پاکستان کو وجود میں آئے 67 سال
ہونے کو ہیں،اور پاکستان کا معاشرتی نظام روز بروز پستی کی طرف جا رہا ہے ،جرائم
کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے ،ہمارے شہر اور شہری امن کو ترس گئے
ہیں، حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں،کراچی ہو یا کوئٹہ،پشاور ہو یا
لاہور،راولپنڈی اسلام آباد ہو یاگوادر ، لوگ دہشت گردی بد امنی جرائم نا
انصافی سے پریشان نظر آتے ہیں، عوام جس حکمران کو منتخب کرتے ہیں وہ تخت پر
براجمان ہوتے ہی مُلک کو بھول کر اپنی فیملی دوست احباب کو پالنا شروع کر
دیتا ہے ، ایسے میں بیچارے لوگ کس کے سامنے اپنا رونا روئیں،بہر حال اتمام
حُجت کے طور پر مجھ ناچیز کے زہن میں کچھ تجاویز ہیں وہ آپ کے سامنے شئر کر
رہا ہوں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اک نئی بحث شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ،
ہمارے معاشرے کاسب سے بڑا مسئلہ اس وقت امن و امان ہے ،کیا ہی بہتر ہو کہ
محلہ کی سطع پے کمیٹیاں بنائی جائیں اور ہر محلہ، کالونی یا گاوں کے لوگ
خود بیٹھ کر8 سے 10صاف ستھرے لوگ جو پڑھے لکھے ہوں اور کسی قسم کا کریمنل
ریکارڈ نہ رکھتے ہوں انکو اس کمیٹی کا حصہ بنایا جاے ،اور یہ کمیٹیاں اپنے
محلے کالونی یا گاوں میں کسی نئے یا اجنبی کی مناسب چھان بین کے بعد ہی اس
اپنے علاقے میں رہنے دیں، اگر کوئی مشکوک شخص انکے علاقے میں رہنا چاہے تو
اسکے بارے میں مناسب فورم پراطلاع دی جا ئے، اس کے علاوہ محلے کالونی یا
گاوں کے سطع پر یہ ریکارڈ مرتب کیا جائے کہ کتنے بچے تعلیم کے لیے سکولوں
کا رُخ نہیں کر رہے اور اسکی وجوہات کیا ہیں،زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولوں
میں بھیجنے کی ترغیب دی جائے جو بچے معاشی حالات کی وجہ سے سکول نہیں جا
رہے ا نکے مناسب وظیفہ کی سفارش کی جائے ، اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ
بنیظر انکم سپورٹ فند اور بیت المال سے مناسب رقم ہر ماہ ان بچوں کی فیملز
کو دی جائے تاکہ انکے بچے تعلیم کے زیورسے آراستہ ہو سکیں محلے کالونی گاؤں
کی سطع پر مساجد کے خطیب حضرات کو امن و امان ، تعلیم کی اہمیت،اور جرائم
کے تدارک کے لیے مناسب تقاریر لکھ کر ارسال کی جائیں اور جہا ں تک ہو سکے
ان تقاریر کو جمعہ کے خطبہ کا حصہ بنایا جائے اور امام مسجد صاحب ہر نماز
کے بعد امن و مان تعلیم اور جرائم کے تدارک کے بارے میں 5 منٹ کی مختصر
تقریر لوگوں کے گوش گُزار کریں اور تمام حضرات سے کہا جائے کہ وہ اپنے
واپنے دوست احباب ملنے والوں سے اس موضوع پر بات کریں -
اسکے علاوہ کیبل ٹی وی او ر دوسرے زرائع استعمال کر کے گھر گھر پیغام
پہنچایا جائے ،لوگوں کی جرائم کے خلاف ذہنی نشوونما کی جائے ، مسجد امام
بارگاہ ، چرچ مندر گُردوارہ ، سمیت سب مذہبی مقامات کو استعمال کیا جائے تا
کہ لوگوں کی فکری و ذہنی نشوو نما ہو سکے ، اگر ہو سکے تو پولیس ان مقامی
کمیٹیوں سے بھرپور تعاون کرے ، ایک پُرامن معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہرخاص و
عام کو متوجہ کیا جائے ، تاکہ کوئی بھی فرد جرم کرنے سے پہلے چار بار سوچے
کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو اسکا انجام کیا ہو گا، یہ سب اس وقت ممکن ہے
جب پولیس اور عدلیہ بھی اپنی زمہ داری کا احساس کریں-
اسکے علاوہ نوجوانو پر مشتمل الگ سے محلہ کمیٹیاں بھی بنائیں جا سکتی ہیں ،
جو اپنے اپنے علاقہ میں موجود درختوں کی مناسب دیکھ بھال کر سکیں اور اگر
ہو سکے تو نئے پودے گلی گلی لگائے جائیں، درخت لگانے سے ہم اپنے اردگرد کا
درجہ حرارت مناسب سطع تک رکھ سکتے ہیں اور علاقے سے آلودگی کا کچھ حد تک
خاتمہ بھی کی جا سکتا ہے بہت ہی اچھا ہو اگر محکمہ جنگلات ان کمیٹیوں کو
مرحلہ وار مناسب تعداد میں پودے فراہم کرے جس گلی میں یہ پودے لگائیں جائیں
انکی نشوونما اس گلی کے رہنے والوں کے ذمہ بھی لگائی جا سکتی ہے اگر ایسا
کر لیا جائے تو دو چار سال میں ہم گرمیوں میں اپنے علاقے کا درجہ حرارت
خوشگوار بنا سکتے ہیں اور اسکے علاوہ آلودگی سے جو صحت کے مسائل پیدے ہوتے
ہیں انکو بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے اس کے لیے سب سے پہلے تو حکومت کو قدم
بڑھانا ہو گا ، جو بظاہر بہت مشکل لگتا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو لوگ اپنے
طور پر بھی محلہ کمیٹیاں بنا کر یہ کا م کر سکتے ہیں اور اگر ہو سکے تو
محلے کی سطع پر عوام چھوٹے چھوٹے جلسے جلوس نکال کر حکومت کو یہ کام کرنے
پر مجبور بھی کر سکتے ہیں، اگر ایک بار منظم طور پر پاکستان کے کسی بھی
علاقے میں یہ کام شروع ہو گیا تو لوگ حکومت کو اجتماعی طاقت سے ہر اچھے کام
کے لیے مجبور کر سکتے ہیں، اور ہر بُرے کام سے حکومت وقت کو روک سکتے ہیں
پاکستا ن کے معملات اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ جب تک بحثیت قوم ہم اپنا
اپنا کردار ادا نہیں کرتے کسی اچھے کی اُمید نہ رکھیں ، لہذا پاکستان کے
بہتر مستقبل کے لیے آج کچھ سوچ لیا جاے تو سود ا بُر ا نہیں! |