حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ایک آدمی نے پوچھا یا
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کون سی چیز میری جہالت کی حجت کو ختم کرے
گی آپ ؐ نے فرمایا علم پھر اس نے پوچھا کون سی چیز علم، کی حجت کو ختم کرے
گی آپؐ نے فرمایا عمل۔حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن کسی بندے کے
دونوں قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے چار باتیں نہ
پوچھ لی جائیں اس نے اپنے جسم کو کن کاموں میں استعمال کیا؟ اپنی عمر کہاں
لگائی اور مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ اور اپنے علم پر کیا عمل
کیا؟
قارئین! اسلام کی آمد سے پہلے دنیائے عرب اور پوری انسانیت کی حالت کیا
تھی، تہذیب کے آزر تمدن اور ترقی کے نام پر کس کس طریقے سے جہالت کے طریقوں
پر عمل کر رہے تھے قیصر وکسریٰ کی بظاہر متمدن طاقتوں کے اندرون خانہ اور
ظاہر میں بھی کس کس طرح کی جاہلانہ رسومات ترقی کے نام پر اختیار کی گئی
تھیں اس بارے میں تاریخ عالم کی کتابیں کھول کر دیکھ لیجیے۔ علم برائے علم
کچھ بھی نہیں ہے علم کی بنیاد پر کیے جانیوالے عمل سے اگر انسان اور
انسانوں پر مشتمل معاشروں میں فلاح وبہبود اور مثبت رویہ تشکیل پائیں تو اس
علم و عمل کو نافع کہا جاتا ہے ۔ ہمارا دل اس بات پر اکثر مضطرب رہتا ہے کہ
پاکستان اور آزاد کشمیر کو جو پوٹینشل اﷲ تعالیٰ نے عطا کیا ہے بہت ساری
وجوہات کی بنا پر وہ تمام کی تمام طاقت نہ تو استعمال ہو پا رہی ہے اور نہ
ہی اس کے مثبت اثرات پورے معاشرے تک پہنچ رہے ہیں ہم نے پہلے بھی آپ کی
خدمت میں عرض کیا تھا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کو معمولی مت سمجھئے
پاکستان کا وجود بذات خود ماورائے عقل ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا وجود دو
نظریوں، دو عقیدوں، دو مختلف معاشروں کی عملی عکاسی ہے ایسٹ انڈیا کمپنی سے
شروع ہونے والے اقتدار سے لے کر 1857ء کے بعد انگریز بہادر کا برصغیر میں
براہ راست اقتدار سنبھالنا، 60فیصد سے زائد علاقے میں براہ راست حکومت کرنا
اور اس کے بعد 40فیصد علاقے میں بظاہر آزاد مہاراجوں، نوابوں اور اپنے دیگر
ایجنٹوں کے ذریعے ایک طاقتور اقتدار کی بنیاد رکھنا ایسی باتیں ہیں کہ
جنہیں سمجھ کر یہ سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پر
امن طریقے سے سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت
پاکستان کے نام سے قائم کر دی اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے خوابوں
کو عملی شکل دیدی اگرچہ اقبالؒ کا یہ خواب ابھی تکمیل کے مراحل سے گزر رہا
ہے اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر ابھی تک مسلمانوں نے ایک لڑی
میں تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھے ہو کر حرم کی پاسبانی کرنی ہے انشاء اﷲ
تعالیٰ وہ وقت دور نہیں ہے اس سب کے بعد ذرا یاد کیجئے کہ جب پاکستان بنا
تھا تو اس مملکت کی حالت زار کیا تھی ان انتہاؤں کو چھوتی ہوئی حالتِ زار
کہ سوچ کر بھی روح کانپ اٹھتی ہے ہندوؤں کی سازش سے پنجاب میں سکھوں نے
مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں پورے ہندوستان میں لاکھوں مسلمان پاکستان
کے نام پر ذبح کر دیئے گئے کئی ملین مسلمانوں نے اپنی جان وعزت کے تحفظ کے
لیے کلمے کے نام پر بننے والی سلطنت کی جانب ہجرت کی۔ یہ سرسید احمد خان کی
علی گڑھ تحریک کا کرشمہ اور کارنامہ تھا کہ اس عظیم ادارے سے فارغ التحصیل
ہونے والے نوجوانوں نے پاکستان بننے کے بعد اس مملکت کی باگ ڈور سنبھالی
اور پھر وہ وہ کرامتیں سامنے آئیں کہ جنہیں پڑھ کر ہی عقل دنگ رہ جاتی ہے
اس دور کے قلم کاروں سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، عبداﷲ حسین،
عصمت چغتائی، کرشن چندر، قدرت اﷲ شہاب اور مختلف شاعروں نے حالات کی جو
عکاسی کی ہے وہ ہماری تاریخ کا اثاثہ ہے سرسید احمد خان کی علمی تحریک کے
ردعمل میں جدید تعلیم کی ایک انتہا کے مقابلے میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ
العلماء سمیت دیگر مذہبی تعلیم کے ادارے بھی قائم ہوئے اور بلاشبہ اسلامی
شناخت کے تحفظ کے لیے بلاتفریق مسلکی اختلاف اہل حدیث، اہلسنت اور دیگر
مکاتب فکر کے دردِ دل رکھنے والے مخلص لوگوں نے مشنری بنیادوں پر کام کیا
اگرچہ تقسیم ہند کے معاملے پر مذہبی طبقے اور انگریزی تعلیم حاصل کیے روشن
خیال مسلمان طبقے میں اختلافات پائے جاتے تھے لیکن اختلاف ہی تو دراصل بحث
مباحثہ کے بعد ایک صائب رائے کو جنم دیتا ہے ہاں اس اختلاف کو ان حدوں تک
نہیں جانا چاہیے کہ جہاں پر فریق مخالف کی عزت، گریبان اور آخر میں جان بھی
خطرے میں آجائے۔
قارئین! اس تمہید کے بعد آئیے اب چلتے ہیں کالم کے عنوان کی طرف۔ جس طرح
پاکستان بننے سے پہلے سرسید احمد خان کو تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا سب
سے بڑا محسن کہا جاتا ہے اسی طرح پاکستان بننے کے بعد ہم دل سے سمجھتے ہیں
کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے سب سے
بڑے محسن ہیں جنہوں نے تعلیمی میدان میں چند سال میں پاکستان کو پچاس سالوں
سے دگنی ترقی دیدی۔ آج ہم ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اگر ’’سرسیدِ ثانی‘‘ کہیں
تو اس میں یقینا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ پاکستان کی ترقی کے لیے
ضروری ہے کہ سرسید احمد خان کے اصل پیروکار ڈاکٹر عطاء الرحمن کی خدمات سے
ایک مرتبہ پھر استفادہ کیا جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر مختار
احمد کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ایچ ای سی کا نیا چیئرمین
مقرر کر دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی نہ کسی حیثیت میں ڈاکٹر عطاء
الرحمن کے علم اور تجربے سے پاکستانی قوم کو فوائد پہنچانے کے لیے انہیں
تعلیم کے شعبے کیساتھ جوڑا جائے یہاں ہم بتاتے چلیں کہ ہم نے استاد محترم
راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93 ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین
پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کے کچھ
انٹرویوز کیے جس میں انہوں نے جو باتیں کیں وہ روح کی سچائیوں سے نکلنے
والی باتیں تھیں ۔سابق وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی و آئی ٹی ڈاکٹر عطا الرحمن
نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین
کی حیثیت سے پانچ ہزار سے زائد لائق ترین پاکستانی طلباء وطالبات کو Phdکی
ڈگری حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھیجا لیکن
افسوس کی بات ہے کہ جو نہی زرداری حکومت برسرِ اقتدار آئی انہوں نے ان لائق
ترین پاکستانی سٹوڈنٹس کے سکالرشپس روک دیئے۔ جس کی وجہ سے یہ لائق ترین
پاکستانی بچے بیرونِ ملک مسجدوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ میرے
ضمیر نے گوارہ نہ کیا کہ میں یہاں پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین بن
کر بیٹھا رہوں اور یہ بچے ہماری حکومت کے غلط فیصلے کی وجہ سے دربدر ہو کر
رہ جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے HECکی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا۔
ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم
بجٹ کا صرف 1.8فیصد ہے۔ جبکہ ملائیشیا کے حکمران ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آج
سے تیس سال قبل تعلیم کا بجٹ 30فیصد کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 56اسلامی
ممالک میں87فیصد ہائی ٹیک پراڈکٹس ایکسپورٹ ملائیشیا کر رہا ہے اور
باقی55اسلامی ممالک مل کر تیرہ فیصد ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا
کا سرمایہ کار بشمول پاکستان ملائیشیا کا رُخ کر رہے ہیں۔پاکستان میں جب
مجھے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی تو اُس وقت بھارت کی کمپیوٹرز
پراڈکٹس ایکسپورٹ ساٹھ ارب ڈالر سالانہ تھی جبکہ پاکستان صرف تیس ہزار
ڈالرز کی ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ہم ے ہنگامی پالیسی اختیار کی اور یہ
ایکسپورٹ تیس ہزار سے بڑھ کر ایک ارب ڈالر ز تک جا پہنچی۔ پاکستان میں اس
وقت بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ تمام انڈسٹری ٹیکس فری ہے۔ اور یہ
حکم میں نے جاری کروایا تھا۔ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہاکہ بھارت سے ہم تعلیم
کی فیلڈ میں چالیس سال پیچھے ہیں۔ پاکستان میں چار سطح پر تعلیم کو بہتر
بنانا ہو گا اور یہ درجے پرائمری ، سیکنڈری، ہائیر ایجوکیشن اور ٹیکنیکل
ایجوکیشن ہیں۔ ہماری سیاسی حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم کا کوئی نمبر نہیں
ہے۔تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنے ایجنڈاز کے اندر تعلیم کو خاطر خواہ اہمیت
نہیں دے رہے۔ پوری دنیا سے فیس بک پر کیے جانے والے سوالات کا جواب دیتے
ہوئے ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ اگر اُنہیں اب بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن
یا تعلیم کی وزارت دے دی جائے تو مناسب فنڈنگ اور اختیارات کے بغیر اس کا
کوئی فائدہ نہیں ہے۔برطانیہ سے کئے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جوہری سائنسدان
سیاست میں آکر عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے عملی تبدیلی کی کوشش کیوں نہیں
کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے سب سے بڑے
سائنسدان ہیں اور اُن کی فیلڈ اپلائیڈ انجینئرنگ ہے۔اُنہیں سیاست میں ڈالنے
کی بجائے اُن کی تعلیم اور مہارت کا فائدہ اُن کی فیلڈ کے مطابق لیا جائے
تو پاکستان بے انتہا ترقی کر سکتا ہے۔اسی طرح میں ایک ماہرِ تعلیم ہوں۔ میں
نے 1971ء میں کیمبرج یونیورسٹی امریکہ سے Phdکی تھی او ر میری فیلڈ آرگینک
کیمسٹری تھی۔میں نے یورپ اور امریکہ میں 110کتابیں اور سات سو سے زائد
ریسرچ پیپرز لکھے ہیں جو پوری دنیا میں مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے
نصاب کا حصہ ہیں۔ مجھ سے بھی اگر قوم فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے تو میری فیلڈ
کے مطابق مجھے ذمہ داریاں دی جائیں۔ اگر میں نے الیکشن لڑا بھی تو یقین
جانیئے کہ ناکامی کے حوالے سے بھی نیا ریکارڈ قائم کروں گا۔ڈاکٹر عطا
الرحمن نے کہا کہ ملائیشیاکے بادشاہ نے اُن کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں
ملائیشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی میرے نام سے موسوم کر دی ہے۔ہمارا دین بھی
ہمیں علم کا درس دیتا ہے۔
قارئین! اسی طرح تھوڑا ہی عرصہ قبل ڈاکٹر عطا ء الرحمن نے ایک اور انٹرویو
میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات میں پاکستان کو درپیش چیلنجز پر بھی کھل
کر بات کی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کہا کہ آزادکشمیر کے طلباء وطالبات
انتہائی ذہین اور ٹیلنٹڈ ہیں ۔ آزادکشمیر میں اسوقت دو یونیورسٹیاں کا م کر
رہی ہیں ۔ سٹوڈنٹس کو چاہیے کہ روائتی تعلیم حاصل کرنیکی بجائے مستقبل کے
مضامین میں سپشلائز کریں ۔ آنیوالا دور جینز ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی
کا ہے ۔ ہمیں چاروں سطح پر ایجوکیشن کو ایک ساتھ لیکر چلنا ہو گا۔ پرائمری
، سکینڈری ، ٹیکنیکل اور ہائر ایجوکیشن میں یکساں محنت کئے بغیر ہم ترقی
نہیں کر سکتے ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی بھی کمی نہیں اور وسائل بھی بے انتہاء
ہیں ۔ تعلیم ، انٹر پری نور شپ ، زراعت اور صنعتوں پر توجہ ، توانائی کے
بحران پر قابو پا کر اور سب سے اہم بات درست لیڈر شپ کے انتخاب کے ذریعے
پاکستان دس سالوں کے اندر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا
ہے ۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کر نا ہو گا۔
میں نے پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے ایک قابل عمل روڈ میپ بناکر حکومت
پاکستان کو دیا ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا بحران دیانتدار حکمرانوں کی کمی
ہے ۔ جس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں ۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے
میں نے جو تجاویز دی ہیں وہ قابل عمل بھی ہیں اور پاکستان کا اربوں ڈالرز
کا سرمایہ ان پر عمل کرنے سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ گزشتہ 35سال سے ہم غلط
راستے پر جا رہے ہیں ۔ تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنا انتہائی مہنگا عمل ہے
اور ایک یونٹ کی قیمت پچاس روپے تک چلی جاتی ہے ۔ جبکہ ہائیڈرو پاور جنریشن
کے ذریعے اس کی لاگت صرف ایک روپیہ فی یونٹ آتی ہے ۔ اسی طرح کوئلے کے وسیع
ترین ذخائر پاکستان میں موجود ہیں ہم ان سے استفادہ نہیں کر رہے ۔ پاکستان
میں ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے انتہائی وسیع مواقع موجود ہیں حیدرآباد
سے لیکر پورے سندھ میں ایسا قدرتی "Air Corridor"یعنی ہوا کی راہ داری
موجود ہے ۔ جس سے بے پناہ بجلی پید اکی جا سکتی ہے ۔ ہم اس سے فائدہ نہیں
اٹھا رہے پاکستانی بچے دنیا کے ذہین ترین اور لائق ترین بچوں میں شمار کئے
جاتے ہیں ۔ Aلیول اور Oلیول میں پاکستانی بچے پوری دنیا میں پہلی پوزیشن
حاصل کرتے ہیں پاکستان کی کل آبادی کا 56فیصد نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل
ہے ۔ یہ اتنی بڑی نعمت اور دولت ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ جلد ہی پاکستان میں
حالات درست ہو جائیں گے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ 2013کے انتخابات میں
صالح ، نیک اور اہل ترین قیادت کا انتخاب کرے تاکہ امتحان اور ابتلاء کی
گھڑیاں ختم ہو سکیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ امریکی جنگ سے اپنا دامن بچائے
کیونکہ امریکہ اور نیٹو نے پہلے عراق میں ظلم وستم کئے اور اب افغانستان
میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ انسانیت کے منافی ہے ۔ دہشتگردی کی آگ سے ہم
تب ہی نکل سکتے ہیں کہ جب ہم امریکہ کی اس جنگ سے اپنا دامن چھڑا لیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ اور راقم کے سوالوں کے
جوابات دیتے ہوئے ہنستے ہوئے بتایا کہ میں نے جہاں پاکستان میں درجنوں
یونیورسٹیز قائم کیں وہیں پر آزاد کشمیر میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی قائم کرنے کی نہ صرف منظوری دی تھی بلکہ اس کے لیے خطیر رقم
بھی مختص کی تھی اور میں فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اﷲ کی مہربانی سے میں
نے کشمیر کو مسٹ اور اپنے عزیز لائق شاگرد ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شکل میں دو
تحفے دیئے ہیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن نے پی ایچ ڈی میری شاگردی
میں کی ہے۔
قارئین! یہاں ہم کالم کے آخری حصے کی طرف سے جا رہے ہیں آزاد کشمیر میں
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ویمن یونیورسٹی باغ، کوٹلی
یونیورسٹی، پونچھ یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی ادارے ابھی بلوغت تک نہیں
پہنچے لیکن آزاد کشمیر یونیورسٹی جس کے وائس چانسلر ہمارے محترم اور مشفق
استاد ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی ہیں اور جن سے ہم نے زرعی یونیورسٹی
راولاکوٹ میں بی ایس سی آنرز کرنے کے دوران بہت سی باتیں سیکھی ہیں یہ
یونیورسٹی بالغ بھی ہو چکی ہے اور ہم درد دل سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ
اے جے کے یونیورسٹی کو اس وقت بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اس کی وجہ
خدانخواستہ یہ نہیں کہ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی محنت اور قابلیت میں
کسی قسم کی کمی پائی جاتی ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ
حکومتی توجہ دیگر معاملات کی طرف بٹ جانا ہے اگر ہم بغور جائزہ لیں تو آزاد
کشمیر یونیورسٹی اور میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آزاد کشمیر
کی دیگر یونیورسٹیز کی نسبت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے مسٹ کے قیام کا
سہرا سابق صدر راجہ ذوالقرنین خان اور ان کی ٹیم کے سر ہے اور یہ تحفہ
ظاہری بات ہے کہ سرسید ثانی ڈاکٹر عطاء الرحمن کا عطا کردہ ہے۔ مسٹ کے لیے
موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن جو اے جے کے یونیورسٹی کے وائس
چانسلر بھی رہ چکے ہیں اور مسٹ کے پہلے وائس چانسلر بھی تھے انتہائی
جانفشانی کیساتھ کام کر رہے ہیں اور انہوں نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے
ریڈیو آزاد کشمیر پر یہ وعدہ کیا تھا کہ مسٹ کو یونیورسٹیز کی رینکنگ میں
آخری درجے سے اٹھا کر دو سال کے اندر ٹاپ ٹین میں لے آئیں گے اسی طرح ڈاکٹر
سید دلنواز گردیزی وائس چانسلر آزاد کشمیر یونیورسٹی نے راقم اور استاد
محترم راجہ حبیب اﷲ خان کو ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی ٹھوس اور
مضبوط انداز میں تعلیمی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کا ذکر کیا تھا یہاں
سوچنے کی بات صرف اور صرف یہ ہے کہ یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں کو
سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کس نگاہ سے دیکھتے ہیں بدقسمتی سے آزاد
کشمیر میں تمام سرکاری اداروں کو عوام کی فلاح وبہبود اور انہیں سروس مہیا
کرنے والا ادارہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ سرکاری نوکری حاصل کرنے کا ایک وسیلہ
گردانا جاتا ہے چالیس لاکھ کے قریب آبادی والے آزاد کشمیر میں بالواسطہ اور
بلاواسطہ سرکاری نوکری کرنیوالے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے اور
یہ پورے پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہے پاکستان کے کسی بھی صوبے یا کسی بھی
علاقے میں اس شرح اور تناسب کیساتھ سرکاری ملازمین نہیں ہیں اور اسی وجہ سے
انتہائی افسوس سے آپ کے سامنے ہم یہ اعداد وشمار رکھ رہے ہیں کہ موجودہ بجٹ
میں آزاد کشمیر حکومت نے ترقیاتی کاموں کے لیے صرف دس ارب روپے رکھے ہیں جو
ابھی تک ہوا میں ہی کہیں معلق ہیں جبکہ چالیس ارب روپے سے زائد کی رقم دس
ارب روپے کے ترقیاتی کاموں پر محنت کرنے والے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں
دینے کی مد میں رکھے گئے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ہم اپنے ساتھ کتنے
مخلص ہیں بقول چچا غالب کہتے چلیں
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور ودراز
لافِ تمکیں فریب ساوہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
ہوں گرفتارِ الفتِ صیاد
ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز
وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں، بجائے حسرتِ ناز
مجھ کو پوچھا، تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
قارئین! کالم کے اختتام پر ہم صدر آزاد کشمیر چانسلر آف آل یونیورسٹیز آف
آزاد کشمیر سردار یعقوب خان سے کچھ اپیل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اچھی طرح علم
ہے کہ سردار یعقوب خان محنت مشقت اور عملی جدوجہد کی ایک زندہ کہانی ہیں
اور ان کی اپنی زندگی کی کہانی مختلف حیران کن واقعات سے عبارت ہے اور نئی
نسل کے لیے سردار یعقوب خان کی ذات کے مختلف پہلو بہت کشش رکھتے ہیں کہ
کیسے ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک انسان نے محنت مشقت کرتے
ہوئے نہ صرف روپیہ پیسہ کمایا بلکہ سماجی اور سیاسی سطح پر ایک اعلیٰ مقام
بھی حاصل کیا۔ سردار یعقوب خان کے سیاسی ناقدین ان کے متعلق جو بھی
اعتراضات اٹھاتے ہیں ہم اس پر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے کیونکہ موضوع کا
تعلق ان باتوں کیساتھ نہیں ہے لیکن آج ہم سردار یعقوب خان سے اپیل کرتے ہیں
کہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اے جے کے یونیورسٹی اس
وقت شدید مالی بحران کا شکار ہیں آپ چاہے وفاقی حکومت سے بات کریں یا چاہے
ان یورنیورسٹیز کو مالیاتی بنیادوں پر مستحکم کرنے کے لیے پوری دنیا میں
آباد کشمیریوں اور آزاد کشمیر میں رہنے والی سول سوسائٹی کی مدد لینے کے
لیے ’’فرینڈز آف یونیورسٹیز‘‘نامی کوئی تحریک شروع کر لیں اگر ماضی میں
’’مٹھی بھر آٹا سکیم‘‘ سے لے کر علی گڑھ یونیورسٹی جیسا عظیم الشان ادارہ
عام مسلمانوں کی مخلصانہ کاوشوں سے چل سکتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ کشمیری
اپنے وطن اور اپنے بچوں کے مستقبل سے غیر مشروط پیار کرتے ہیں ان اداروں کا
مستحکم ہونا بہت ضروری ہے ہمیں امید ہے کہ ہماری اس اپیل پر آپ غور ضرور
کریں گے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
سردار جی ایک ایبسٹریکٹ آرٹ گیلری میں گئے اور مختلف تصاویر دیکھتے دیکھتے
ایک فریم کے سامنے جا کر زور سے چیخ اٹھے اور آرٹسٹ سے کہنے لگے
’’جدید آرٹ کے نام پر یہ کیسی بے ہودہ تصویر لگی ہوئی ہے‘‘
آرٹسٹ نے ادب سے جواب دیا
’’جناب معافی چاہتا ہوں یہ تصویر نہیں شیشہ ہے ‘‘
قارئین! ہم بھی اس وقت جس چیز کو خوفناک قسم کی تصویر سمجھ رہے ہیں وہ کچھ
اور نہیں ہے ہمارا اپنا ہی عکس ہے ہمیں ڈاکٹر عطاء الرحمن، ڈاکٹر عبدالقدیر
خان اور ان جیسے دیگر مخلص لوگوں کی قدر کرنی ہو گی بصورت دیگر ڈاکٹر حبیب
الرحمن، ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی اور ان جیسے دیگر مخلص لوگوں کی حوصلہ
افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی ہو گی اﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین |