دریائے سند ھ جسے’’ سندھو‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو دنیا کے
چند بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔اس کا منمبہ تبت’’جھیل مانسراوور‘‘ ہے اور یہ
بھارت کے شمالی علاقاجات ارونانچل پردیش سے ریاست جموں کشمیر کے ’’لداخ ‘‘
سے ’’ویلی‘‘ کے درمیاں سے گزرتا ہوا گلگت بلتستان سے پاکستان کے
southeranعلاقوں سے گزرتے ہوئے ’’کرآچی ‘‘سے بحرۂ عرب میں گرتاہے ۔اور،چناب،راوی
،جہلم،ستلج اور بیاس اس کے معاون دریا ہیں۔
تھرپارکر پاکستان کے صوبہ سندھ کا ایک پسماندہ ضلع ہے ۔1998کے اعداد و شمار
کے مطابق اس کی کل آبادی 955812ہے جن میں 59.48 %مسلم جب کہ 40.58%ہندو ہیں
، علاقے کا شمار پاکستان کے انتہائی زیریں علاقوں میں ہوتا ہے۔سمندر کے
انتہائی قریب اور سطح سمندر سے بلندی بھی نہ ھونے کے برابر ہے اوریہ علاقہ
پاکستان کے طویل ترین صحرہ میں واقع ہے ۔اورزمانے سے دریائے ’’سند ھ ‘‘اس
علاقے کی پیاس بجھاتا رہا لیکن شائد اب اس میں ہمت نہیں رہی کہ وہ اپنا
پیار و محبت صحرائے تھر کے لوگوں تک پہنچا سکے اور اگر بات بارش کی ہو تو
اب کے آخری بار یہاں ستمبر2013میں ہلکی بوندہ باندھی ہوئی تھی ایسی کہ پیڑ
کے پتے بھی گیلے نہ ہونے پائے تھے اور اس طرح یہ علا قہ مجموعی طور پر
خطرناک قحط سالی کا شکار ہے اور علاقے میں بھوک و افلاس نے ڈھیرے ڈال رکھے
ہیں ۔مٹھی ہسپتال زرائع کے مطابق تھرپارکر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران
انسانی ہلاکتوں کی تعداد 121تک پہنچ چکی ہے ۔جس میں زیادہ تعداد مردوں کی
ہے اور اس کے علاوہ 32بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تمام ہلاکتیں
MALNUTRITIONبھوک اور غزائی قلت کے باعث ہوئیں۔ 2000گاؤں پر مشتمل پاکستان
کے طویل صحرہ پر آئی اس آفت نے اسے باقی ماندہ ملک سے الگ کر کے رکھ دیا ہے
۔مٹھی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر جوہر کمار کے مطابق ہلاکتوں کی وجہ غزائی قلت
اورپینے کا پانی دستیاب نہ ہونا ہے۔اور DROUGHT اوربھوک کے باعث بچے اور
بڑے PNEUMONIAسے ہلاک ہوئے ہیں ۔
دریائے سند ھ جسے سندھو بھی کہا جاتا ہے جو دنیا کے چند بڑے دریاؤں میں سے
ایک ہے۔اس کا منمبہ تبت’’جھیل مانسراوور‘‘ ہے اور یہ بھارت کے شمالی
علاقاجات ارونانچل سے ریاست جموں کشمیر کے ’’لداخ ‘‘ سے ہوتا ہوا’’ویلی‘‘
کے درمیاں سے گزرتا ہوا گلگت بلتستان سے پاکستان southeranعلاقوں سے گزرتے
ہوئے ’’کرآچی ‘‘سے بحر عرب میں جا کر ملتا ہے ۔اور،چناب،راوی ،جہلم،ستلج
اور بیاس اس کے معاون دریا ہیں۔
پاکستان کے یہ وہ آخری علاقے ہیں جو سمندر سے ملتے ہیں جب کہ پاکستان کے
پنجاب صوبے سے ہوتے ہوئے خیبر پختون خواہ اور دوسرے تمام بالائی علاقوں میں
بھی پانی کی زیر زمین سطح کزشتہ چند برسوں میں بہت کم ہوئی ہے ۔زراعت سے
جڑے تمام مائرین کے مطابق گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان کے تمام زیریں اور
بالائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے زخائر میں خاطر کواہ کمی واقع ہوئی ہے
اور جہاں پانچ برس پہلے پچاس فٹ پر پانی ملتا تھا وہاں اب وہ کم ہو کر
120فٹ نیچے چلا گیا ہے اس طرح اس کی کمی کا تناسب ایک سو دس فیصد بنتا ہے
جو پاکستان کی بقا ء کے لئے’’ ایک سوالیہ نشان ہے ‘‘اور ان حالات میں
پاکستانی میڈیا نے تو حد کر دی ہے ۔اس انتہائی اہم خبر کو ہمیشہ دسوین نمبر
پر رکھا اور اس سے زیادہ انڈین فلمی خبروں کو ترجیح دی ۔اور اس میڈیا کی
انہی حرکتوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پراس کے خلاف ہونے والے منفی مباحثوں کو
تقویت ملتی ہے جن میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے اعلی ترین
الیکٹرونک میڈیا پر بھارت کا قبضہ ہے۔ جہاں لوگوں کی اکثریت ایسوں پر مشتمل
ہے جنہیں بھارت مالی معاونت کرکے ان کی ہمدردیاں حاصل کر چکا ہے جن کی زمہ
داری یہ لگائی گئی ہے ک وہ علاقائی امن کی تشہیر کریں اور دو ممالک کے
درمیاں موجود اہم ترین مسائل خصوصی طور پر مسئلہ کشمیر پر پاکستانی لیڈر شپ
اور ایلیٹ کلاس کو پیچھے ہٹنے پر مجبو ر کریں جبکہ اہل سیاست میں بھی
اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا وژن صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ادوار حکومت
میں رہیں یا کم از کم پانچ سال پورے کریں ۔چہ جائیکہ پاکستان کے مستقبل کی
ضروریات اور چیلینجز کیا ہیں ۔یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے حق میں
واضع دلیل یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت بھارت کے جزوی معاملات پر بات چیت پر آمادگی
کو ہی اپنی کامیابی کا زینہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔اور یہ میڈیا اور
سیاستکار عوامی سوچ کو کشمیر سمیت دوسرے معاملات سے یکسر دوسری جانب
علاقائی امن اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کو بنیاد بنا کر عوامی دباؤ کو کم
کرنے اور اپنا وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ،یہی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے
یہاں قائم حکومتوں اور حکمرانوں نے بھارت سے تجارت کو خطہ کے دو کروڑ
کشمیری انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ترجیح دیتے ہوئے تجارت بڑھانے اور
بھارت کو پسندیدہ قوم کا درجہ دینے کی بساط بھر کوشش کی ہے اور اس طرح
پاکستان میں گزشتہ دس سے پندرہ برس میں قائم حکومتوں کی یہی پالسی رہی جس
کے باعث بھارت کو موقع ملا اور وہ اپنے زیر قبضہ کشمیر کے اس حصہ میں متعدد
ڈیم مکمل کرنے میں کامیاب رہا اور وہ ۲۰۲۰ تک وہاں مذید ڈیم اور متعدد
کینالز تعمیر کر کے ریاست کے نوے فیصد پانی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے میں
کامیاب ہو جائے گا ۔اور جیسے آج وہ صحرائے تھر میں قحط برپا کرنے پر قادر
ہوا وہ وقت دور نہیں جب وہ وسطی پنجاب کے زرعی اور پاکستان کے بالائی
علاقوں کو بھی اس ظالم قحط میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو جاے گا ۔اﷲ نہ
کرے ایسا ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو دنیا صومالیہ کا زکر بھول جاے گے اور ہر
طرف پاکستان کے قحط کا زکر ہوا کرے گا ۔
ان تما م بھیانک و خطرناک مسائل جن کے آثار صحرائے تھر میں نظر آنا شروع ہو
چکے ہیں اورعلاقے کا سب سے بڑے دریائے سندھ میں دھول اڑنے لگی اور وہ اپنے
پاؤں پیچھے کھینچنے لگا ہے ، نا جانے کیوں پاکستانی قیادت،سیاست ،حکمرانوں
،پاک افواج کے تھنک تینک ،اہل علم و دانش ،اہل قلم،تجزئیہ نگار و اینکر
پرسن کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا یا وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے جب کے ان کی یہ
مجرمانہ خموشی صرف اہل کشمیر کے لئے نہیں بلکہ اہل پاکستان کے مستقبل اور
آنیوالی نسلوں کی بقا ء کے لئے کسی بڑے اندو ناک خطرے سے کم نہیں ہے ۔جسے
محسوس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ورنہ یہ امن کی آشا کے عاشق و پڑوسیوں کی
محبت کے دیوانے اس ملک کو صومالیہ بنانے کا اہتمام کر کے پلوو جھاڑ تے ہوئے
کہیں اور ’’کھسک ‘‘لیں گے اب بھی وقت ہے’’ اہل پاکستان بیدار ہو جاؤ ‘‘ور
نہ یہ سب ہونے کے بعد تمام کے تمام بیس کروڑ بھی جاگ اٹھے اور سڑکوں پہ نکل
آئے تو کیا ہو گا۔۔۔؟ وہ ظالم بنیا ۔۔۔اس پانی کو پھر کبھی بھی آزاد نہیں
کرے گا چاہے پورہ پاکستان پتھروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر مر بھی جائے۔۔۔اس لئے
کہ وہ سدا سے یہی چاہتا تھا کہ پاکستان صومالیہ بنے اور پاکستان کو صومالیہ
بنانے کے لئے کشمیر کا بھارتی قبضے میں رہنا ضروری ہے۔ |