سوچتا ہوں کہ اگر خبر کچھ یوں ہوتی کہ” پشاور کے مضافاتی علاقے میں ایک
12سالہ شادی شدہ لڑکی ماں بن گئی جبکہ اس کے شوہر کی عمر بھی ابھی محض 13
سال ہے۔ تو پھر کیا ہوتا؟ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے جو نقشہ میرے ذہن میں
بنا تو اس کے بعد صورتحال کچھ یوں ہوتی۔ خبر سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے
سول سوسائٹی حرکت میں آتی۔ وہ سب سے پہلے کے چھوٹے بڑے شہروں کے میں زبردست
احتجاج کرتی اور کم عمری میں شادی پر تشویش کا اظہار کرتی۔ اس دوران
سوسائٹی کے سرکردہ رہنماء اسماء جہانگیر، حنا جیلانی اور فرزانہ باری ٹی وی
ٹاک شوز کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار جبکہ بعض سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتیں
کہ وہ اس ”ظلم“ کے خلاف ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر آواز اٹھائیں۔نتیجتاً
حکومت اپنے مینڈ یٹ کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بناکر اس علاقے
میں بھیج دیتی۔ سول سوسائٹی کے اس پر خلوص اپیل پر کچھ سیاسی جماعتیں بھی
میدان میں اتر کر اس واقعے کو انسانیت کے خلاف ظلم قرار دیتے ہوئے قومی و
صوبائی اسمبلیوں میں منظوری کے لیے ایک اور بل پیش کر دیتیں۔
واضح رہے کہ اس تمام عرصے میں الیکٹرونک میڈیا بھر پور ذمہ داری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتا۔ ادھر پرنٹ
میڈیا میں موجود وجاہت مسعود اور یاسر پیرزادہ اور منوبھائی جیسے ” دانشور“
عوام کو یہ باور کراتے کہ یہ سب اسلام میں شادی و نکاح کے احکامات کا
شاخسانہ ہے۔ لہٰذا اس کا اب ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ خواتین کی آزادی
اور حقوق کے لیے مزید جدوجہد کی جائے کیوں کہ پاکستان خواتین کے لیے بھی
ایک خطرناک ملک بن چکا ہے۔
ادھر ٹی وی چینل پر مدعو ” علامہ مغربی صاحب،، اپنے تخلیق کردہ فلسفے کے
مطابق عوام سے کچھ یوں گویا ہوتے ” میں نے اپنی پوری زندگی پڑھتے پڑھاتے
گزاردی، بدقسمتی سے سفارتی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل نہیں جاسکا ورنہ
امریکہ و برطانیہ سمیت پوری دنیا گھوما ہوں لیکن ایسا ظلم تو میں نے کہیں
بھی نہیں دیکھا جو ہمارے یہاں ہورہاہے۔ حالانکہ ان کاموں کا ”ہمارے“ اسلام
سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی وجہ سے ہماری کوششوں سے پچھلے دنوں سندھ اسمبلی نے
اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی قرارداد منظور کی کیونکہ کونسل کے
خیال میں کم عمری کی شادی کی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں۔ حالانکہ کونسل جس
قانون کی روشنی میں یہ بات کرتی ہے اسے گزرے ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ کا
عرصہ بیت چکا ہے۔ جبکہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں یہ جدید اور ماڈرن دور ہے
اور اس دور میں ” فرسودہ روایات“کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لہٰذا ہم نے کوشش
کرکے ایک صوبائی اسمبلی سے کونسل کوختم کرنے کی قرار منظور کرالی ہے اور
اگر دو تین عالمی خداؤں کا تعاون جاری رہا تو ہم قانون میں بھی ترمیم
کرالیں گے امریکہ بفضل مغربی سرکار۔
واقعے کے تیسرے دن ایک مشہور ٹی وی چینل اپنے نامعلوم ذرائع سے یہ انکشاف
کردیتاکہ جو بچہ پیدا ہوا ہے اسکی نانی کی عمر بھی محض 27 سال ہے۔ اس
انکشاف سے عالمی برادری بھی حرکت میں آتی ۔ محسن ملالہ ،مسٹر گورڈن براؤن
آبلہ پا پاکستان تشریف لاتے، اس واقعے کو انسانیت اور انسانی حقوق کی تذلیل
قرار دیتے اور لڑکی کو فوری دارلامان منتقل کرنے کی سفارش کرتے۔ اقوام
متحدہ تو فورا پاکستان پر دو چار پابندیاں ضرور لگا دیتی ممکن ہے اس میں
شادی پر ہی پابندی لگ جاتی کیوں کہ وہ یہ اس سنگین صورتحال کے حوالے سے
پہلے ہی یہ رپورٹ جاری کر چکی ہے، اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں
بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف چھ ممالک
میں موجود ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔اس کے بعد اسلام کا جو حشر
پاکستان میں ہوتا وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
اب آپ اسے بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ مذکورہ بالا واقعہ پاکستان میں پیش
نہیں آیا۔ لیکن برطانیہ میں ایک ایسا واقعہ اس فرق کے ساتھ پیش آچکا کہ ”
وہاں پیدا ہونے والا بچہ فطری طور پر معاشرتی بندھن نکاح سے نہیں بلکہ
ناجائز تعلقات کی بنا پر پیداہوا ہے۔ واقعے کی مختصر روداد کچھ یوں ہے کہ
برطانیہ کے علاقے شمالی لندن کے پرائمری اسکول میں زیر تعلیم ایک غیر شادی
شدہ بچی جسکی عمر محض 12 سال ہے ایک بچے کی ماں بن گئی۔ اس بچی کا حمل جس
بچے سے ٹہرا ہے وہ بھی محض 13برس کا ہے اور اسی سکول میں وہ بھی زیر تعلیم
ہے جس میں وہ 12سالہ لڑکی زیر تعلیم ہے۔ ان دونوں میں تعلقات ایک سال پہلے
اس وقت پروان چڑھے جب لڑکی 11 جبکہ لڑکا 12سال کا تھا۔ واضح رہے کہ ماں
بننے والی لڑکی کی ماں یعنی پیدا ہونے والی بچی کی نانی بھی محض 27 سال کی
ہے۔ خیال رہے کہ یہ وہی برطانیہ ہے جس کے سابق وزیر اعظم اور اب اقوام
متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے تعلیم گورڈن براؤن پچھلے دنوں پاکستان آکر اس
عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ اور ان کاملک پاکستان کو کم عمری کی شادی سے
پاک علاقہ بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ یہاں ایک بات اور یاد آئی کہ حقوق نسواں
کے حوالے سے کام کرنے والی کچھ این جی اوز کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی
کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی عموماً منقطع ہو جاتا ہے۔یہ بات
کسی حدتک درست ہو سکتی ہے لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے چکر میں ان لڑکیوں
کے حوالے سے کون آواز اٹھائے گا جو اپنی جوانی کی عمر سے گزر چکی ہیں۔ ان
کے سروں پر بڑھاپے کی سفید چاندی اتر چکی ہے۔ والدین پریشان ہیں کہ بیٹی کے
پاس تعلیم تو بہت اعلیٰ ہے لیکن اب عمر کی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی اس
سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔
مسٹر گورڈن براؤن کے اس بیان کے بعد سندھ اسمبلی نے اسلامی نظریاتی کونسل
کو ختم کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ کیونکہ کونسل کا خیال ہے کہ اسلام
میں کم عمری کے نکاح پر کوئی پابندی نہیں۔ سندھ اسمبلی کے اس اقدام اور
مسٹر گورڈن براو ¿ن کے دورے کو ملک کے غیر جانب دار حلقے ایک ہی اقدام کی
کڑیاں قرار دے رہے ہیں۔ ان دو باتوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں یہ تو
آنے والے دنوں میں معلوم ہوہی جاے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سابق برطانوی
وزیر اعظم پاکستانی بچیوںکی اتنی فکر کیوں لاحق ہے کہ بہر صورت یہاں کم
عمری کے نکاح کو جرم قرار دینے کے سر توڑ کوششیں کررہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب
ان کے اپنے گھر کا حال یہ ہے کہ محض 11سال کی عمر میں ایک بچی کا حمل
ٹھہرتا ہے اور وہ ایک ناجائز بچے کی ماں کا تمغہ سینے پر سجا لیتی ہے لیکن
براؤن کو وہ نظر نہیں آتی۔ حلانکہ اگر کہیں کوئی مسلمان اپنے بیٹے کی شادی
کم عمری میں کرا بھی دیتا ہے تو اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ
بر سر روزگار ہونے تک اس لڑکے اور اس کی ہونے والی بیوی کے تمام ضرورتوں کا
خیال رکھا جائے۔
دوسری اہم بات یہ کہ لڑکا اور لڑکی نکاح کے اس مقدس بندھن میں بندھے جاتے
ہیں جس کو توڑنا بیوی یا شوہر کے لیے اتنا اسان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ
اگر کبھی ایسا جوڑا مشکلات کا شکار ہوبھی جائے تو وہ ایک دوسرے سے جان نہیں
چھڑاتے بلکہ مشکل کی ہر گھڑی میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن
جو کچھ برطانیہ میں ہوا ہے وہ ہر لحاظ سے باعث شرم اور تکلیف دہ ہے۔ ہم مان
لیتے ہیں کہ ناجائز تعلقات ان کے ہاں کوئی معیوب چیز نہیں لیکن سوچتا ہوں
کہ کیا وہ 13سال کا لڑکا اپنا، اس بچی اور اس کے ماں کا بوجھ اٹھا سکے گا۔
تو مجھے ہر طرف سے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں
خاندانی نظام کو ٹوٹے برسوں ہوچکے ہو وہاں کوئی کیونکر کسی کا غمگسار بنے
گا۔ لہٰذا لگ یہی رہا ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ لڑکا اس لڑکی کو خیر باد
کہ دے گا ۔نتیجتاً اس لڑکی کو اپنا اور اس بچے کا بوجھ خود ہی اٹھا پڑے گا۔
اور ایک 12سالہ لڑکی کس طرح سے یہ بوجھ اٹھائے گی اس کے لیے ارسطو یا
افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیںن۔ ایک ناجائز بچے کی ماں خود کو پرسکون
رکھنے کے لیے کن کن ناجائز ذرائع کا سہارا لے گی اور انسانیت کا کس طرح خون
کرے گی یہ سوچتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے
کہ سب سے پہلے ہم خود کو پہچانے اور اغیار کے پروپینگنڈے میں نہ آئیں، اس
کے بعد جو ظلم اس برطانوی لڑکی کے ساتھ ہوا ہے اسے اس ظلم سے نکالنے کے لیے
اسلام کا پیغام ان معاشروں تک پہنچائیں۔صرف یہی واقعہ نہیں بلکہ بی بی سی
اور دیگر ذرائع ابلاغ ایسی رپورٹس سے بھرے پڑے ہیں جن میں برطانوی خواتین
زندگی کے ہرشعبے میں استحصال کا شکار ہیں، لیکن اہل مغرب و یورپ اور
پاکستان میں موجود ان کے چیلوں کو صرف پاکستان اور اسلامی ممالک کی فکر ہے۔
اسلامی معاشرے میں آکر اگر وہ کم عمری میں ماں بھی بن جاتی ہے تو اسے کسی
مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس کے سر پر نکاح کا مضبوط سائبان
اور اس کے پہلو میں دنیا کا مضبوط ترین خاندانی نظام جو ہوگا- |