آپ ایک ایسی سونامی کے لیے خود کو کیسے تیار کریں گے جو
ہر ہزار سال یا اس بھی زیادہ عرصے میں آتی ہو؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے سائنس دان آج کل ملک کی سب سے
بڑی جھیل پر تحقیق کے دوران اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔
ایلپس نامی یورپی پہاڑی سلسلے میں موجود پانی کے ذخائر اونچی لہروں کے باعث
پہچانے جاتے ہیں جن کی وجہ زلزلوں کے باعث ہونے والے لینڈ سلائیڈنگ ہے۔
|
|
محققین کا کام اس بات کے اشارے دے رہا ہے کہ یہ خطرات اب بھی موجود ہیں
تاہم مستقبل میں اس کی شدت کم ہو جائے گی۔
برن یونیورسٹی کے پروفیسر فلاویو اینسلمیٹی کے مطابق: ’یہ واقعات سیلاب اور
برفانی تودے گرنے کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں اس لیے ان کے باعث آنے والے
سونامی کے خطرے کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور قریبی آبادی اس کی توقع بھی
نہیں کر رہی ہوتی۔ لیکن بحیثیت ماہرِ ارضیات ہمارا فرض ہے کے مسئلے کا
جائزہ لیں اور لوگوں کو اس کے خطرات سے آگاہ کریں۔‘
انہوں نے سنہ 1601 میں میں آنے والے 5.9 شدت کے زلزلے کی مثال دی جس کے
باعث لوسرن جھیل میں اردگرد کی پہاڑیوں کے کنارے سرک کر جھیل میں جا گرے
تھے۔
مٹی گرنے کی وجہ سے پانی لہریں پیدا ہوئیں اور کناروں پر جا کر وہاں
آبادیوں میں سیلاب کا باعث بنی۔
تاریخی کتابوں کے مطابق پانی کی اونچی لہریں کم سے کم ایک ہزار قم تک خشکی
پر آئیں جو تقریباً آدھا سے ایک کلومیٹر بنتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ تیرتا ہوا ملبہ درختوں پر دو نیزوں کی اونچائی تک جا کر
پھنسا۔ یہ اونچائی کم سے کم دو میٹر بنتی ہے۔
پروفیسر فلاویو اینسلمیٹی نے جھیل میں گرنے والے تودوں اور ان سے پیدا ہونے
والی سونامی کی لہروں کا مطالعہ کیا۔
پروفیسر اینسلمیٹی کا کہنا ہے کہ ’یہ چٹانیں 1606 میں حرکت میں آئی تھیں
اور انھیں دوبارہ متحرک ہونے کے لیے وقت درکار ہوگا۔‘
’لیکن بہت سی دوسری جگہیں ہیں جہاں میٹروں کے حساب نرم تودے گرنے کے قریب
ہیں۔ ماہرِ ارضیات اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان ڈھلوانوں کو ہلانے کے
لیے کتنی طاقت درکار ہوگی۔
’دراصل ہم ایک حد تک اس بات کی پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ کس قسم کا زلزلہ کن
اقسام کی ڈھلوانوں کو گرانے کے لیے کافی ہے۔ اور ہم اعداد و شمار کی مدد سے
سونامی کی لہروں کی شدت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ یعنی ہم کسی حد تک یہ
کہہ سکتے ہیں کہ کون سا علاقہ کتنا متاثر ہو گا۔‘
اس علاقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں زیادہ شدت سے آنے والے زلزلوں کی تعداد
کم ہے۔
|
|
جھیل کے اندر موجود ایسے ملبے کی تہوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں
کتنی مرتبہ بڑے زلزلے آئے۔
مشاہدے سے پتہ چلا کہ پچھلے 15000 سال میں یہاں سنہ 1601 کے زلزلے کی نوعیت
کے چھ واقعات پیش آئے۔
پروفیسر اینسلمیٹی کے مطابق کسی واقعے کے دوبارہ پیش آنے پر توجہ دینے کے
لیے 1000 یا 2000 سال بہت زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا: ’تاہم ماہرِ ارضیات ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ قدرتی
خطرات سے لوگوں کو آگاہ رکھیں۔ ہمیں سونامی کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ہمیں
یہ کام کم سے کم بوکھلاہٹ پیدا کیے ہوئے کرنا ہے۔‘
|