ہمارے ایک متعلق پروفیسر نے صبح ملتے ہی پوچھا کہ’’کیاآدم ایک تھا؟‘‘ میری
طرف سے ’’ہاں‘‘ میں جواب تھا۔ پھرکہنے لگے ’’دنیابھر میں رائج ومشہورنظریات
میں لوگوں کے باہم کسی نہ کسی طرح اختلافات موجودہیں لیکن آدم کے ایک ہونے
میں کسی کااختلاف نہیں‘‘ میں نے تائیدکرکے وجہ حیرت دریافت کی
توپروفیسرصاحب برہم ہوکربولے کہ’’جب آدم ایک ہے اور دنیابھرمیں بسنے والے
لوگ ایک ہی انسان آدم کی اولادہیں توپھرآج کاانسان نسلی طبقات میں کیوں
منقسم ہے؟‘‘ میں مذکورہ صاحب کی بھڑاس کوسمجھتے ہوئے اس سوچ کے ساتھ پلٹا
کہ آغازانسانی سے متعلق اگرچہ بعض فرقے توہمات کاشکارہوکرمفروضے بناتے ہیں؛
کبھی انسان کوبندرسے جوڑتے ہیں توکبھی مینڈک سے اس کا سلسلہ نسب ملاتے ہیں
لیکن جولوگ حضرت آدم کو انسانی سلسلے کا آغازمانتے ہیں جیسے ملل سماویہ کے
ماننے والے تووہ سب اس بات پرمتفق ہیں کہ آدم ایک ہی تھا اوربعدمیں پائے
جانے والی نسل انسانی اسی ایک آدم کی اولادہے۔ شریعت اسلامی کی روسے نسل
اور فرقوں کی تقسیم محض باہمی تعارف اورپہچان کے لیے ہے ، بنیادی
طورانسانوں میں نسلی اعتبارسے کوئی اعلیٰ و ادنیٰ نہیں اور کسی بھی نسل کو
دوسری پر فضیلت اورفوقیت حاصل نہیں، قرآنی ارشادکے تحت اللہ تعالیٰ کے
نزدیک کسی شخص کی عظمت اور بڑائی کے لیے معیار تقویٰ ہے۔ حضورﷺ
کاارشادمبارک ہے کہ کسی عربی کوعجمی پراور گورے کوکالے پرکوئی فضیلت وفوقیت
حاصل نہیں۔ ویسے تو شایدروز اول سے انسانوں کے درمیان خونی بنیادوں
پرتمیزکاسلسلہ چلاآتاہوگا جس پرعربی ادب کے اشعار بطورثبوت موجودہیں لیکن
جدیددنیامیں نسل یانسب کی اصطلاح سولہویں صدی کے آخرمیں انگریزی زبان میں
استعمال ہوئی، مختلف اندازسے استعمال ہوتے ہوتے اٹھارویں صدی میں نسل
ونسب(race) کی اصطلاح نے وسعت پاکرعملی شکل اختیارکی۔ شروع میں نسلی
اعتبارسے تین فرقے تصورکیے گئے؛ ایک یورپی جواپنے آپ کوآزادلوگوں کی حیثیت
سے دیکھتے تھے، دوسرا امریکن انڈین جومحکوم چلے آرہے تھے اور تیسرا افریقی
جوغلام اور مزدور بنادیے گئے تھے اور انہیں کھیتوں میں کام کرنے کے لیے
فروخت کیاگیاتھا۔ آج جب بھی نسل پرستی کی بات آتی ہے توشمالی امریکہ اور
جنوبی افریقہ کا ذکرضرورکیاجاتاہے۔ نسلی تفاوت کو ہوادینے کے بڑے محرک جرمن
فلاسفرکانٹ، فرنچ فلاسفر وولٹئیر، سکاٹش فلاسفر اور تاریخ دان ڈیویڈ ہیوم
اور امریکہ کے تھامس جیفرسن تھے جنہوں نے افریقیوں اور کچھ فرقوں کے خلاف
انتہائی منفی نظریہ رکھا۔ یہ توخیران کی فلسفیانہ سوچ پر مبنی
اندازہوگالیکن دوسری طرف سائنسی اور اخلاقی لحاظ سے انسانوں کی تقسیم میں
کسی نسل یافرقے کی تذلیل کی بات نہیں کی گئی ہے مثلاً 1735 سے1759 تک
انسانوں اور حیوانات کی تقسیم پرتحقیقات ہوئیں، Linnaeus نے انسانوں کے
چاریاپانچ گروپس بنائے لیکن یہ تقسیم صرف انواع واقسام کے لحاظ سے تھی، اس
میں کسی نسل یانوع انسانی کے اعلیٰ یا ادنی ہونے کاذکرنہیں اور پوری تقسیم
کاخلاصہ ثقافت اور تمدن کے اختلاف کی شکل میں نکل آتاہے۔ Blumenbachنے
انسانوں کی تقسیم قوموں کے اعتبارسے کی تھی جس کے تحت اس نے دنیا میں پانچ
قومیں پیش کی تھیں، اگرچہ اس نے اپنی طرف سے روسیوں کو خوبصورت قراردیاتھا
لیکن کسی دوسری قوم کے لیے ادنی کا لفظ استعمال نہیں کیاتھا اور ساتھ ساتھ
یہ بھی کہاتھا کہ ان تمام اقوام کے درمیان واضح لکیرنہیں کھینچی جاسکتی
کیونکہ یہ قومیں باہم آمیزش رکھتے ہیں۔ اقوام عالم میں سیاسی لحاظ سے جاری
نسل پرستی یانسلی تفاوت سے توخیرہم صرف نظرکریں گے کیونکہ ہم یہاں اپنے
گھروں اور محلوں میں نسبی امتیازکا شکارہیں، بہرحال آمدم برسرمطلب۔۔انسانوں
کے طورطریقوں اور تہذیب وتمدن میں جغرافیائی یامذہبی لحاظ سے ضرورفرق
ہوتاہے اوراس فرق کو اخلاق کے پیمانے پر جانچتے ہوئے ہم صحیح غلط یامناسب
غیرمناسب کے درجے بھی قائم کرسکتے ہیں لیکن نسلی یانسبی لحاظ سے اعلیٰ
وادنیٰ کی تمییزکرنا سراسرغلط ہے، اور اسی فرق کے باعث دنیابھرمیں انسانی
مساوات اور باہمی تعلقات پریقیناًبرااثرپڑا ہے۔افریقہ میں سیاہ وسفید کے
نام پرانقلاب آیا تو امریکہ بھی ان اصطلاحات سے محفوظ نہیں رہاتھا، عالمی
سطح پرہونے والے بڑے بڑے واقعات میں بھی نسل ونسب کادخل رہاہے۔ ہندوستان
میں آج تک کچھ انسانوں کوانتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اور نسلی
تقسیم کی وجہ سے انسانوں کاایک بڑاحصہ ذلت وخواری کاشکارہے۔ عربی ادب میں
شامل اشعارکی اکثریت نسل پرستی اور اپنے قبیلے کی تعریف اوربڑائی کے
اظہارپرمبنی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی بہت سارے معاشرتی اور سیاسی
فیصلے نسلی بنیادوں پرکیے جاتے ہیں۔خیبر پختونخوامیں پختون، سید، کوہستانی،
گجراوربہت ساری دیگرنسلوں کے درمیان کافی بعدپایاجاتاہے۔ پاکستان کے بڑے
شہرکراچی میں پشتون مہاجرلڑائیاں اور ان میں ہونے والی خون ریزی اسی عصبیت
کا نتیجہ ہے۔ پنجابیوں اور پختونوں کے درمیان چلنے والی مخصوص اصطلاحات اور
سماجی دوریاں بھی نسلوں کے اختلاف کے باعث ہیں، بلوچ بھائیوں کو ہرلحاظ سے
پیچھے رکھنابھی کچھ معنی رکھتاہے!!!۔۔ اگرچہ سائنسی لحاظ سے کہاگیاہے کہ
In fact, DNA analyses have proved that all humans have much more in
common, genetically, than they have differences. The genetic difference
between any two humans is less than 1 percent. Moreover, geographically
widely separated populations vary from one another in only about 6 to 8
percent of their genes. Because of the overlapping of traits that bear
no relationship to one another (such as skin colour and hair texture)
and the inability of scientists to cluster peoples into discrete racial
packages, modern researchers have concluded that the concept of race has
no biological validity.
لیکن پھربھی آج ہمارے معاشرے میں نسل ونسب ہی سب کچھ ہے۔ بڑائی اورعظمت
کامعیارصرف ’’نسب‘‘ پررکھاگیاہے، انسانیت، مذہب اور اخلاقی شائستگی کاکوئی
اعتبارنہیں؛ کتناہی ان پڑھ ہو، اخلاقی گھراوٹ کاشکارہو، رنگ کے لحاظ سے
مکروہ ہواور غربت کے آخری دہانے پرہولیکن خودساختہ نسلی تفاوت کے پیمانے
پراُس کادرجہ اوپرآتاہو تووہ معززومکرم شمارہوتاہے۔ دوسری طرف اعلی عالم
وفاضل ہو، مثالی اخلاق وکردارکامالک ہواورجسمانی ساخت کے لحاظ سے بھی صحت
مندہولیکن وہ نسب وعصبیت کے پیمانے بنانے والے ’’اصحاب اختیار‘‘ کے ہاں
نچلی ذات میں قرارپائے تواس کے تمام اقدارختم ہوکرکالعدم ہوجاتے ہیں اور
پھرکسی کومشورہ دینے کااہل بھی تصورنہیں ہوتا۔ لوگوں کے درمیان تعلقات،
شادی غمی، باہم میل ملاپ، رشتہ داری اور سماجی تعاون وبھائی چارے کے فیصلے
نسب وقرابت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، ’’اعلیٰ نسب والے‘‘ اپنی محض لڑکی کوکسی
’’نچلی ذات‘‘ والے اعلی ترین لڑکے کے ہاں نکاح پردینے کوتیارنہیں اور اپنے
خاندان کے کم علم اورمعمولی صلاحیت والے لڑکے کوترجیح دی جاتی ہے ، یہ
ترجیح اسلامی کفوکی بناپرنہیں بلکہ دوسروں کوحقیرسمجھنے کی بنیاد پر ہوتی
ہے۔ علاقائی تنازعات کے دوران ہرکوئی اپنے رشتہ داریانسبی کے ہاں
کھڑانظرآتاہے۔ پرائے نسب والے کے حق میں کوئی ایک جملہ حوصلہ افزائی کانہیں
کہاجاتا اگرچہ وہ معاشرے میں قابل قدرسرگرمیاں انجام دیتاہو جبکہ ’’اپنوں‘‘
کی خاطرحق وناحق دیکھے بغیرکلاشنکوف کندھے پر رکھ کرمیلوں دورراستہ طے
ہوتاہے۔ قرابت کی غلطیوں پرڈھیرسارے پردے ڈالے جاتے ہیں لیکن غیروں کی
معمولی لغزش کو ہوا دیکر برسرعام اعلان کیاجاتاہے۔ اگرآدم ایک ہے اور
دنیابھرمیں پھیلی نسل انسانی واقعی بنی آدم ہوکرخون آدم کی پیداوارہے توآج
دورمیں متعارف یہ خونی تفاوت کہاں سے ابھری!!! صرف گوشت پوست کے معیاریارنگ
میں معمولی اونچ نیچ کااثرآخرروح واخلاق پر کیسے اثراندازماناجاتاہے!! بے
شمارسائنسی تحقیقات کے باجودآج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ آدم کے علاوہ بھی
انسانوں کاکوئی سراہے، مذہبی لحاظ سے بھی انسانیت کاایک ہونامتفق علیہ ہے
اور دوسری طرف بحیثیت مسلمان ہم عقیدہ تناسخ کے قائل بھی نہیں کہ ہماری بعض
نسلوں میں کسی محیرالعقول یاانسان سے بھی زیادہ اعلی مخلوق کی آمیزش ہو۔
لیکن یہ اخلاقی گراوٹ ہے جس کے تحت انسانوں کے درمیان نسب وقرابت کی
خودساختہ اصطلاحات رائج ہیں اور نتیجے میں کچھ لوگ احساس برتری جبکہ کچھ
احساس کمتری کا شکارہیں۔ میری دعوت۔۔۔ کہ انسانوں کے درمیان معاشرتی زندگی
میں تعلقات، سماجی روایات اور دیگرمتعلقات کے لیے معیاراخلاق
وکردارہوناچاہئے اور نسلی ونسبی امتیاز کے بے ہودہ پیمانے ختم کرنے چاہئیں۔ |