اسباق کی منصوبہ بندی

اسباق کی منصوبہ بندی (Lesson Planning) تدریسی عمل کو مؤثر بناتی ہے اور اس کے ذریعے اساتذہ کرام اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتے ہیں اور کم سے کم وقت میں کمرۂ جماعت میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ تدریسی عمل کو طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور خوشگوار بنایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اُن کی آموزش Learning کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور طلبہ و طالبات سبق کو مؤثر انداز میں ذہن نشین کرلیتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ تدریسی عمل کو شروع کریں اور اسی حکمتِ عملی کے ساتھ اس کو انجام دیں گے تو ہمارے طلبہ و طالبات سبق کو رٹنے کے بجائے اس کو سمجھ کر پڑھیں گے اور ’’رٹو طوطے ‘‘بننے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام مکمل کریں گے اور یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تا عمر اُن کے کام آئے گی۔

اسباق کی منصوبہ بندی محض اپنے ذہن میں کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تحریری طور پرموجود ہونا چاہئے ، تحریری منصوبہ بندی کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ معلم (Teacher) اپنے ہدف کے مطابق اپنے سبق کو ختم کرے گا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرے گا ، جب کہ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی وجہ سے معلم اسکول حاضر نہیں ہوسکا تو صدرِ مدرسہ (Principal) جب متبادل استاد کو بھیجیں گے تو وہ استاد منصوبہ بندی کے مطابق طلباء کو وہ کام کرادیں گے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ دوسرا استاد شائد سبق کو اس طرح نہ پرھا سکے جیسا کہ آپ نے سوچا تھا لیکن کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ طلباء کا اس دن کا وقت ضائع نہ ہوگا۔

سبق کی منصوبہ بندی کے لیے درجِ ذیل نکات ضروری ہیں جن کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے۔

خاکہ: سب سے پہلے منصوبہ بندی کا خاکہ بنائیے کہ آپ کی جماعت کون سی ہے؟ کتنے طلبہ ہیں؟ کو ن سا مضمون ہے؟ عنوان؟دورانیہ ؟مثلاً
جماعت: پنجم مضمون : اردو (نثر ) تعداد طلبہ:

عنوان: درختوں نے کہا دورانیہ (وقت ) : ۵ دروس (5 پیریڈ ) معلم اپنی سہولت کے مطابق دورانیہ کم یا زیادہ کم کرسکتے ہیں۔

مقاصد ِتدریس: مقاصد وہ ہوتے ہیں کہ آپ اس سبق کے ذریعے طلبہ کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ یا آپ کے خیال میں اس سبق کی تدریس کے بعد طلبہ میں کس قسم کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔ مقاصد تدریس دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) عمومی (۲) خصوصی

عمومی مقاصد: طلبہ کی پڑھائی کی استعداد کار کو بہتر بنایا۔(۲) طلباء کے تلفظ (Pronunciation ) کو درست کرنا(۳) طلبہ کو نئے الفاظ سے روشناس کرانا

خصوصی مقاصد: اس سبق کی تدریس کے بعد انشاء اﷲ طلباء اس قابل ہوسکیں گے کہ وہ
(۱) سبق کا خلاصہ تحریر کرسکیں گے۔
(۲) کسی بھی موضوع پر کم از کم پندرہ جملوں پر مشتمل آپ بیتی لکھ سکیں ۔
(۳) سبق کے نئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرسکیں گے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقاصد تدریس قابل جانچ Measurable اور واضح ہونے چاہییں ۔ مبہم اور غیر واضح مقاصد کی صورت میں سبق کی منصوبہ بندی بھی متاثر ہوگی اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہ ہوسکیں گے۔
طریقہ تدریس: (۱) ذہنی آمادگی (۲) بلند خوانی (۳) تفہیمی سوالات (۴) نئے الفاظ کے معنی (۵) سرگرمیاں (۶) سبق کا خلاصہ (۷) تفویضِ کار (HOME WORK )

جب آپ منصوبہ بندی کا خاکہ بنا لیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو ایک ایک حصے کی منصوبہ بندی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ہر حصے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں کہ یہ کام کیسے کیا جائے گا۔

مؤثر ذہنی آمادگی: (Effective Motivation)
سبق کی تدریس کے لیے مؤثرذہنی آمادگی ازحد ضروری ہے۔سبق شروع کرنے سے پہلے طلبہ و طالبات میں اس کے لیے تجسس پیدا کرنا تاکہ وہ سبق میں بھرپور دلچسپی لیں اور سبق کو بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پڑھیں گے ۔ جب طلبہ سبق میں بھر پور دلچسپی لیں گے تو استاد کا باقی کام آسان ہوجاتاہے۔ یاد رکھیئے جب طلبہ و طالبات سبق میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پڑھیں گے تو وہ مشکل سے مشکل سرگرمی بھی بہ آسانی کرسکیں گے ، اس کے برعکس جب ان کی سبق میں دلچسپی نہیں ہوگی تو وہ آسان مشق کو بھی درست طریقے سے نہیں کرسکیں گے۔جب کہ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ٔ تربیت بھی یہی تھا کہ آپ ؐ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے لوگوں مں اس کے متعلق تجسس پیدا کرتے تھے تاکہ لوگ پوری طرح متوجہ ہوجائیں اور آپؐ کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنیں۔

یہاں ہم آمادگی کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ( اساتذہ کرام اس کے علاوہ بھی کوئی سرگرمی جس کو وہ مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں )

مثال: استاد کمرہ ٔ جماعت میں داخل ہوکر طلبہ/طالبات کو مخاطب کرکے یہ دریافت کریں گے کہ دنیا میں کون کون سی گیسیں پائی جاتی ہیں؟ طلبہ اس کا جواب دیں گے ۔ پھر استاد دوسرا سوال پوچھیں گے کہ ہم سانس لینے میں کون سی گیس استعمال کرتے ہیں اور کون سی گیس خارج کرتے ہیں؟ طلبہ ان سوالوں کا جواب دیں گے کہ ہم آکسیجن گیس کی مدد سے سانس لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ پھر استاد طلبہ و طالبات کو بتائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے درخت بنائے ہیں جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اورہماری خدمت کرتے ہیں ، اس کے علاوہ یہ ہمارے ماحول کو بھی بہتر بناتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے درختوں میں ہمارے لیے بے شمار فائدے رکھے ہیں اور اسی بارے میں آج ہم سبق ’’درختوں نے کہا‘‘ پڑھیں گے ۔اس کے علاوہ معاون امدادی اشیاء کے ذریعے بھی ذہنی آمادی کی جاسکتی ہے۔

بلند خوانی (Loud reading)
طلبہ سے بلند خوانی کرائی جائے گی ۔ اس دوران معلم طلباء کی کمزوریوں کو نوٹ کریں گے اور ساتھ ساتھ ان کو الفاظ کا درست تلفظ اور ادائیگی کا طریقہ بھی سمجھاتے رہیں گے۔بلند خوانی میں کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو موقع دیا جائے اس لیے چند جملوں سے زیادہ کسی کو پڑھنے نہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو بچے پڑھنے سے کترا رہے ہوں ان کو سامنے لایا جائے تاکہ ان کی جھجک دور ہو اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ایسے بچے ابتداء میں تو شرمائیں گے، گھبرائیں گے اور اٹک اٹک کر پڑھیں گے لیکن معلم کی ذرا سی توجہ سے ان بچوں کی یہ خامیاں دور ہوجائیں گی اور ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔بلند خوانی کے دوران معلم ہر پیراگراف کے بعد طلباء کو اہم نکات سمجھاتے بھی رہیں گے اور ضرورت کے مطابق ان سے سوالات بھی پوچھتے رہیں گے تاکہ طلبہ یکسانیت کا شکار (Bore) نہ ہوجائیں اور وہ سبق پربھرپور توجہ رکھیں ۔

تفہیمی سوالات:(Relevant Questions)
سبق کی تدریس کے بعد تفہیمی سوالات کی اپنی ایک اہمیت ہے۔جب طلبہ و طالبات سبق پڑھ لیتے ہیں تو اس کے فوراً بعد مؤثر سوالات کے ذریعے سبق کا اعادہ کیا جاتا ہے اور سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ویسے تو تدریسی عمل کے دوران سوالات کی تیکنک ایک الگ اورمکمل موضوع ہے لیکن فی الوقت ہم اپنی توجہ صرف منصوبہ بندی پر مبذول رکھتے ہیں۔سوالات اسی وقت اچھے اور مؤثر ہوسکتے ہیں جب معلم پہلے خود سبق کا اچھی طرح مطالعہ کرکے سبق سے متعلق سوالات تیار کریں گے۔یہاں ہم مثال کے طور پرچند سوالات پیش کررہے ہیں۔
(۱) بچے نے خواب میں کیا دیکھا؟ (۲) کیا درخت بالکل نکمے اور بیکار کھڑے ہوتے ہیں؟ (۳) ہمیں صاف ہوا اور آکسیجن کون فراہم کرتا ہے؟ (۴) درختوں سے ہمیں کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ (۵) اگر اﷲ ہمیں درختوں جیسی نعمت عطانہ کرتے تو دنیا کا ماحول کیسا ہوتا؟ (۶) اگر آپ درخت ہوتے تو انسانوں سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے؟ (۷) ہم درختوں کا خیال کس کس طریقے سے رکھ سکتے ہیں؟

ایسے چند سوالات کے ذریعے سبق کا اعادہ (Revision)ہوجائے گااورمعلم کو یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ بچوں نے ان کے درس کو کس قدر سمجھا ہے اور معلم طلباء تک اپنی بات پہنچانے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔اگر تدریس میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی نکتہ وضاحت طلب ہے تو وہ تفہیمی سوالات کے ذریعے سامنے آجائے گا اور معلم فوری طور پر اس کمی یا کمزوری کو پورا کرلیں گے۔ضرورت کے مطابق ایک یا دو تفہیمی سوالات کاپی میں تحریر بھی کرائے جاسکتے ہیں اور ان کو ٹیسٹ یا امتحان میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

نئے الفاظ کے معنی :
تفہیمی سوالات کے بعد سبق میں آنے والے ایسے الفاظ جو کہ طلباء کے لیے نئے ہوں ان کے معنی تختہ سیاہ/سفید (Black/white Board) پر تحریر کرائے جائیں گے۔ اس کے ذریعے طلباء کے ذخیرہ ٔ الفاظ(Voccabulary ) میں اضافہ ہوگا۔ الفاظ معنی لکھوانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو لغات (Dictionary) کے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے گی اور اس کے لئے طلباء کو یہ ہدفTask) (دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے علاوہ سبق کے سات یا آٹھ نئے الفاظ کے معنی لکھ کر لائیں۔

سرگرمیاں: (Activities)
سبق کی تدریس کے بعد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے اور طلبہ کھیل کھیل میں سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرلیتے ہیں۔یہ بھی سبق کے اعادے کا ایک طریقہ ہے۔سرگرمیاں مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں مثلاً طلباء سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ درختوں کے فوائد کا ایک چارٹ Mind map بنائیں۔درختوں کے فوائد کارڈ شیٹ پر لکھ کر لائیں اور معلم طلبہ و طالبات کی ان کاوشوں کو کمرہ ٔ جماعت میں نوٹس بورڈ یا کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کریں تاکہ طلباء کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے اور اس عمل سے طلبہ کے اندر مثبت مسابقت کا ایک جذبہ بھی بیدار ہوگا۔درختوں کے فوائد کا سورج بنوایا جاسکتا ہے۔اﷲ کی ایسی دیگر نعمتوں کا چارٹmind map بھی بنوایا جاسکتا ہے۔
 

image

سبق کا خلاصہ:
طلباء سے کہا جائے گا کہ وہ اس سبق کا خلاصہ تحریر کریں لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ کلاس چہارم تا ششم تک کے طلباء از خود خلاصہ نہیں لکھ سکیں گے تا وقتیکہ کہ معلم ان کو بھرپور رہنمائی فراہم کرے اور ان کو پہلے یہ بات سمجھائیں کہ خلاصہ کیا ہوتاہے اوراُس میں سبق یا کہانی کے کون کون سے نکات سامنے لانے چاہییں، اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ خلاصہ لکھتے وقت کہانی کو تبدیل نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف مختصر کیا جائے گا اور اس کے آخر میں اس کا نتیجہ یا Moral ضرور تحریر کیا جائے گا۔

تفویضِ کار: (HOME WORK )
سبق کے آخر میں دیئے گئے سوالات تفویضِ کار (HOME WORK ) کے طور پر دیئے جائیں گے۔

حرفِ دعا: مکمل منصوبہ بندی کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوجا بلکہ اب اﷲ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوجائیں تاکہ وہ ہماری اس کوشش کو کامیاب کرے۔یہ بھی نبی اکرم ﷺ کا طریقہ کار اور آپ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے کہ آپ ؐ ہر معاملے میں اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے۔ دعا صرف اس وقت نہ مانگی جائے جب ہم کچھ کر نہ سکیں بلکہ تمام تر وسائل دستیاب ہونے اور بظاہر آسان ترین کام کی تکمیل بھی دراصل اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہوسکتی اس لیے آخر میں دعا ضرور مانگیں کہ ’’ یا اﷲ میں نے اپنے محدود علم کے مطابق یہ منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی ہے تُو اسے قبول فرما اور مجھے اس منصوبہ بندی کے مطابق اپنا کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے ایک اچھا معلم بننے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

نوٹ: تحریر کی گئی منصوبہ بندی کو حفاظت سے رکھیں یہ آئندہ بھی آپ کے کام آئے گی اور معلم طلبہ کی ذہنی سطح اور صورتحال کے مطابق اس میں مناسب تبدیلیاں کرکے اس کو دوبارہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520441 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More