ایک فیصلہ بنا دیتا ہے دوسرے فیصلے کا منتظر

سپریم کورٹ نے 24اپریل 2014کو یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لیو ان ریلیشن شپ کی بنیاد پر ایک ساتھ رہ رہے جوڑوں کے یہاں اگر بچے کی پیدائش ہوگی تو وہ جائز ہوگا۔ یہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں ، جو اپنے آپ میں اہم ہو ، کیوں کہ لیو ان ریلیشن شپ کی بنیاد پر رہنے کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے تو بچے کی پیدا ئش کو کیسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لیو ان ریلیشن شپ کی بنیاد پر رہنے والے الگ ہوں جائیں تو بچہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی ، کیوں کہ چند دنوں قبل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی آچکا ہے کہ جدائی کے بعد لڑکا لڑکی کے کسی بھی معاملہ کا ذمہ دار نہیں ہوگا ، یعنی نہ لڑکے پر اس ساتھی لڑکی کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی اور نہ ہی سکنیٰ کی ۔چنانچہ ایک فیصلہ بنادیتا ہے دوسرے فیصلے کا منتظر !اب کورٹ یہ فیصلہ کرے کے الگ ہونے کے بعد بچہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی ۔

فی الحال مذکورہ معاملہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی غورکرنے کی بات ہے کہ لیو ان ریلیشن شپ کی بنیاد پر رہنے کی وجہ سے کتنے بچے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ قتل جنین کا معاملہ انتہائی عروج پر پہنچ چکا ہے ، مگر سچی بات یہ بھی ہے کہ لیوان ریلیشن شپ کی بنیاد پر رہنے والوں کے درمیان ایسے واقعات زیادہ رونما ہورہے ہیں ۔ 2009میں ہی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ منظر عام پر آیا تھا کہ قبل از شادی جسمانی تعلقات جرائم میں شامل نہیں اور بغیر رشتۂ ازدواج قائم کئے مرد وعورت کا ایک ساتھ رہنا زمرہ ٔ جرم میں نہیں ۔چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن، جسٹس دیپک ورما اور بی ایس چوہا ن کی بنچ نے یہ فیصلہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ دو بالغوں کا ایک ساتھ رہنا آخر کون سا جرم ہے؟ بھگوان کرشن اور رادھا ایک ساتھ ایسے ہی رہا کرتے تھے، اس فیصلہ کے بعد اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ لیو ان ریلیشن کی بنیاد پر پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت کیا ہوگی ، ہندوستان قانون کی رو سے ایسے اس معاملہ پر بحث کرنا یا اس کے متعلق کوئی فیصلہ ایسا ہی ، جیساکہ شاد ی کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کے تعلق سے فیصلہ کیا جائے کہ آیا یہ بچہ جائز ہے یا نہیں ۔

سپریم کورٹ پر ہر ہندوستانی کا اعتماد بحال ہے ، خواہ وہ کسی مذہب و مسلک کا پیرو کار ہو ، اس کے تما م تر فیصلوں کو سر آنکھوں پر رکھنا ایک اہم فریضہ سمجھتا ہے ۔تاہم اس قابل قدر ادارہ سے کسی ایسے کا فیصلہ کا منظر عام پر آنا جو بلا تفریق مذہب وملت باعث شرم ہو ، انتہا ئی مضحکہ خیز معلوم پڑ تا ہے ۔ ملکی باشندوں کے دلوں میں اس سے ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مختلف شکوک و شبہا ت پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ غورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ ’قبل از شادی جسمانی تعلقات جرائم میں شامل نہیں ہے ‘ کی وجہ سے کیسے منفی اثرات سماج پر مرتب ہو رہے ہیں ؟ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے ہندوستان کا منظر نامہ کیسا ہو تاجارہا ہے؟ ایسے فیصلوں سے کتنے آئین و قوانین پر بل آ رہا ہے ؟ برائیوں کا کس قدر رواج ہو رہا ہے ؟ والدین ، اعزو اقارب سے نوجوان نسل کیسے صف آراء ہو رہے ہیں ؟

جب قبل از شادی دو بالغ جسمانی تعلقات قائم کریں گے یالیو ان ریلیشن شپ کی بنیاد پر رہیں گے تو ایسے پر آشوب دور میں لڑکیوں کے لئے رشتۂ ازداج سے منسلک ہونا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا، کیونکہ کوئی مر د یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی عورت ہمہ دم اس کے گلہ کی گھنٹی بنی رہے ۔اس کے نفقہ و سکنی وغیرہ کی تمامتر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا رہے ۔اب جب کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بچہ جائز ہوگا تو یہ سوا ل ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب لیو ان ریلشن شپ کی بنیاد پر رہنے والے الگ ہوجائیں تو بچہ کا کیا ہوگا ۔اس کی پر ورش و پر داخت کس کے ذمہ ہوگی ، پھر تعلیم و تربیت کا مسئلہ تو الگ رہا ، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ’’اسقاط حمل ‘‘ کا لا متنا ہی سلسلہ قائم ہوگا ،جوکہ قانوناً بھی جرم ہے اور عقل کا تقا ضہ بھی یہی ہے کہ ایسے برے فعل کو زمرۂ جرم میں ہی رہنا چاہئے ۔ قبل از شادی جسمانی تعلقات جرم نہیں گر دانا نہیں جائے گا تو لا محالہ اسقاط حمل کو ازروئے دفعہ ہند جا ئز قرار دینا ایک مجبو ری ہو گی۔سمجھ سے باہر کی بات ہے کہ ایک طرف عدالتیں خود قتل جنین کو جرم گردانتی ہے ، دوسری طرف قتل جنین اور اسقاط حمل کے لئے راہ بھی ہموار کررہی ہیں۔

2010میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھاکہ ایسی خواتین اگر اپنے ساتھیوں سے کنا رہ کش ہوگی تو نان و نفقہ کی مجاز نہیں رہیں گی ۔ جسٹس مارکنڈے اور ٹی ایس ٹھا کر کی بنچ نے کہا کہ کسی بھی ایسی عورت کو نان و نفقہ کے لئے چار شرطیں پوری کرنی ہوں گی ۔ اول ، معاشرہ کے سامنے عورت کو اپنی ساتھی کی بیوی کی طرح پیش کرنا ہوگا ۔ دوم ، بہ لحاظ قانون ِ ہند دونوں کی عمر شادی کے لائق ہوں ۔ سوم ، شادی کی عمر کے ساتھ شادی کے اہل بھی ہوں ، جن میں غیرشادی شدہ ہونا بھی ہے ۔ چہارم ، باہمی رضامند ی ۔
آزادی نسواں اپنی جگہ برحق مگراس کی علمبر دار عورتوں کو ان مردوں کو چشم ہو ش سے دیکھناچاہئے جو کو ٹ پتلون میں ملبوس ہوتے ہیں ،نیچے سے اوپر ( گلے ) تک بٹن لگاکر ٹائی باندھتے ہیں ، اگر برہنگی کا مظاہر ہ ہی آزادی کی علامت ہے تو مرد بھی اس کے لئے پیر ہاتھ چلاتے ۔ مردوں نے فیشن کے نام پر انہیں بے پردہ کردیا، تنگ و چست لباس پر آزادیٔ نسواں کا لیبل چسپاں کردیا ، باوجود اس کے ابھی بھی انہیں قرار نہیں ،اب تو یہ روشن خیال مرد متفکر ہیں کہ کیسے ان کے بدن کے کپڑوں سے ایک ایک دھاگا ادھیڑ دیا جائے ، ہائے ! کہاں جاکر یہ دم لیں گے ؟ مگر عورت ذات پھر مگن ۔

لیو ان ریلیشن شب ایسا مضحکہ خیز فیصلہ ہے جس سے طلاق کے واقعات میں بھی اضا فہ ہو تا جارہا ہے ، عورتوں کی ایک نہ سنی جا رہی ہے،ذراذرا سی بات پر تنازعہ ہو تا ہے اور فی الفور مر د ان سے قطع تعلق کردوسری عورتوں سے تعلقا ت و مراسم قائم کر نے کی سوچنے لگ جاتے ہیں ،کیونکہ بغیرشا دی مرد و عورت کا ایک ساتھ رہناجرم نہیں ہے۔

کورٹ کے ایسے فیصلوں کے بعد اس پر نظر رکھیں کہ آج تمام یو نیور سٹیوں میں طلبا اور طالبات کے لئے ہا سٹل مختلف ہوتے ہیں ، ان کے الگ الگ رکھے جانے میں در اصل یہی منشاء کارفرماہوتاہے کہ ان کے مابین رسم و راہ نہ ہو سکے، مگر کورٹ کے ایسے فیصلوں کے تناظر میں الگ الگ ہاسٹل کا نظام فرسودہ معلوم پڑ رہاہے ،کیوں کہ آخر انہیں ایک رہنے کی اجازت کیوں نہیں دے دی جاتی ہے ۔ ایک کمرہ میں طلبا و طالبات رہیں تو کسی کو یہا نتک حق نہیں رہے گا کہ ان پر انگشت نمائی کرے ، کیونکہ بھائی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے ، زبان چلاؤ تو کا ٹ لی جائے گی ۔

اس فیصلہ کے منفی اثرات میں سے ایک یہ بھی اثر ہو رہاہے کہ والدین ، مخلص دوست و احباب ، اعزہ واقارب اور ،محسنوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے ، ان کی نافرمانی کے سلسلہ میں برق رفتاری آ تی جارہی ہے ، بایں طور کہ والدین اپنے بچوں کو غلط تعلقات قائم کرنے پر سزا تو کجا ، تنبیہ بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا تو نوجوان نسل کہیں گی کہ ہمارا اس طرح تعلقات قائم کرنا کوئی غلط نہیں ، ہمیں تو اس کا حق سپریم کورٹ نے پورا پورا دیا ہے ، لہذا آپ کو اس پر انگشت نمائی کرنے کا کو ئی حق نہیں پہنچتا،صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ باپ بیٹوں اور بیٹیوں میں مقدمہ بازیا ں ہو ں رہی ہیں اور باشندگانِ محلہ محوِ تماشہ ہو تے جارہے ہیں ۔

 

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100791 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More