ایٹم بم کی ضرورت نہیں

 وہ نہ صرف گھر میں ،محلے گاؤں بلکہ اپنے پورے علاقے میں معتبر جانا جاتا تھا اس کی ایک بات سے کوئی دوسری بات کرتا تو اس کو معاشرتی سزا بھگتنی پڑتی تھی۔اس کا فیصلہ جیسا بھی ہوتا سب کو قبول ہوتا تھا ۔محلے ،گاؤں اس کے علاقے میں اگر کوئی لڑائی ،جھگڑا،یا کوئی اختلاف ہو جائے تو کسی پولیس یا تھانے کچہری والے کی یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں داخل ہو جائے۔کوئی خوشی غمی ہو یا کوئی تہوار وہ سب کو کنٹرول بھی کرتا اور ہدایت بھی دیتا کسی قسم کا کوئی پروگرام ہو اسی کی مشاورت سے ہی طے ہوتا۔وہ جدید دور کے نظریات کا مالک تھااس کو موجودہ دور کی ترقی پر کوئی شکوہ نہیں تھا اور نہ وہ اس کو برا کہتا بلکہ اس نے اپنی تمام فیملی کوہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی سارا خاندان ایل سی ڈی،کمپیوٹر،اور موبائل کی سہولتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتا تھا۔وہ اکثر یہ کہتا کہ جب سے موبائل آیا ہے تو بہت سے مسائل کا حل نکل آیا وقت بچ گیا انسان انسان کے قریب ہو گیا۔فاصلے مٹ گئے،دوریاں ختم ہو گئی وہ کام جو پہلے ہفتوں ،مہینوں میں ہوتے تھے اب ایک فون کال پر ہوجاتے ہیں اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ کہا جائے کہ موبائل فون نے دنیا کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔جب کبھی اس سے اس کے نقصانات کی بات کی جاتی تو وہ بڑے لمبے دلائل دے کر اور بڑے دعوے سے یہ کہہ کر جواب دیتا کہ اپ اس کا ٹھیک استعمال کریں یہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس چیز کو کس طرح استعمال کرتا ہے وہ جہاں تک کہتا کہ انسان کی زبان بھی ہے اس کا ٹھیک استعمال انسان کو مومن بنا دیتا ہے اور غلط استعمال بدنام اور برباد کر دیتا ہے۔کیا اس کو کاٹ کر پھنک دیا جائے، اس طرح کہ ہزاروں دلیلوں سے وہ آج کے دور کی ٹیکنالوجی کا دفاع کرتا، مگر انسان ہمیشہ وہی جانتا ہے اور سمجھتا ہے جو وہ خود کرتا ہے یا دیکھتا ہے۔دوسرا کیا سوچتا ہے یا کرتا ہے یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب انسا ن کا راز کھلتا ہے۔یا جب انسان بے نقاب ہوتا ہے وہ دفاع کرنے والا آج تنہا ہے ،وہ بے بس ہو گیا اپنی اولاد کے سامنے ،پہلے کہا جاتا تھا کہ ٹی وی نے معاشرہ خراب کر دیا پھر یہ الزام کیبل اور ڈیش ہر آیا،پھر تبصرے ہونے لگے کہ انڈین فلمیں اور ڈراموں نے ہمارا معاشرہ خراب کر دیا،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر بھی الزامات لگے ابھی اس تباہی سے نکلے بھی نہ تھا کہ ایک ایسی موذی چیز ہمارے گھروں میں داخل ہوئی جس کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی اور بربادی کا مقابلہ بھی کوئی نہیں کر سکتا،یہ ایسے چوہے کی مانید گھروں کے گھر اجھاڑ رہا ہے کہ اس کے بعد خاندان اور معاشرے کے علاوہ اخلاقی اقدار،خاندانی اقدار،اور رویوں کو اس طرح چاٹتا جا رہا ہے کہ پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا،یہ معاشرے کا ایک ایسا کنسر بنتا جا رہا ہے جس کا علاج سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کرتاعام آدمی مرد ، عورت،بچے جوان بوڑھے یہ سب کی دسترس میں ہونے کی وجہ سے اس کا اثر زیادہ ہے ۔وہ خاندان جو اپنی اولادوں پر فخر کرتے تھے جو معاشرے اپنی روایات پر صدیوں سے قائم تھے آج ایک موبائل فون کی وجہ سے ٹوٹتے جا رہے ہیں،نہ بیٹے کا پتہ نہ بیٹی کا نہ بھائی کی خبر نہ بہن کا ہوش سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں ایک نارمل سروے کے مطابق ایک سال میں پشاور جیسے نظریاتی صوبے سے چھ سو لڑکیا ں دوسرے شہروں کے لڑکوں کے ساتھ خاندان کو چھوڑ کر بھاگ گئیں۔باقی شہروں گاؤں،دیہاتوں کا حال اس سے برا ہے۔یہاں تک بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ چار چار بچوں کی مائیں ان کو چھوڑ کر چلی گئیں ۔یہ بھی ائے روز سننے کو ملتا ہے کہ اب اولادیں اپنے والدین کے سامنے خاندانوں میں رشتے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں جب ان کا راز کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ فون پر کسی سے چکر چلا رہے ہیں۔یہ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بہت سے ہنستے بستے گھر اس کی وجہ سے اجڑ گئے ،یہ زہر دونوں طرف کام کر رہا ہے کئیں پر شوہر ،اور کئیں پر بیوی اس کا غلط استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے ان میں لڑائی ہوتی ہے اور پھر بات بڑھتے بڑھتے بہت دور تک چلی جاتی ہے۔اج کل یہ بھی سب کے تجربے اور مشاہدے میں ہے کہ سکول ،کالج،اور دوسرے اداروں میں جانے والے بچے بچیاں کام ،یا پڑھائی کم اور میسج زیادہ کرتے ہیں،یہاں تک کہ دن رات وہ فون کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔وہ وقت جو کبھی اس طرح کے بچے اپنے خاندان کو دیا کرتے تھے ،وہ وقت جو کبھی اس طرح کے بچے اپنی پڑھائی پر دیا کرتے تھے،وہ توجہ جو کبھی اس طرح کے بچے اپنے بہن بھائیوں ماں باپ پر دیا کرتے تھے اب وہ سارا وقت صرف اور صرف ایک فون کو دیا جاتا ہے اس پر ہونے والی چیٹ کو دیا جاتا ہے۔سارا خاندان اپنے مستقبل اور رشتے سب ثانوی ہو گئے اور ایک یہ موبائل اہم ہو گیا،یہاں تک کہ کھاناکھاتے پیتے سوتے جاگتے ہر وقت اس کے ساتھ کھیلنے والی آج کی نسل اور انسان اس کا کیا مستقبل ہوگا۔خود سوچ لو۔وہ رشتے جو فون پر بنتے ہیں کتنی دیر قائم راہ سکتے ہیں؟فیصلہ آپ خود کریں۔وہ پیار محبت،خلوص جو ماں باپ،بہن بھائی،رشتے دار، ماسی، چاچی، تائی،پھوپھو،چاچا،ماما،خالو،اور اپنے کزنز سے ملتا تھااس کانعم البدل کئیں اور مل سکتا ہے؟اس کا جواب میں نہیں دے سکتا۔اس طوفان کو روکا بھی نہیں جا سکتا اس سے بچنا بھی مشکل ہے ،کوئی پابندی سے اس کو روک بھی نہیں سکتا، کوئی پہرا بھی نہیں لگا سکتا،بس یہ شعور،اگائی،عقل آنے کی بات ہے،اوررشتوں قدروں،رویوں کی اہمیت سمجھنے سے ہی کمی آسکتی ہے، جو کہ ہمارے اندر موجود ہی نہیں۔شاید میری یہ بات ایسے شخص کے لئے عجیب ہو جو معاشرے کو باریک بینی سے نہ دیکھتا ہو یا جو خود اس کا غلط استعمال کررہا ہو اور اس نے اپنی انکھیں خود بند کر رکھی ہوں۔البتہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں اب تباہ کرنے کے لئے کسی سازش کی ضرورت نہیں کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں بس یہ دھمک جو لگی ہے یہ ہماری اخلاقی جڑیں کاٹ کر ہمیں گرانے کے لئے کافی ہے۔اگر ممکن ہو تو اپنی حد تک اپنے قرب و جوار اپنے گھر کو بچاوشاہد کے کمی آجائے ورنہ پہلے تو تھا ہی اب تو اﷲ ہی حافظ ہے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.