معروف سفرنامہ نگار اور ٹی وی اینکر مستنصر حسین تارڑ کی پیدائش کی خبر سن
کر ان کے دادا نے اپنی پگڑی اتار کر صحن میں بچھا کر کہا کہ سارے گاؤں کو
اطلاع دے دو کہ میرے ہاں پوتا ہوا ہے اور یہ پگڑی میں نے مبارکباد جمع کرنے
لیے بچھائی ہے‘۔یہ عمل خوشی کی انتہاہ کو ظاہر کرتا ہے۔ پوتے کی دنیا میں
آمد کی خوشی کو وہی محسوس کرسکتاہے جو اس عمل سے گزرا ہو۔پوتے اپنے دادا
اور دادی کے محبتوں کے مہور ہوتے ہیں۔ان کی دنیا میں آمد کے بعد پھر کوئی
اور جی کو نہیں بھاتا۔میرے بڑے بیٹے کا بڑا بیٹا یعنی میرا بڑا پوتا پیدا
ہوا تو میری خوشی بھی مستنصر حسین تارڑ کے والد کی طرح ہی تھی۔ مَیں کیونکہ
شہر ی ماحول کا مکین ہوں اس لیے صحن میں پگڑی تو نہیں بچھائی اور بچھاتا
بھی کیسے میَں تو فلیٹ میں رہتا ہوں البتہ جوں ہی پوتے صاحب کی دنیا میں
آمدکا معلوم ہوا خوشی کے سمندر میں غوطے مارتا ہوا اسپتال جا پہنچا ۔ اولین
عمل اﷲ کے حضور شکرانہ ادا کیا، اور نومولود کے کان میں اذان دی ساتھ ہی یہ
بھی کہا کہ پوتے صاحب آپ مسلمان والدین کے گھر پیدا ہوئے ہو ہم نے آپ کا
نام ’’محمد صائم ‘‘ رکھا ہے۔ صائم کا مطلب ’روزہ دار‘۔ دوسرا کام اپنے
موبائل سے تمام رشتہ داروں کو اس بات کی اطلا ع ایک عدد ایس ایم ایس کے
ذریعہ دی کہ ہمارے ہاں ایک عدد پوتے صاحب تشریف لاچکے ہیں۔جیسے جیسے
مبارکباد کے پیغامات آرہے تھے ہم انہیں پڑھ پڑھ کر پھولے نہ سماتے تھے۔ اس
وقت شوگر کا مرض لاحق نہیں ہواتھا چنانچہ خوب خوب میٹھا ئی احباب کو کھلائی
اور خود بھی کھائی۔
صائم صاحب دنیا میں آئے تو سرخ سفید، گول چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، صحت مند
تھے۔یہ شروع ہی سے شباہت میں اپنی ماں پر ہیں۔بعض نے انہیں ان کے ’چاچو‘ سے
ملا یا اتو کسی نے ان کی اکلوتی پھوپھی سے۔ اب یہ چھ سال کے ہوچکے ہیں اول
کلاس میں آگئے ہیں۔ اب یہ وہ صائم نہیں ہیں،ان کی شخصیت مختلف ہوچکی ہے۔
کتابی چہرہ،کھلتا ہوا رنگ، بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں، اَبرُو(بھویں) تیر
کمان،صَبِیح پلکیں،سیاہ گھنے کالے بال، کھڑے نقش، ناک قدرے پھیلی ہوئی جو
ہمار ے خاندان کا ٹریڈ مارک ہے ،کشادہ پیشانی، گلابی ہونٹ ، چھوٹا بایا،
مخروطی انگلیاں، چھوٹے چمکدار دانت، پر کشش مسکراہٹ،مسکرا تے اور ہنستے وقت
گالوں میں گٹھے پڑتے ہیں ، فربح جسم،لمباقد ،چال میں بانکا پن، جلد رو دینا
، سر دست ان میں ڈرکی کیفیت پائی جاتی ہے راہ چلتے گاڑی آجائے کوئی چھوٹا
سا جانور قریب آجائے تو یہ ڈر جاتے ہیں حالانکہ ان کا نشان شیر ہے اور عنصر
سورج انہیں بہادر ہونا چاہیے ممکن ہے کہ یہ خصوصیت آگے چل کر ظاہر ہواور یہ
بہادری کے جوہرد کھائیں۔ اس وقت یہ ڈر پھوک ہیں۔
عقیقہ بچے کی پیدائش سے ساتویں دن کرنے کی ہدایت احادیث میں ملتی ہے۔حضرت
حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے
جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اس کا سر منڈوایاجائے اور نام
رکھا جائے۔( سنن ابی داؤد، سنن نسائی)عقیقہ کے جانور کی قربانی میں نر یا
مادہ کی قید نہیں،بکرا یا بکری، گائے یا اونٹ جس میں سات حصے ہوتے ہیں ،
یعنی اگردو لڑکوں اور ایک لڑکی کا عقیقہ کرنا ہو تو ایک گائے قربان کی
جاسکتی ہے۔عقیقہ کردینے سے بچے کی بلائیں دور ہوجاتی ہیں اور وہ آفتوں سے
محفوظ رہتا ہے۔عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کی وجہ علامہ محمد
منظور نعمانی نے ’معارِ ف الحدیث‘ میں یہ بیان کی ہے کہ ’’دل کو زیادہ لگنے
والی بات یہ ہے کہ بچہ اﷲ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے
لیے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے۔ جب تک یہ شکریہ
پیش نہ کیاجائے اور فدیہ ادانہ کردیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ
اس کے عوض رہن رہے گا‘‘۔ جامعہ ترمذی کی ایک حدیث یہ بھی ہے کہ ’حضرت علی
بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے حسنؒ کے عقیقہ میں ایک
بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے (اپنی صاحبزادی سیدہ) فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ
اس کا سر صاف کردو اور بالوں کے وزن کے بھر چاندی صدقہ کردووزن کیا تو وہ
ایک
درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے‘‘۔
پیدائش کے ساتویں روز صائم صاحب کا عقیقہ ہوا، سر کے بال صاف ہوئے اور دو
عدد بکرے صدقے کے طور پر ذبح کرائے گئے۔ اب ہمارے پوتے صاحب کے سر پر موجود
کالے گھنے بالوں کی جگہ صاف ستھرے چٹیل میدان نے لے لی تھی۔ اب وہ قدرے
مختلف نظر آرہے تھے۔ بلکہ زیادہ حسین لگ رہے تھے۔عقیقہ کی تقریب دھودھام سے
ہوئی۔ تمام قریبی احباب نے بھر پور شرکت کی۔
صائم صاحب تمام گھر والوں کی محبتوں کے مہور تھے ،ہیں اور رہیں گے۔ میرا
چھوٹا بیٹا نبیل گھر میں سب سے چھوٹا تھا جو ایم بی بی ایس کرچکا تھا۔ گھر
میں آنے والا بچہ صائم ہی تھا اس وجہ سے یہ ہر وقت ہر لمحہ کسی نہ کسی کی
توجہ کا مرکز رہا کرتے تھے۔ ابھی یہ دو سال ہی کے تھے کہ عدیل کو سعودی عرب
ملازمت مل گئی ۔ پاکستان کے حالات کے پیش نظر یہ ایک بہتر موقع تھاہم نے
بادل نخواستہ ، دل پر جبر کر کے اپنے بیٹے ، بہو اور پوتے صاحب کو سعودی
عرب کے لیے رخصت کیا۔ اب ہم تھے اور پوتے صاحب کی یادیں ۔ بھلا ہو
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہ اس نے فاصلوں کو دوریوں کو مٹا دیا ہے۔ انٹر نیٹ
پر تصویر کے ساتھ گفتگو کی سہولت نے بڑی حد تک اطمینان فراہم کردیا ہے۔
پہلے تو روز ہی کافی کافی دیر تک اسکائپ بات کیا کرتے رفتہ رفتہ دل کو
اطمینان آگیا اورجدائی کی شدت تھم سی گئی۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک سال بعد ہی ہمارے چھوٹے بیٹے نبیل صاحب کا بھی
پروانہ سعودی عرب سے آگیا اور دونوں بیٹا بہو بھی سعودی عرب چلے گئے۔ اب
ہماری کیفیت جنگل میں تنہا شکاری والی ہوئی۔ گھر جس میں رونق ہی رونق تھی ،
چہل پہل ، ہنسی مزاق،خوشی ہی خوشی تھی خاموشی نے ڈیرے ڈال لئے۔ دونوں میاں
بیوی کس قدر باتیں کریں ، جب کے میں پہلے ہی خاموش طبع،جلد ہی ہمارا وزٹ
وزا بھی آگیا اور ہم بھی اپنے بچوں اور پوتے کے پاس چلے گئے۔درمیان میں
ایسا بھی ہوا کہ ہم سعودی عرب میں اور ہمارے پوتے صاحب کراچی ہی میں تھے۔
ان کے ویزہ کی کچھ مشکلات تھیں۔ لیکن یہ بھی جلد سعودی عرب چلے گئے۔ ہمیں
ایک سال بعد دوبارہ سعودی عرب جانے کی سعادت نصیب ہوئی اور پوتے صاحب کے
ساتھ وقت گزارا۔ اب یہ اسکول جارہے ہیں جدہ کے پاکستان انٹر نیشنل اسکول
پڑھتے ہیں۔ ابتدائی کلاسوں کے بعد ونچ میں آگئے ہیں۔
ستاروں کے علم پر اکثر لوگوں کا ا ِعتِقاد نہیں مسلمان کی حیثیت سے ہمارا
ایمان بھی ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اﷲ کو ہے۔ لیکن علمِ فلکیات اُن
علوم میں سے ہے جسے قدیم علم کہا جاتا ہے۔ اﷲ کی مخلوق نے بے شمار کاموں کے
لیے چاند ، سورج اورستاروں سے مدد لی ہے۔ ماہر فلکیات کی باتوں پر یقین
کرنا یا نا کرنا اپنی جگہ لیکن اس کی حقیقت سے انکار بھی مشکل ہے۔ اسے صرف
ایک علم اور سائنس کے طور پر لینا چاہیے۔ صائم جس تاریخ کو اس دنیا میں
وارد ہوئے اس اعتبار سے ان کا اسٹار ’اسد‘ یعنی (Leo)ہے ۔۲۴ جولائی تا۲۳
اگست کے درمیان پیداہونے والے ’اسد‘ہوتے ہیں۔ ماہر ین فلکیات نے ’
اسد‘افراد کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان کے مطابق ’اسد‘ افراد کا نشان شیر
ہے جسے جنگل کابادشاہ کہا جاتا ہے ، ان کا عنصر سورج ہے جوسیاروں کے نظام
میں تمام سیاروں کا بادشاہ ہے۔ان دونوں چیزوں کا اثر اسد افراد پر ہوتا ہے
اور یہ انہیں بہادر، ذہین اور گرم مزاج بناتی ہیں۔ اسد افراد تخلیقی
صلاحیتوں اور مضبوط شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ بہادری میں ان کا کوئی مقابلہ
نہیں ہوتا۔ پاکستان کی فوج میں نشان حیدر حاصل کرنے والے تین فوجی (سرور
شہید، طفیل محمدشہید، شیر خان شہید) اسد گزرے ہیں۔ سب سے پہلے چاند پر قدم
رکھنے والا امریکی نیل آرم اسٹارنگ اسد تھا۔ ان میں حکمرانی کی صلاحیت پائی
جاتی ہے ۔ امریکی صدربل کلنٹن اور بارک اوباما اسد ہیں۔ پاکستان کے دو فوجی
صدر (ضیاء الحق ،پرویز مشرف )اسد گزرے ہیں۔ مزاج میں تیزی کے باعث ان میں
برداشت کا مادہ نہیں رہتا اس وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔باوفا،محبت کرنے
والے ،پھول دار(Bossy) ، حاکمانہ مزاج رکھتے ہیں۔ یہ کامیاب تخلیق کار ثابت
ہوتے ہیں ان کی تخلیقی حس انہیں مختلف تخلیقی شعبوں میں لے جاتی ہیں۔
معروف بہارتی اداکار کشور کمار، سیف علی خان، سنجے دت، سونونگم اور کے
بالاجی اسد ہیں۔یہ اچھے مصنف بھی بن سکتے ہیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا
اظہار کسی بھی شعبے میں کرسکتے ہیں۔ ان میں ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے ،
یہ خدمت خلق کرکے خوش ہوتے ہیں یعنی یہ سماجی کارکن بھی ہوتے ہیں۔ اسد
افراد کی شخصیت جاذب نظر اور پر کشش ہوتی ہے ۔یہ دوسروں کی توجہ جلد اپنی
جانب کرلیتے ہیں۔جن شعبوں میں یہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ان میں سیاست،
سماجی خدمات، کسی بھی ادارے کی سربراہی، فوٹو گرافی، ماڈلنگ یا اداکاری۔ان
کا رجحان مذہب کی جانب بھی ہوتا ہے اگر یہ اپنی علمی صلاحیتیں دینی علوم کی
جانب مرکوذ کردیں تو اچھے مذہبی اسکالر اور مقرر بھی بن سکتے ہیں۔امام
ربانی حضرت مجد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
(۱۹ اگست ۱۸۶۳ء)، اسد ہیں۔
معروف ’اسد‘ افراد میں امام ربانی حضرت مجد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، حضرت
مولانا اشرف علی تھانویؒ (۱۹ اگست ۱۸۶۳ء)، جنرل محمد ضیاء الحق(۱۲ اگست
۱۹۲۴ء)،جنرل پرویز مشرف (اگست ۱۱، ۱۹۴۳ء)، نشان حیدر سرور شہید(۲۷ جولائی
۱۹۱۰ء)، نشان حیدر طفیل محمد شہید (۷ اگست ۱۹۱۴ء)،نشان حیدر کیپٹن کرنل شیر
خان شہید (۵ جولائی ۱۹۷۰ء)، بارک اوباما ( ۴۴واں پہلا افریقی امریکی صدر)
(پیدائش۔ ۴ اگست ۱۹۶۱ء)، ۴۲ واں امریکی صدر بل کلنٹن (پیدائش ۔ ۱۹ اگست
۱۹۴۶ء)، اداکارہ میڈونا (۱۶ اگست ۱۹۵۸ء)،پاکستانی ادیب کرنل محمد خان(۵
اگست ۱۹۱۰ء)، بھارتی اداکار کشور کمار، سیف علی خان، سنجے دت، سونونگم، کے
بالاجی شامل ہیں۔اسد (Leo) افراد کی
جن نمایاں چیزوں کی نشاندھی کی گئی ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
رنگ: گولڈن، نارنجی،پیلا
عنصر: آتش؍آگ
جواھر: ہیرا، لہسنیا
بہترین شریک حیات: حمل، قوس، ثور
ناموافق ساتھی: عقرب، ولو
دن: اتوار
حروف: م، ٹ
عدد: ۱
سیارہ: شمس (سورج)
بیماریاں: ہائی بلڈ پریشر، ریڑھ کی ہڈی یا کمر کی تکالیف، دل کی تکلیف
نشان: شیر
گروپ: دانش ور(Intellectual)
لکی نمبر: 1, 3, 9, 23
لکی مہینہ: جنوری، اکتوبر
لکی دن: اتوار
فائدہ مند پھل: آم، پھو ل گوبی، سلاد
جہاں تک چاند، سورج اور ستاروں کی باتوں کا تعلق ہے انہیں ہر گز حتمی تصور
نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک علم ہے اسے علم کی حد تک ہی لینا چاہیے۔ غیب کی
باتوں کا اﷲ کے سوا کسی کو علم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے پوتے صائم کو
عمر دراز عطا کرے اور علم کی دولت سے مالا مال کرے۔ آمین۔
علم نجوم اور ستاروں کے علم کے ذریعہ شخصیت کے بارے میں معلومات کا طریقہ
بہت قدیم ہے ۔ موجودہ سائنسی اور برقی دنیا کی نئی ایجاد نے انسان کی جین
اور خون کے گروپ کے توسط سے اس شخص کے بارے میں بہت کچھ بتایا جانے لگا ہے۔
روزنامہ جنگ کی اشاعت ۲۴ ستمبر ۲۰۱۳ء میں فریحہ سلیم کے مضمون میں بتا یا
گیا ہے کہ جاپان میں ہونے والی تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا میں بسنے
والے خواتین و حضرات میں چار اقسام کے بلڈ گروپ پائے جاتے ہیں اور ہر گروپ
کے حامل افرد مختلف خصوصیات رکھتے ہیں ۔
اس تحقیق کے مطابق ہمارے پوتے صائم صاحب کا بلڈ گروپ ’بی +‘ ہے ۔ اس بلڈ
گروپ کو متحرک (Active)کہا گیا ہے۔ دنیا بھر میں گروپ Bکے حامل افراد میں
تقریباً ۹ فیصد لوگ بی پازیٹو اور ۲ فیصد بی نیگیٹو ہیں۔ یہ لوگ خوش مزاج ،
مثبت سوچ رکھنے والے ، حساس شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن غیر منتظم اور
لاپروا بھی ہوتے ہیں۔ ان میں عام لوگوں کی نسبت پھرتیلا پن زیادہ ہوتا ہے۔
یہ لوگ شور پیدا کرتے ہیں اور اپنی مرضی کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان میں منزل
پانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ لوگ ٹیم کے ممبر کی حیثیت سے زیادہ موثر ثابت
نہین ہوتے بلکہ اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں۔ صرف اپنے لیے کام کرتے ہیں۔
مضبوط شخصیت کے حامل یہ افرادخودسر اور اپنی مرضی چلانے اور من مانی کرنے
والے ہوتے ہیں۔ انفرادی کوموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ اچھے محقق ،
سیکریٹری، گالف کے کھلاڑی اور کک بھی بن سکتے ہیں۔ اس تجزیے کے بارے میں
بھی سنجیدہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بھی ایک علم ہے ۔ بہت کچھ ان باتوں کے
خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اسے محض علم تصور کرتے ہوئے درج کی گئیں باتوں پر
سنجیدہر گز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
برطانیہ کی ایک جامعہ کی تحقیقی رپورٹ منظر عاپر آئی ۔اس رپورٹ کی تفصیل
روزنامہ جنگ کی اشاعت ۲ اپریل ۲۰۱۴ء میں ہوئی ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
خواتین اور مردوں کو بلْد گروپ کی مناسبت سے پیشوں کے انتخاب کے بارے میں
بتایا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق ’بی ‘گروپ کے لوگ تنہائی میں کام کرنا
پسند کرتے ہیں اور انہیں ایسے پیشے اپنانے بھی چاہیں جن میں دوسروے لوگوں
کا بطور ساتھی کارکن کوئی کردار نہ ہو۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اے‘ اور
’بی‘ ایسے لوگوں کا گروپ ہے جو بہترین انداز میں ترجمانی اور وکالت کے
فرائض سر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ منطقی رویے کوپسند کرتے ہیں اب سامنے غیر
ضروری باتوں سے کام نہیں چلا یا جاسکتا ۔’اے بی‘ کی مشہور شخصیت جان ایف
کینڈی کی تھی جسے بہترین معاونوں کا تعاون حاصل تھا۔ایسے افراد بہترین
لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے کاہنر جانتے ہیں ۔اس علاوہ ساتھی ساتھیوں کی
تجاویز اور خیالات کو بھی خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ |