ٹوٹتے خاندان اور بے حال بچے

راقم نے عرصہ دس سال قبل جب وکالت شروع کی تو کچھ ہی روز بعد کا واقعہ ہے کہ میں سول کورٹس میں اپنی سٹنگ پلیس (Sitting Place) پر صبح کے وقت بیٹھا اپنے سینئر کا انتظار کررہا تھا کہ ایک فیملی وہاں آئی، فیملی ایک نورانی چہرے اور لمبی سفید داڑھی والے بزرگ، ایک بزرگ خاتون، ایک نوجوان لڑکے، دو نوجوان لڑکیوں اور ایک چار پانچ سالہ انتہائی خوبصورت اور معصوم بچے پر مشتمل تھی۔ چھوٹے بچے کو ان میں سے ایک نوجوان لڑکی نے گود میں اٹھا رکھا تھا اور اس سے والہانہ پیار کررہی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بچے کو بار بار چوم رہی تھی کبھی اس کے چہرے پر اور کبھی اس کے ہاتھوں پر، اس بچے نے بھی لڑکی کو بہت زور سے پکڑا ہوا تھا جیسے ابھی اس سے کوئی چھین کر لے جائے گا۔ بزرگوار نے مجھ سے میری ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی بینچ پر بیٹھنے کی اجازت طلب کی، میں نے ادب سے انہیں بیٹھنے کو کہا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بزرگ بچے کے دادا، بزرگ خاتون بچے کی دادی، لڑکا بچے کا والد جبکہ دونوں لڑکیاں بچے کی پھوپھیاں تھیں۔ جب سب لوگ نشستوں پر بیٹھ گئے تو ایک لڑکی نے تین شاپنگ بیگز میز پر رکھے اور انہیں کھولنا شروع کر دیا، ایک شاپر سے کچھ کھلونے برآمد ہوئے جبکہ باقی دو شاپرز میں سے دو ٹفن نکلے، اب ایک پھپھو نے بچے سے پوچھا کہ وہ کیا ناشتہ کرنا چاہتا ہے، بچے نے کہا کہ وہ فرائی انڈہ کھانا چاہتا ہے، اس کی پھپھو نے فوراً ایک پلیٹ میں فرائی انڈہ اور چند سلائس نکالے، بچے نے بمشکل دو تین لقمے لئے اور کہا کہ میں نے کارن فلیکس کھانے ہیں، اس کی پھپھو نے فوراً ایک پیالی میں کارن فلیکس اسے نکال کر دئے، قصہ مختصر کہ بچہ جو فرمائش کرتا اس کی پھپھو اسے فوراً پورا کرتی رہی، وہ ایسی تمام چیزیں ناشتہ میں لے کر آئی تھی جو وہ معصوم بچہ طلب کرسکتا تھا۔ اس بچے کے والدین میں طلاق ہوچکی تھی اور اس روز وہ خاندان گارڈین کورٹ میں بچے سے ملاقات کے لئے آیا ہوا تھا۔ پورا خاندان بار بار بچے کو چوم رہا تھا، پیار کررہا تھا اور رو رہا تھا، ہر فرد کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہہ رہے تھے، میں وہ منظر نہ دیکھ سکا اور اٹھ کر وہاں سے چل دیا۔ اس دن مجھے صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ جب خاندان کے بزرگ شادی کے موقع پر دلہن کو کہتے ہیں کہ تم ڈولی میں یہاں سے جا رہی ہو اب اس گھر سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہئے، ناراض ہو کر کبھی اس گھر سے مت آنا، اب وہی تمہارا گھر ہے، تو وہ بالکل درست کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جائز اور حلال کاموں میں طلاق سب سے ناپسند تھی، شیطان اس وقت سب سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ میاں بیوی میں ناچاقی اور طلاق کرواتا ہے۔

عید سے دو تین روز پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے ایک کیس کے سلسلہ میں لاہور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں موجود تھا کہ ایک کیس وہاں پیش ہوا جس نے وہاں موجود ہر آنکھ کو اشکبار کردیا۔ میاں بیوی میں علیحدگی ہوچکی تھی، ان کے چار بچے تھے جن میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ لڑکیوں کی عمریں سات سال اور تین سال تھیں جبکہ لڑکے پانچ سال اور ایک سال کی عمروں کے تھے۔ خاتون چند ماہ قبل خاوند سے لڑ کر بچوں کو وہیں چھوڑ کر والدین کے گھر چلی گئی تھی بعد ازاں اس نے سیشن کورٹ میں رٹ کی کہ چاروں بچے والد نے ناجائز طور پر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس روز عدالت نے بیلف کے ذریعہ بچے اور ان کے والد کو عدالت میں طلب کیا ہوا تھا۔ باپ نے تین سال کی لڑکی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا جس کے بارے میں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے والد سے بہت زیادہ اٹیچڈ ہے۔ جب عدالت نے حکم صادر کیا کہ تمام بچے والدہ کے حوالے کردئے جائیں تو والد کی گود میں موجود بچی کی چیخوں نے کمرہ عدالت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، وہ بچی چلا رہی تھی کہ میں نے بابا کے ساتھ رہنا ہے، ماں کے ساتھ نہیں جانا، وہ بچی بابا، بابا چلا رہی تھی، رو رہی تھی اور سب کو رلا رہی تھی، اس بچی کی آوازیں ابھی تک مجھے بے چین کئے ہوئے ہیں، عید کا پورا روز میں نے اسی سوگواری میں گزارا کہ وہ بچی کیسے اپنے والد کو Miss کر رہی ہوگی، پتہ نہیں اس کو ابھی تک چین آیا کہ نہیں، پتہ نہیں کہ اس کو اپنے والد کے بغیر نیند آئی کہ نہیں....!

جب میاں بیوی میں طلاق ہوجائے، جب کوئی خاندان ٹوٹ جائے تو اس سارے معاملہ میں سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں۔ بچے جن کی تربیت کے لئے ماں اور باپ دونوں کی محبت، شفقت اور توجہ درکار ہوتی ہے، ننھیال اور ددھیال سے میل ملاپ بھی اس کی تربیت کا ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ دادا، دادی، پھپھو اور چچا کی محبت بھی اسی طرح بچوں کے لئے ضروری ہوتی ہے جس طرح نانا، نانی، خالہ اور ماموں کی۔ اگر اسے کسی ایک طرف سے بھی محروم کردیا جائے تو اس کی شخصیت میں یقیناً کمی رہ جاتی ہے۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو لازمی امر ہے کہ ایک ماں ہی ان کی صحیح اور اچھے طریقہ سے دیکھ بھال کر سکتی ہے لیکن ماں کسی بھی طرح باپ کی کمی پوری نہیں کرسکتی۔ بچے اگر بالکل نوعمر ہوں تو جو ان کے سامنے رہتا ہے اسی کو پہچانتے ہیں جبکہ جو ان سے کم ملتا ہے اس کو بھولنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون کے مطابق لڑکا سات سال تک اور لڑکی اپنی بلوغت تک ماں کے پاس رہنے چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے باپ اور ددھیالی رشتے داروں کو بچوں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ عدالتوں میں بچوں کی ملاقات کے لئے درخواست دائر کرنے والے باپ کو ان سے عمومی طور پر مہینے میں صرف ایک بار ملنے کا موقع دیا جاتا ہے جو سراسر ناانصافی اور بچوں کی تربیت کے لئے انتہائی مضر ہے۔

ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہاں اس طرح کے دل دہلا دینے والے حقائق بھی موجود ہیں۔ طلاق کی شرح جو کچھ عرصہ پہلے تک اتنی زیادہ نہیں تھی اب بہت بلند ہوچکی ہے۔ برداشت تو جیسے یکسر ختم ہوچکی ہے۔ آپ کسی بھی شہر کی عدالتوں میں چلے جائیں روزانہ ہزاروں فیملی کیسز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ کیا حالات ہیں جو خاندانوں کو توڑنے کا سبب اور باعث بنتے ہیں؟ جب کوئی والدین اپنے بچوں کی شادیاں طے کرتے ہیں تو یقیناً سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود پچھلے نو دس سال میں طلاق کی شرح دوگنا سے بھی زائد کیوں ہوچکی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میاں بیوی سمجھداری کا ثبوت دیں، اپنے معروضی حالات اور بچوں کے مستقبل کو سامنے رکھیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو اناء کا مسئلہ نہ بنائیں اور ہر شخص کو اس کے منصب پر رکھیں تو یقیناً مسائل اتنے زیادہ گھمبیر نہ ہوں اور نوبت علیحدگی اور طلاق تک نہ پہنچے۔ اگر وہ صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی ہی فکر کرلیں، انتہائی اقدام اٹھانے سے پہلے صرف ایک بار فیملی کورٹس اور گارڈین کورٹس کا ایک چکر لگا لیں تو شائد ایسے مسائل پچاس فیصد تک کم ہوجائیں۔ عید کے موقعہ کی ہی مثال لے لیں، ان گنت بچے ہیں جنہوں نے عید صرف اپنی ماﺅں کے ساتھ منائی ہے جبکہ عید کی اصل اور حقیقی خوشی کے لئے ماں اور باپ دونوں کی بچوں کے پاس موجودگی انتہائی ضروری ہے۔ نانا، نانی، ماموں اور خالہ جتنا بھی خیال کریں، ماں جتنی بھی چاہت جتلائے، سب مل کر بھی باپ کی کمی کو ہرگز پورا نہیں کرسکتے۔ عدالتوں کو بھی ایسے مواقع پر خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں اور بچوں کو عید پر ان کے والد سے بھی ملنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے کیونکہ ایسے حالات میں اصل متاثرہ فریق والدین نہیں ہوتے جو صرف اپنی اناﺅں کے لئے بسے بسائے گھر کو تباہ اور بچوں کو بے یارو مددگار اور بے حال کردیتے ہیں بلکہ ماں باپ کی لڑائی میں محرومیوں کے شکار ہونے والے اور دو پاٹوں میں پسنے والے بچے ہوتے ہیں، خدارا اپنے بچوں پر رحم کریں اور خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچالیں....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.