حوا کی بیٹی پر ظلم آخر کب تک

خبر ہے کہ لاہور کے قریب واقع ضلع قصور کے قصبے پھول نگر میں مقامی دیہاتیوں نے تین خواتین پر جسم فروشی کا الزام لگا کر سزا کے طور پر انہیں سرعام برہنہ کیا اور ان کی پٹائی کی۔ مقامی پولیس نے بھی الٹا خواتین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جسم فروشی اور اس کا دھندا کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ تعزیرات پاکستان کے تحت کسی بھی خاتون کو سرعام برہنہ کرنے کی سزا موت ہے۔ لیکن پھولنگر پولیس نے ان خواتین کو تو پابند سلاسل کر دیا ہے لیکن انہیں سر عام رسوا کرنے والوں کیخلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی ۔ عینی شاہدین کے مطابق ان میں سے دو خواتین کو ملتان روڈ پر لا کر ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور ان کے اعترافی بیانات کی ویڈیو فلم بنائی گئی۔ ان دونوں عورتیں کو گاؤں کی ایک خاتون شہناز عرف سراجو کے گھر سے محلہ داروں نے پکڑا تھا۔ شہناز عرف سراجو پر اس کے محلے داروں نے جسم فروشی کرنےاور اپنے گھر میں عصمت فروشی کا اڈہ چلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ جب سینکڑوں مشتعل افراد نے اس کے گھر پر حملہ کیا تو وہ خود تو موجود نہیں تھی البتہ دو عورتیں مشتعل لوگوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ مشتعل حملہ آوروں نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور فریج ٹی وی سمیت گھر کا تمام سامان لوٹ لیا۔ پکڑی جانے عورتوں کو مارتے پیٹتے ہوئے پورے دیہات سے گزارا گیا اور پھر مرکزی شاہراہ ملتان روڈ (جی ٹی روڈ) پر لاکر ان کے کپڑے پھاڑے گئے۔ شہناز عرف سراجو کچھ دیر میں پہنچی تو اسے بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوروں کی قیادت مقامی مذہبی شخصیت نے کی پولیس کے موقع پر پہنچنے پر عورتوں کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔

اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا حوا کی بیٹیوں کی رسوائی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات معمول کا حصہ ہیں البتہ منظر عام پر صرف وہی آتے ہیں جو میڈیا کے نوٹس میں آجائیں۔ پاکستان میں عورتوں پر ظلم کی داستان کس قدر خوفناک ہے اس کا اندازہ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات کے سامنے آنے والے اعدادو شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کے دوران خواتین پر تشدد کے قریباً ساڑھے سات ہزار واقعات درج ہوئے ہیں لیکن اس تحقیق سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دراصل یہ تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ بڑی تعداد میں تشدد کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ دو ہزار آٹھ میں یوں تو خواتین پر تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے لیکن دو واقعات ذرائع ابلاغ پر چھائے رہے جن میں ایک بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں بابا کوٹ کے مقام پر پیش آیا جہاں مبینہ طور پر چند خواتین کو تشدد کے بعد زندہ درگور کر دیا گیا۔ اس واقعہ کے بارے میں بعد میں متضاد اطلاعات سامنے آئیں جن میں پولیس کے مطابق صرف دو خواتین کو تشدد کے بعد ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا جبکہ غیر سرکاری تنظیمیں یہ دعوی کر رہی ہیں کہ خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ دوسرا واقعہ صوبہ سندھ میں پیش آیا جب تسلیم سولنگی نامی خاتون کے والد نے دعوٰی کیا کہ ان کی بیٹی کو کتوں کے سامنے بھگایا گیا تھا اور تشدد کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والی عورت فاؤنڈیشن کی پہلی سالانہ رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار آٹھ میں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے جن کی تعداد چار ہزار چار سو سولہ ہے جبکہ سندھ ایک ہزار تین سو اسی واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ صوبہ سرحد میں سات سو اناسی، بلوچستان میں سات سو ستاسٹھ اور وفاقی دارالحکومت میں دو سو نو واقعات پیش آئے ہیں۔ اب معاشرہ بیدار ہو رہا ہے اور خواتین پر تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن پھر بھی یہ کم ہیں کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہر پانچ میں سے چار خواتین پر کسی نہ کسی شکل میں تشدد ہو رہا ہوتا ہے تنظیم کی اسلام آباد پراجیکٹ مینیجر ربیعہ ہادی نے بتایا ہے کہ سب سے زیادہ واقعات اغواﺀ کے پیش آئے ہیں جو کل واقعات کا تئیس فیصد ہیں اور اگر قتل اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو ملایا جائے تو ان کی تعداد پچیس فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران ایسے ایسے ہولناک واقعات سامنے آئے ہیں کہ جن سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاتون سے شادی سے انکار کردیا تو اسے زہر کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ قبائلی تنازعات یا ذاتی دشمنیوں میں اپنے خاندان کی خواتین اور مخالف کو قتل کر دیا جاتا ہے اور الزام غیرت کے نام پر قتل کا دے دیا جاتا ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.