گھریلو تشدد اورجبری مشقت کا کب خاتمہ ہو گا؟

 ایک زمانہ تھا بچوں کو اونٹ کی دوڑ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ جان چلی جاتی تھی کسی کو پرواہ نہ ہوتی ۔۔۔ 5 سے 14 سال کے 40 ملین بچے ہیں جو ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ’’مشقت‘‘ کرتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے (لڑکی ہو یا لڑکا) کے دکھ کلیجہ چیر دیتے ہیں۔ جنسی وجسمانی تشدد‘ کام کی زیادتی‘ 24 گھنٹے کی نوکری‘ نہ آرام نہ چھٹی یہ سب کچھ بھی اسی اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں روا ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو……کیا ایسا ہوتا ہے ہر گز نہیں……یہ غلامی ہے،بانڈڈ لیبر ہے، اس مزدوری کا ایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ’’جینے کاحق‘‘ تک چھین لیا جاتا ہے۔ لاہور میں واقع عسکری نائن کے ایک گھر میں کام کرنے و الی 10 سالہ ارم کو چوری کے الزام میں ہاتھ پاؤں سے باندھ کر پلاسٹک کے پائپ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو بعدازاں ہسپتال میں پہنچ کر دم توڑ جاتی ہے۔ ارم کی بیوہ ماں کا دکھ کون سمجھے گا۔ بیٹی مزدوری کے لئے آئی تھی زندگی سے بھی گئی۔ نواب ٹاؤن میں ننکانہ کا 15 سالہ محمد قاسم…… عمر خان کے گھر میں تشدد سے جان دے دیتا ہے۔ غریب باپ کی دہائی کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ لاہور ہی کے ویلنشیاء ٹاؤن میں حکم عدولی پر مالکن سعدیہ کے ہاتھوں 14 سالہ عثمان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے اس کے جسم پر نظر آنے والے تشدد کے نشانات سے مالکن بے خبری کا اظہار کر دیتی ہے۔ غریب کا تو مقدمہ لڑنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی کوٹھیاں‘ محلات کتنی ننھی‘ معصوم جانیں نگل گئیں غربت نے پردہ نہ اٹھنے دیا۔ لاہور میں ایک پروفیسر سلمان کے گھر میں سیالکوٹ کی 16 سالہ لڑکی پر تشدد کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی ثابت ہو جاتی ہے۔ پولیس اور ڈاکٹروں کی تصدیق کے باوجود انصاف نہیں ملتا۔ یوحن آباد کے مکین 12 سالہ شازیہ مسیح کے قاتلوں کی ضمانت پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسے ایک مسلمان وکیل کے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غریب کہاں جائے‘ انصاف دینے والے ظلم ڈھانے لگ جائیں‘ چلتی سانسیں ختم کر ڈالیں تو کیا عرش نہیں کانپے گا۔ قہر نہیں آئے گا۔۔۔ کسی وکیل نے اپنے پیٹی بند بھائی کیخلاف مجبور شازیہ مسیح کے بے گناہ قتل کا مقدمہ لڑنے کی بھی جرات نہ کی۔چک نمبر18/HL کی رہائشی خاتون اپنی بیٹی کے ہمراہ مقامی زمیندار رانا اسرار کے کھیتوں میں کپاس چننے کیلئے جاتی ہے ۔ کام کے دوران رانا اسرار اسے زبردستی اٹھا کر اپنے ڈیرے پر لے جاتا ہے اور زیادتی کی کوشش کرتا ہے ، خاتون کے شور مچانے پر زمیندار خنجر سے اسکی ناک کاٹ دیتا ہے۔ زخمی خاتون کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال خانیوال داخل کروادیا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے کمپلینٹ سیل کے نوٹس لینے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج واقعہ کی رپورٹ طلب کرتا ہے ، تھانہ خانیوال کے مطابق پولیس نے مذکورہ واقعہ کا مقدمہ زمیندار رانا اسرار کے خلاف درج کر کے جسمانی ریمانڈ لیا اور اسے جیل بھیج دیا ہے۔چالان پیش ہوگا تو کیس چلے گا،عدالتی نظام میں بھی سقم ہے ،ملزم بااثر ہے تو ضمانت ہونے میں دیر نہیں لگے گی…… ایک اور بھیانک داستان سنئیے…… وزیرآبادکی مدینہ کالونی کی رہائشی چالیس سالہ گھریلو ملازمہ شبانہ بی بی پر گھر کا سربراہ چوری کا الزام لگادیتا ہے، اس کے بیٹے نوکرانی کو تشدد کانشانہ بناتے ہیں اور چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ہسپتال ذرائع کے مطابق خاتون کا سترفیصدجسم متاثر ہواہے۔پولیس کہتی ہے کہ ملزمان فرارہوگئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے……یہ تلاش کب تک رہے گی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور بے چاری شبانہ کا دکھ نہ دیکھا جا سکتا ہے نہ سنا……پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ممبر صوبائی اسمبلی و کاکس کی جنرل سیکرٹری حنا پرویز بٹ کا کہنا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے بہت جلد قانون سازی کی جائیگی۔ خواتین پر تشدد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جب تک ہم ان عنا صر کو وہی سزاء نہ دیں جو انہوں نے تشدد کیا ہو معاشرے سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔’’کاکس‘‘نے تمام خاتون ایم پی ایزکو ان کے اپنے اپنے اضلاع میں فوکل پرسن نامزدکر دیا ہے جو اپنے اضلاع میں خواتین کے ساتھ رپورٹ ہونے والے واقعات کا نوٹس لیں گی اور اس سلسلے میں انہیں پولیس کی مدد اورقانونی تحفظ کی فراہمی کے لئے کام کریں گی۔ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں کام کر نے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے اور بہت جلد پنجاب اسمبلی میں ان کی پروٹیکشن کا بل بھی پیش کر ینگے تاکہ یہ باقاعدہ قانون بن جائے۔سپارک سے وابستہ علی حمزہ کہتے ہیں کہ جبری مشقت ہو یا تیزاب پھینکنے کے واقعات ،قانون تو ہے مگر عملدارآمد نہیں ہوتا اس حوالے سے آگہی مہم کی بھی سخت ضرورت ہے،ملزمان فرار کرا دیے جاتے ہیں اور غریب کا کیس داخل دفتر…… کتنی ایسی اندوہناک کہانیاں ہیں جنہیں لفظوں کا لباس نہیں مل سکا۔ جنہیں کوئی زبان نشر نہیں کر سکی اورجنہیں قلم کی سیاہی نصیب نہ ہوئی۔۔۔ گھریلو ملازمین بالخصوص کم عمر بچوں اور بچیوں پر مظالم کی داستانیں ختم ہونے کو نہیں آ رہیں۔ جس ملک کی پارلیمنٹ کے اراکین سے متعلق روح افسا خبریں‘ حیران کن انکشافات ‘ غیر اخلاقی سرگرمیوں کے الزامات سامنے آئیں وہاں دوسروں کے گھروں میں برتن دھونے‘ جھوٹا کھانا کھانے‘ جوتے پالش کرنے‘ فرشوں کو چمکانے والیوں، بچے کو بہلانے والیوں اور گاڑیوں کو صاف کرنے والوں کی طرف کون توجہ دے گا۔ ۔۔۔ شاید کوئی نہیں۔ سی آر سی کے مطابق 2500 ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کم عمر بچوں اور بچیوں پر تشددکے جنوری 2010 ء سے 2013 ء کے چھٹے مہینے تک 41 کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں سے اپنے مالکوں کے ناروا ظلم سے 19 جان کی بازی ہار گئے۔ جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ مگر کوئی جوابدھ نہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار ایڈووکیٹ لیاقت بنوریکا کہنا ہے کہ مزدور کو وہ مزدوری بھی نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے،ہمارے پاس ایسے سیکڑوں کیسز آتے ہیں جنہیں فری لیگل ایڈ دی جاتی ہے،قانون کی عملداری کے بغیر حالات کا بدلنا ممکن نہیں،کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی…… انسانیت بڑے بڑے محلات میں آج بھی سسک رہی ہے لیکن مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے جبری مشقت کے خاتمے کے لیے صوبائی وزیر محنت وانسانی وسائل راجہ اشفاق سرورکی سربراہی میں 18رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی مشاورت اور تجاویز کی روشنی میں اقدامات کے ذریعے جبری مشقت کے شکار بھٹہ مزدوروں ،دیگر تجارتی و صنعتی اداروں میں مزدوروں کو آزادی حاصل ہو سکے گی اور اُن کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔عالمی لیبر کانفرنس بھی اس بار اپریل کے اواخر میں لاہور میں ہو رہی ہے ۔ پنجاب بھر میں جبری مشقت کے خاتمہ کے لیے جاری کوششوں کو مزید تیز کر دیا گیا ہے ، کمیٹی جبری مشقت خاتمہ کے ایکٹ 1992اور قوانین 1995کے تحت بانڈڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے گی۔ کمیٹی پنجاب بھر میں موجود 35لاکھ سے زائد بھٹہ مزدوروں سمیت دیگر شعبہ جات میں موجود تقریبا ًایک کروڑ پابند مزدوروں کو جبری مشقت سے نجات کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرے گی ،کمیٹی عدالتوں کے ذریعے آزاد ہونے والے مزدوروں کی بحالی، قانون کی عملداری، ایکشن پلان سمیت جبری مشقت کے خاتمہ کے لیے قانون میں ترامیم اور اسے قابل عمل بنانے کے حوالے سے بھی کام کرے گی نیز جبری مشقت کے خاتمہ کے حوالے سے قائم کی گئی ڈسٹرکٹ و یجیلنس کمیٹیوں کی کارکردگی کو بھی باقاعدگی سے مانیٹر کیا جائے گا۔ مذکورہ کمیٹی جبری مشقت کے خاتمہ کے لیے کام کرنے والے ملکی و غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ ورکنگ پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے قابل عمل تجاوزپیش کرے گی۔ حکومت پنجاب کا یہ نہایت خوش آئند اقدام جبری مشقت کے خاتمہ کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ کمیٹی کے اقدامات سے جبری مشقت کے شکار مزدوروں کے مسائل حل ہوں گے اور جلد ہی صوبہ بھر سے جبری مشقت کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔کیا اب بھی معاشی مسائل‘ غربت‘ تعلیم کے کم مواقع اور ریاست کے غیر ذمہ دارا نہ کردار کے باعث بچے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اور عمر سے زیادہ مشقت کرنے،معصوم کلیاں بے رحم مالکوں کی ہوس کا شکار ہونے پر مجبور رہیں گی۔۔۔۔۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.