاروبار زیست چلاتاہے۔
معیارزندگی میں اضافے کی دوڑ سودی معیشیت کاایک اور شاخسانہ ہے،میڈیا کے
ذریعے پرتعیش،آرام دہ،تکلفات سے پراور آسائشوں سے بھرپورزندگی کا تصورپیش
کیا گیا،جب مقررہ آمدنی میں اس معیارکوحاصل کرنا ممکن نہ رہاتو قرضوں کی
فروانہ فراہمی کادروازہ کھول دیا گیا۔ایک بنک سے قرضہ لیا اورقسطوں میں
ادائگی بمع سودکامعاہدہ کرلیا،حالات ہمیشہ ایک سے تو نہیں رہتے،آج کے حساب
سے ایک مقررہ قسط کی ادائگی ممکن ہے تو ضروری نہیں سال بعد بھی ممکن
رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ بنک نے نوٹس بھیج دیا،تب دوسرے بنک سے سے قرض لے کر
پہلے کو اداکردیا۔یہ سلسلہ چلتارہااورکھاتوں کے حساب کتاب کاگراف تو بہت
بلندی پر پہنچ گیالیکن حقیقت میں پستی سوا کچھ حاصل نہ ہوااور جوجائدادیں
کرک ہوتے ہوتے اپنی اصل قیمت سے پچاس گنا زیادہ کا قرض دے بیٹھیں اور جب
انکی نیلامی کا وقت آیا تواصل زر تو کجاسود بھی مکمل وصول نہ ہوسکااور
مالیاتی اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جوآئے دن قطاراندرقطار ٹوٹی تسبیح کے
گرتے ہوئے دانوں کی ماننددیوالیہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔
خاندانی نظام کی بربادی سودی نظام کا ایک اور روح فرسا نتیجہ ہے۔سود
اداکرنے کے لیے جب مردوں کی آمدنی پوری نہ ہوسکی تو مجوراََ عورتوں کو
معاشی میدان میں نکلنا پڑتا ہے،اور جب عورت گھرسے باہر قدم رکھے گی تو شوہر
شاید پیسے کی خاطر اپنی محرومیاں برداشت کرلے،بہن بھائی،ماں باپ بھی چلو
کسی حد تک اس تبدیلی کو قبول کرلیں گے لیکن بچے کے لیے ماں کی کمی تو دنیا
کا کوئی کردار پورانہیں کرسکتا۔اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو بچے کم پیدا
کرو یاپھربچوں کو ڈے کئر سنٹراور نرسریوں میں ڈال کر تو انکی پرورش
کرواؤ،اور ان دونوں صورتوں میں قوم کو صحت مند نسل کی بجائے ذہنی بیماراور
نفسیاتی مریض ہی میسر آئیں گے۔خاندان اور نسل کی قیمت پر معاش کا سودا تو
جانور اور پرندے بھی نہیں کرتے پھر حضرت انسان کایہ سودی رویہ چہ معنی
دارد؟؟۔
آلودگی ،شوراورگندگی کابدترین تحفہ سودی معیشیت کی ایک اور نحوست ہے،آج
دنیا بھر کی فیکٹریاں بنکوں کے پاس رہن رکھی ہوئی ہیں،سرمایا دارایک فکٹری
اپنی جیب سے لگاتا ہے،پھر اسکے کاغذات بنک میں جمع کراکے تو سود پر قرضہ
حاصل کر لیتا ہے اور اس قرضے سے دوسری فیکٹری لگا لیتا ہے،پھر تیسری اور
پھرمزیدتر۔اب جو فیکٹری آٹھ یا بارہ گھنٹے چل کر اپنے جملہ اخراجات پوری کر
سکتی تھی سود کی ادائگی اور پیسے کی لالچ میں وہاں چوبیس چوبیس گھنٹے کام
ہوتا ہے اور دھوئیں شوراور گندگی کی ایک بہت بڑی مقدار وہاں سے برآمد ہوتی
ہے۔مہنگائی میں اضافہ اس کا منطقی نتیجہ ہے،جو مال دس فیصدمنافع پر بیچنے
میں بچت ممکن تھی اب اس میں بنک کا سود بھی شامل کرنا پڑے گااور منگائی میں
اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔
سودکا انجام سوائے انسانیت کی تباہی کے کچھ نہیں،یہی وجہ ہے کہ آج د نیاکا
عالمی مالیاتی نظام جو خالصتاََ سود پر بنیادکرتا ہے اپنی تباہی کے دہانے
پر کھڑا ہے اور بڑے بڑے اذہان اسکوبچانے کی فکر میں،جولوگ تو اسکو سود کے
ذریعے ہی بچانا چاہتے ہیں وہ گویاشوگرکے مریض کو میٹھا کھلا کر بچانا چاہتے
ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورپ کے متعدد ممالک اور جاپان جیسا ملک بھی
سودی شرح کو صفر کی سطح میں لانے پرمجبور ہوئے ہیں۔پیسہ جمع کر کے اس پر
سود کھاناگویا مجبور انسانیت کا خون نچوڑنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو دوسرے کے
لیے کنواں کھودتاہے پہلے خود اس میں گرتا ہے۔دوسری قوموں کوسود میں جکڑنے
والے آج خود اپنی سودی معیشیت کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوئے چاہتے ہیں۔
انسانیت کی فلاح کے لیے آج بھی انبیاء علیھم السلام کا لایا ہوا نظام ہی
فلاح و کامرانی کا باعث ہے۔آخری نبی ﷺ نے زکوۃ وعشروخمس کے عنوان سے صدقات
و خیرات کاایسانظام مرحمت کیا ہے کہ اس سے معیشیت کاکاوبار ہی نہیں انسانی
اقداروروایات بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کریں گی۔کیا ہی خوب ہوکہ انسان خود
تجربے کرنے کی بجائے حکم ربی پر توکل کرے اور ھل من مزیدکی بجائے
بانٹنے،تقسیم کرنے ،بلاغرض دینے اوربھلا کرنے کے رویے پر عمل پیرا ہوکر
سودی معیشیت کی بجائے عدل و احسان کی معیشیت پر عمل پیرا ہوجائے۔ |