میں غصے کا بہت تیز تھا اور میرے گھر والے اکثر اس وجہ سے بہت پریشان رہتے
تھے۔ میں خود بھی قدرے پریشان رہتا تھا مگر جیسے ہی کوئی کام میری مرضی
نہیں ہوتا تھا تو میں غصے میں آجاتا تھا۔ایک دن خبر ملی دادا اور دادی مجھے
ملنے آرہے ہیں ۔ ہم کافی عرصے سے کراچی میں رہائش پذیر تھے جبکہ دادا ابھی
پنجاب میں رہتے تھے اور وہ کسی بھی صورت اپنا گاؤں چھوڑنے کو تیار نہیں مگر
دو تین سالوں میں وہ کراچی ہم سے ملنے ضرور آتے اور ہم بھی سال میں ایک
مرتبہ ان سے ملنے ضرور جاتے ۔ میں آج بہت خوش تھا جب دادا اور دادی نے گھر
میں قدم رکھا۔خوب دن چل رہا تھا کہ اچانک گلی کے بچوں کی گیند کی وجہ سے
میں غصے میں آ گیا اور میں ان پر خوب چلایا۔ دادا جان یہ سب دیکھ کر پریشان
ہو گئے اس وقت تو انہوں مجھے کچھ نہیں کہا مگر شام کو بڑا عجیب کا م کرنے
کو کہا! بیٹا جاؤ صحن میں لگے درخت میں ایک کیل ٹھونک کر آؤ۔ میں یہ کام دس
دن سے انجام دے رہا تھا اور وجہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔گیارہویں دن
دادا نے کہا اب ان کیلوں کو باہر نکالو! میں نے یہ بھی کر دیا۔پھر دادا
گویا ہوئے۔۔۔ یہ وہ سوراخ ہیں جو تمہارے غصے کی وجہ سے دوسروں کے دلوں میں
نمایا ں ہیں جبکہ تم غصے پر قابوبھی پالو پھر بھی یہ سوراخ ختم نہیں ہو
سکتے۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ آئندہ مجھے کیا کرنا ہے۔
صرف دس سال پہلے کی بات ہے جب ببلو کو سو(۱۰۰) روپے ملے تو بھاگا بھاگا گلی
کی دکان پر اپنی پسند کی چیز لینے گیا جب اس نے دکاندار کو اپنی مطلوبہ چیز
بتائی اور سو روپے کا نوٹ دیا تو اس نے بڑے سخت لہجے میں پوچھا! کہاں سے
لیا تم نے؟ ببلو گھبرا کر میرے چاچو نے دیا ہے۔ببلو اپنی چیز لے کر چلا گیا
اور تھوڑی دیر بعد دکاندارببلو کے گھر میں بیٹھا تھا۔ ببلو پریشان تھا کہ
میں نے تو پیسے دے کر چیز لی تھی پھر چاچا چھما (شمیم) کیوں آیا ہے؟ جب
چاچا چلا گیا تو ابونے مجھے کہا! بیٹا!آئندہ پانچ ، دس روپے سے زیادہ پیسے
لیکر باہر نہیں جانا۔زمانہ بہت خراب ہے۔ اور چور اچکے بچوں سے پیسے اور
چیزیں چھین لیتے ہیں۔
دوپہر کا وقت تھا دائی نصیبو اپنا تنور جلا رہی تھیں کہ نمرہ تپتی دوپہر
میں کہیں بھاگی جا رہی تھی۔ دائی کی نظر پڑی ۔۔۔ اپنا کام چھوڑ کر نمرہ کو
آواز دی اور کہا!کہاں جاررہی ہو اس وقت؟ نمرہ نے سہیلی کے گھر کھیلنے کا
جواب دیا ! مگر اس وقت دھوپ بہت تیز تھی ۔ دائی نے تنور پر بیٹھی دوسری
خاتون سے کہا! وہ ابھی آرہی ہے۔ وہ نمرہ کو پکڑ کر اس کے گھر لے آئی تو پتہ
چلا وہ ماں کو بتائے بغیر گھر سے گئی تھی۔ نمرہ کی امی نے دائی کا شکریہ
ادا کیا اور اپنے کام پر لوٹ آئی۔
چپ غلط فیصلے کرا دیتی ہے بولیے! وگرنہ مسئلہ ہو گا!
یہ چند واقعات اس لیے گوش گزار کیے تاکہ جو تربیت بچوں کی ان درسگاہوں میں
ہوتی تھی کہ اب ناپید ہو گئیں ہیں۔ آج ان درسگاہوں کے چند کرداروں کا جائزہ
لینے کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی ہے کہ وہ دوبارہ زندہ ہو جائیں۔ اس بات
سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ہاں تربیت کا فقدان ہے جس کی بنا پر
ہمارے بچے بے راہروی کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ ایسے کرداروں کے کردارکی وجہ
سے ہمارے گھر تک محفوظ تھے بچوں پر نظررکھنے کے لیے والدیں کی بجائے کوئی
موجود تھا جو ان کا خیال رکھ سکتا تھا،ان کا اختتام ہوا۔ یہ وہ سیدھے سادھے
کردار تھے کہ والدین کی نظروں سے اوجھل بچے ان کی نظروں سے بچ سکتے ہی نہیں
تھے۔
ہمیں آج یہ تہیہ کرنا ہے کہ گلی میں بیٹھے بزرگ ہمارے آس پاس کے محافظ ہیں
، گھر میں دادا، دادی، نانا اور نانی ہمارے محافظ ہیں ۔ گلی محلے کی نکر پر
بیٹھی دائی تک پاسبانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ ان کی قدر کیجیے اگر کہیں
موجود ہیں ، ان کی عزت کیجیے کہ ہماری بھی عزت بڑھے کیونکہ یہ بے لوث
شخصیات ہیں۔ یہ کسی تربیتی اسکول نہیں گئے مگر انداز تربیت جانتے ہیں۔ یہ
وہ بھولی بسری درسگاہیں ہیں جن کا قائم رہنا ہماری قوم کو دوبارہ امن کی
طرف لے جاسکتاہے۔
|