بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کافی دنوں سے جہلم میں معقدہ ہونے والی اسوہ حسنہ اور تحفظ مدارس دینیہ
کانفرنس کی تیاریاں جاری تھیں ۔اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مولانا محمد
حنیف جالندھری کی قیادت اور مولانا قاضی عبدالرشید کی رہنمائی میں علماء
کرام کے ایک بڑے قافلے کی صورت میں ہم جہلم کے لیے روانہ ہوئے ۔ برطانیہ سے
تشریف لائے ہوئے ڈاکٹر طہٰ قریشی مولانا تنویر احمد علوی ،مولانا مفتی شکیل
سمیت دیگر سرکردہ علماء کرام اس قافلے کا حصہ تھے ۔جہلم شہر میں داخل ہونے
سے بہت پہلے راٹھیاں کے مقام پر مہمانانِ گرامی کے اس قافلے کے استقبال کا
بندوبست کیا گیا تھا ۔ایک بڑی ریلی کی شکل میں جہلم کے غیور لوگ اپنے معزز
مہمانوں اور اکابر علماء کرام کے خیر مقدم کے لیے موجود تھے ۔تاحد نگاہ
گاڑیوں کی قطار،موٹر سائیکلوں کی بڑی تعداد ،پھولوں کی پتیاں ،فلک شگاف
نعرے ،روایتی جوش وخروش اور عقیدت ومحبت کا اظہار ،خدام اہلسنت کے پھڑ
پھڑاتے پرچم ……ایسے مناظر جہلم کے علاوہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملے ۔ جامعہ
حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے انتظام وانصرام کے تحت تعمیر کی جانے والی ایک
پرشکوہ اور خوبصورت مسجد ،مسجد علیؓ میں رک کر ہم نے نماز ادا کی اورپھر
آگے روانہ ہوئے۔خاد م ِقرآن ،حسن انتظام کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ،حفظ
قرآن کریم کے شعبے میں تجدیدی کارنامے سرانجام دینے والے مولانا قاری
خالقداد عثمان،صاحبزادہ مولانامحمد عمر اور مولانا عطاء اﷲ نے اس قافلے کی
رہنمائی کی عنان سنبھال لی تھی ۔ ہمیں یہاں سے آگے مولانا قاری خالقداد
عثمان کی رفاقت ومعیت نصیب ہوئی تھی ۔مولانا قاری خالقداد عثمان سے میل
ملاقات رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہزاروں حفاظ اور علماء کے اس استاذ کی مجلس
ست رنگی قوس قزح کی مانند ہوتی ہے ۔خوش مزاجی ،بذلہ سنجی اور خوش اخلاقی
میں قاری صاحب اپنی مثال آپ ہیں ۔گاڑی کے اندر قاری صاحب کی پھلجھڑیوں اور
راستے میں جگہ جگہ کھڑے لوگوں اورنوجوانوں کی طرف سے اکابر علماء کرام اور
معزز مہمانوں پرنچھاور کی جانے والی پھولوں کی پتیوں اور گل پاشی نے سماں
باند ھ رکھا تھا ۔جہلم شہر کو خیر مقدمی بینرز سے سجایا گیا تھا ،اپنے
محبوب قائد اور مدارس دینیہ کے بے باک ترجمان مولانا محمدحنیف جالندھری اور
ان کے کاروان کی جہلم آمد پر پورا شہر جشن کا سماں پیش کر رہا تھا ۔ہم نے
یہ سمجھ رکھا تھا کہ شاید جہلم جلسے کی کل کائنات وہی جلو س ہے جس نے شہر
سے باہر نکل کر مہمانوں کا استقبال کیا تھا لیکن جوں جو ں آگے بڑھتے رہے تو
اندازہ ہوتا رہا کہ حضرت مولانا قاضی عبداللطیف جہلمی ،مولانا قاضی خبیب
احمد عمر اور اب مولانا قاری ابوبکر صدیق کی تین پشتوں اور ان کے رفقاء نے
اس شہر میں کیا مثالی محنت کی تھی اور ان کی محنت نے اس علاقے کے چپے چپے
اور اس شہر کے بچے بچے پر کس قدر گہرے نقش چھوڑے تھے ۔
شہر کے مقررہ راستوں سے جلوس کی شکل میں گزرنے کے بعد مہمانوں کو علماء
کرام کے میزبان میاں عبدالرحمن کے ڈیر ے پرلے جایا گیا۔ جہاں چائے پانی
،ملاقاتوں اور میڈیاسے خصوصی نشست کا اہتمام تھا ۔شہزادہ اہلسنت مولانا
قاری ابو بکر صدیق بھی تھوڑی دیر میں تشریف لے آئے،برادرمکرم مولانا ثمین
الرشید سمیت جہلم کے دیگر علماء بھی تشریف لاتے رہے اور اکابر علماء کرام
سے شرف ملاقات حاصل کرتے رہے ۔مولانا محمد حنیف جالندھری ،مولانا قاضی
عبدالرشید،ڈاکٹر طہٰ قریشی اور مولانا ابوبکر صدیق نے میڈیا کے دوستوں کے
سامنے بڑی خوبصورتی اور مہارت سے دینی مدارس اور اہلِ حق کا مقدمہ پیش کیا
۔پھر وہاں سے ایک مرتبہ پھر قافلہ روانہ ہوا اور قائدین کو پنڈال میں لے
جایا گیا۔جہلم شہر کے وسط میں واقع اکرم شہید اسٹیڈیم میں ہر طرف لوگ ہی
لوگ نظر آرہے تھے ۔قائدین کے پنڈال پہنچنے پر زبردست نعرے بازی کی گئی ،خوب
جوش وخرو ش کا اظہار ہوا ۔خطبات وبیانات کا سلسلہ پہلے سے جاری تھا ۔
سامعین مولانا زاہد الراشدی کی فکر انگیز گفتگو،برطانیہ سے تشریف لائے ہوئے
مولانا رضا ء الحق،سرگودھا کے مولانا مفتی طاہر مسعود اور دیگر علماء کرام
کے خطبات سن چکے تھے ۔جہلم ،گجرات ،منڈی بہاؤالدین اور دینہ کے علماء کرام
کی بڑی تعداد کے وجود سے اسٹیج بقعہ نور بنا ہوا تھا ۔پروگرام کی سب سے بڑی
خصوصیت یہ تھی کہ اس میں علاقے کے ایم این اے ،ایم پی اے ،انجمن تاجران کے
رہنماؤں ،وکلاء اور صحافیوں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے
لوگ موجود تھے ۔
مولانا قاضی عبدالرشید نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب فرمایا ۔قاضی صاحب کے
جچے تلے جملے ،دلآویز انداز خطابت ،ہلکے پھلکے چٹکلے ……قاضی صاحب سیرت طیبہ
پر بولے تو دلوں کے تار ہلا دئیے اور محبت نبوی کی آنچ تیز ہونے لگی ،مدارس
دینیہ کے کردار وخدمات کی طرف مڑے تو کمال کر دیا ،حضرت قاضی صاحب کا بیان
ویسے بھی سحر انگیز ہوتا ہے لیکن اس دن وہ کچھ زیادہ ہی موج میں تھے ۔ان کے
بعد مولانا ابوبکر صدیق مائک پر تشریف لائے ۔ایک ایساجوان رعنا جسے پہلی
نظر دیکھ کر کوئی عام اور کمسن سا طالبعلم ہونے کا گمان گزرتا ہے لیکن جہلم
آکر اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے اپنے آباء واجداد کی دینی میراث کو کسی
مہارت ،ہمت اور جرأت سے سنبھال رکھا ہے ۔مولانا ابوبکر صدیق نے مہمانوں کا
شکریہ اداکیا ۔قیامِ امن کے لیے جہلم کے علماء کے کردار کا تذکرہ کیا
،معاشرے اور ملک کی فلاح وبہبود کے لیے علماء کرام کے صبر وتحمل کا تذکرہ
کیا،انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ اپنے مثالی تعاون کا حوالہ دیااور پھر ایک
بے ہودہ سروے فارم جس میں جید علماء کرام اور ارباب مدارس کی بہنوں بیٹیوں
تک کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے اس فارم کے معاملے میں ایسی جرأت
مندانہ گفتگو کی کہ اکابر علمائے دیوبند کی یاد تازہ کر دی ۔اﷲ مولانا
ابوبکر کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور انہیں مزید ہمت اور حوصلہ بخشیں
۔برطانیہ سے تشریف لائے ہوئے مہمان ڈاکٹر طہٰ قریشی نے بڑے ہی خوبصورت اور
مدلل انداز سے انتہاپسندی اوردہشت گردی کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف کی جانے
والی سازشوں ،پروپیگنڈے اور دشمن کے عزائم کو طشت از بام کیا ۔
پروگرام کے آخر میں مہمان خصوصی مولانا محمد حنیف جالندھری کے خطاب سے قبل
گزشتہ برس وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ سالانہ
امتحانات میں ملکی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے دارالعلوم کراچی کے
طالبعلم اور بنات میں سے ہالہ مٹیاری سندھ کی ایک طالبہ کے والد گرامی کو
عمرہ کے جملہ اخراجات کا پیکج پیش کیا گیا ۔آخر میں مولانا محمد حنیف
جالندھری کو خطاب کی دعوت دی گئی ۔مولانا کا خطاب ختامہ مسک کا مصداق تھا
۔رات گئے تک جاری رہنے والے مولانا جالندھری کے خطاب میں اﷲ رب العزت کی
نصرت اور حاضرین کے محبت وعقیدت اور جوش وخروش کی جھلک محسوس ہو رہی تھی
۔مولانا جالندھری کا خطاب رات پونے ایک بجے تک جاری رہا ۔عصر کے وقت سے
پنڈال میں موجود مجمع کی حالت یہ تھی گویا ابھی ابھی تازہ دم آکر اپنی
نشستوں پر بیٹھے ہوں ۔مولاناکی طبیعت بھی خوب کھلی ۔سیرت طیبہ سے لے کر
ھالیہ سفرناموں تک اور مدارس دینیہ کے امور سے لے کر حالات حاضرہ تک تمام
موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی ۔اسوہ حسنہ بیان کرتے ہوئے یہ یادگار او ر
جامع سبق پڑھایا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے آدمی کی
دنیا دین بن جاتی ہے ،طبیعت شریعت بن جاتی ہے اور عادت عبادت کا رنگ اختیار
کر لیتی ہے ۔مولانا جالندھری نے مجمع کو بتایا کہ وہ حالیہ دنو ں میں یکے
بعد دیگرے وسط ایشیا،ترکی اور سری لنکا کے اسفار سے لوٹے ہیں ۔اس دوران
انہوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ مسجد ومدرسہ اور علماء کرام کا دین کی
بقاء ،اسلامی تہذیب وتمدن کے احیاء اورعوام الناس کا دین سے رشتہ جوڑے
رکھنے میں کس قدر کلید ی کردار ہوتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وسط ایشیا کے
مسلمانوں نے کس طرح جبر کے دور میں تہہ خانوں میں جا کر ،دیے جلا کر خود
بھی دین اور قرآن کومحفوظ رکھا اور اس امانت کو حفاظ کے ساتھ اگلی نسلوں تک
منتقل کیا ۔وہ ریاستیں جہاں کل ایک مسجد بھی نہیں تھی آج وہاں ہزاروں مساجد
ہیں ۔جہاں نماز اور اذان پر پابندی تھی وہاں پاکستان کے دینی مدارس اور
تبلیغی جماعت کی محنت کی برکت سے آج ہزاروں کی تعداد میں حفاظ قرآن اور
علماء کرام موجود ہیں ۔مولانا جالندھری نے مدارس دینیہ کے کردار وخدمات سے
قوم کو روشناس کروایا اور قومی سلامتی پالیسی ،سروے فارم کی تقسیم سمیت
جملہ موضوعات پر وفاق المدارس کے دیرینیہ موقف کا بہت ہی خوبصورت انداز سے
اعادہ کیا ۔قائد تحریک خدام اہلسنت مولانا قاضی ظہور الحسن دامت برکاتہم کے
صدارتی کلمات اور دعا سے یہ خوبصورت اور یادگار تقریب اپنے اختتام کو
پہنچی۔ |