جہاں دینِ اسلام کوخدائے بالا و
برتر نے اس کائنات کیلے ضابطہ حیات بناکربھیجا ہے وہاں یہ اعلان بھی کیا ہے
کہ ”فلن یقبل منہم“ اس دین کے علاوہ کوئی نظام قابل ِ قبول نہیں ۔علمائے
کرام نے اس ایت کی تشریح میں لکھاہے کہ قیامت تک کوئی بھی قانون اور مذہب
دین ِ اسلام کا مقابلہ دلیل و برہان کے میدان میں نہیں کرسکتا ہے ،نیز جب
تک مسلمان باہمی اختلافات کے دلدل میں نہیں پھنسے تھے وہ دنیا کے حکمران
رہے ۔
آج ہم جن کھٹن حالات سے گزر رہے ہیں ،چہارسو مایوسی کا راج ہے ،اورہم اپنے
ہی کارستانیو ں کے وجہ جن ناکامیوں سے ہم دوچار ہیں اس ماحول میںبرونائی
دارالسلام کی خبر”ٹھنڈی ہوا کاایک جھونکا“ہے۔
برونائی دارالسلام کے حکمران سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی قوانین
متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ برونائی دارالسلام کی 70 فیصد آبادی
مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ آبادی شرعی قوانین کے نفاذ کے حق میں ہے۔
براعظم ایشیا کے مشرقی جانب جزائر شرق الہند برونائی دارالسلام کے حکمران
سلطان حسن البلقیہ نے ایک شاہی فرمان میں کہا ہے ” میں اللہ تعالیٰ کا شکر
گزار ہوں اور اس پر پورا یقین رکھتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ یکم مئی
2014ءسے شرعی قوانین کے پہلے مرحلے کا نفاذ کر دیا جائے گا جبکہ دیگر مراحل
کا نفاذ بعد میں کیا جائے گا“۔ ان کا کہنا تھا دین اسلام کے تحت یہ اقدام
ضروری تھا۔ ایسے نظریات کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے کہ شرعی سزائیں ظالمانہ
ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ حقیقت میں اسی کا قانون منصفانہ ہے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی برونائی دارالسلام مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیا میں وہ
پہلا ملک بن گیا ہے جس نے شرعی قوانین قومی سطح پر متعارف کروائے ہیں۔
سلطان حسن البلقیہ کا یہ اعلان مسلمانانِ عالم کیلے جہاں باعثِ خوشی و مسرت
ہے تو وہاں عالم ِ اسلام کے حکمران کیلے باعثِ صد تقلید بھی ہے کہ انسانوں
کے بنائے ہوئے قوانین اور مغربی جمہوریت کے گیت گانے کے بجائے اسلامی
قوانین کے نفاذکا اعلان کریں ۔پاکستان اس حوالے سے تواور بھی خوش قسمت ہے
کہ یہاں مغربی جمہوریت نہیں بلکہ یہاں کے آئین کو اکابر علماءنے تشکیل دیا
ہے بس صرف عملدر آمد کی دیر ہے۔ |