اس کی عمر 8سے9سال تھی ۔ نام وسیم عباس تھا۔وہ اپنے بڑے
بھائی اور ایک کزن کے ساتھ سکول گیا۔والدین نے انہیں محبت اور شفقت سے رخصت
کیا۔اس کے والد کا خیال تھا کہ بچے پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں گے میری
طرح سارا دن سٹرکوں ،گلیوں میں اور کھیتوں میں سرد وگرم تھپیٹروں سے محفوظ
رہیں گے۔ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں لیکن
قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا وہ اپنا فیصلہ لوح پر محفوظ کرچکی
ہے۔سکول پرنسپل محمود علوی کے ذہن پر اچانک شیطان سوار ہوا اس نے وسیم عباس
کو ساتھ لیا اور سکول سے نکل کر کھیتوں میں آگیا اور دوسری جماعت کے طالب
علم کو ڈرا دھمکا کر اس کے ساتھ بد فعلی کرڈالی بچے کی حالت غیر دیکھ کر اس
بدبخت نے تیز دھار رمبی سے معصوم بچے کے سر پر وار کیے اوراس کی شناخت کو
چھپانے کیلئے اینٹ کی مدد سے اس کے سرپر متعدد وارکیے۔ایک اور ساتھی کی مدد
سے شور شرابہ کیا اور پھر خود ہی اسے ہسپتال پہنچانے چل دیا ۔ہسپتال پہنچتے
ہی بچے نے دم توڑ دیا پولیس اور میڈیا کے حرکت میں آنے کے بعد پرنسپل کو
گرفتار کرلیا گیا اور آخر کار تفتیش کے دوران اس نے اقبال جرم کرلیا۔اسی
طرح خانیوال ،مظفر گڑھ،کوٹ ادو میں طلحہ،اقصی اور اقراء کو بھی سکول ٹیچر
نے اپنی حوس کا نشانہ بنادیا۔
یہ اور اسی قسم کے متعدد واقعات گذشتہ چند روز میں تاریخ انسانی پر کلنک کا
ٹیکہ لگا گئے اور پیشہ پیغمبری کو داغ دار کرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ باپ کے
بعد بلکہ بعض کے نز دیک تو باپ سے بھی زیادہ شفیق اور مہربان استاد ہوتا
ہے۔دنیا میں دو ہستیاں ایسی ہیں جوکہ حسد سے مبرا گردانی جاتی ہیں ایک والد
اور دوسرا استاد ۔بھائی ،بہن،دوست احباب رشتہ دار کسی نہ کسی سٹیج پر دل
میں حسد پال لیتے ہیں لیکن استاد اور والد کبھی بھی اپنے شاگرد اور اولاد
سے جلن اور حسد محسوس نہیں کرتے مگر پھر یہ کیا ہورہا ہے کہ محافظ ہی اپنے
ٹھکانوں کے دشمن ہوگئے ہیں وہ پتے ہوا دینے لگے ہیں کہ جن پہ تکیہ تھا ۔بے
یقینی اور متزلزل کی سی کیفیت ہے سب سے قابل اعتماد ہستی ہی بے اعتبار
ہوچکی ہے لوگ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے کترانے لگے ہیں۔ تحفظات کا
شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کیلئے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ گھر
،سکول،مدرسہ جوکہ جائے پناہ ہیں آدمی کو انسان بناتی ہیں وہ غیر محفوظ
ہوچکی ہیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں روز افزاں اضافہ
تشویش ناکی میں اضافہ کرتا جارہا ہے ۔2013میں تقریبا 3002بچوں کے ساتھ
زیادتی کی گئی جس کی شرح پچھلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اس میں زیادہ تر
4سے14سال کی عمر کے بچے او ر بچیاں شامل ہیں کیونکہ 2010میں 2255کے ساتھ
زیادتی کی گئی۔ جس میں لڑکے کم اور لڑکیا ں زیادہ ہیں اور ان میں سے 7فیصد
کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔قابل افسوس اور تشویشناک بات یہ ہے کہ
پاکستان کی تعزیرات میں چائلڈ پورنو گرافی (بچوں کے ساتھ زیادتی ) کیلئے
کوئی قانون موجود نہیں۔ جسکی وجہ سے نہ تو متاثر ہ اور نہ ہی کوئی دوسرا
رپورٹ درج کرواسکتا ہے صورت حال گھمبیر اس وقت ہوجاتی ہے کہ جب کچھ والدین
خود اس قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں
اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔2011میں ایسی ہی صورت حال کے پیش
نظر میں چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بل پیش کیا گیااورجو حسب روایت آج تک نافذ
العمل نہ ہوسکا اور نہ ہی صوبائی اور قانونی سطح پر اس حوالے سے کوئی ادارہ
یا وزارت موجود ہے ۔جو ہلکا پھلکا قانون موجود ہے اس میں اس قد ر خامیاں
اورابہام ہیں کہ ملزم کو شک کی بنیاد پر نرم گوشہ دے دیا جاتا ہے جس کا
فائدہ اٹھا کروکلاء اس کے خلاف کاروائی میں نرمی کروادیتے ہیں اور ایک
درندہ پھر سے معصوم بچوں کو نوچنے کیلئے آزاد گھوم رہا ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح مختلف ممالک میں بچوں پر تشدد سے متعلق مختلف
قوانین اور پالیساں موجود ہیں اسی کو فالو کیا جائے ۔پیچیدہ اور طویل
المدتی طریقہ کار کو ختم کر کے سادہ اور قلیل مدتی طریقہ کار کو اپنایا
جائے حکومت اور اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد کو بھی اس ضمن میں
اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا ان درندوں اور وحشی جانوروں کی بڑھتی
ہوئی ہمت کو توڑنا ہوگا ۔سخت قوانین بنا کر ان کو نشان عبرت بنانا ہوگا ۔اس
صورت حال کے پیش نظر والدین کی ذمہ داری اور تشویش میں اضافہ بھی مشکلات
پید ا کردی ہیں بچوں کو پالنا اور بڑھانا اور انکی تربیت کرنا ایک کٹھن
مرحلہ بن چکا ہے خود والدین کو بھی حفاظتی تدابیر اختیار کر کے اپنے
نونہالوں کو مرجھانے سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ |