بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(شریعت اسلامیہ کا ضمنی ماخذ)
کسی کی اچھائی کو مدنظر رکھنا ،مصلحت کہلاتا ہے اور مصالح مصلحت سے نکلا
ہے۔ماہرین شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں صرف ضرورت اور مصلحت کو بنیاد بنا
کر مسائل کا استنباط کرنے کا نام استصلاح یا مصالح مرسلہ ہے۔استصلاح سے
مراد قیاس کو چھوڑ کر مصالح مرسلہ اختیار کرنا ۔مصالح مرسلہ سے مراد غیر
معین مصلحتیں یعنی جن کا حکم کسی معین نص میں نہ ہو بلکہ قرآن و سنت کے
مجموعی تاثر سے ابھرتی ہوں۔’’مصالح مرسلہ‘‘فقہائے مالکیہ کی اصطلاح ہے جبکہ
ماہرین فقہ حنبلیہ اسے ’’استصلاح ‘‘کا نام دیتے ہیں ۔
1۔بنا الاحکام الفقیہ علی المقتضی المصالح المرسلہ’’مصلح مرسلہ کے اقتضا پر
احکام و مسائل کی بنیاد قائم کرنا‘‘۔
2۔والمصالح مرسلہ وھی التی لا یشھد لھا اصل بالاعتبارفی الشرع ولا بالغاء
وان کانت علی سنن مصالح وتلقتھا العقول بالقبول’’مصالح مرسلہ وہ ہیں جن کے
اعتبار کے لیے شریعت کی اصل کوئی شہادت نہ دے اور لغو نہ کرنے کی کوئی شرعی
شہادت ہو اگرچہ وہ(بحیثیت عمومی)مصالح کے طریقے پر ہوں اور عقل انہیں قبول
کرتی ہو‘‘۔
3۔المصالح مرسلہ وھی التی لم یشھد لہا اصل شرعی من نص او اجماع لا
بالاعتبار ولا بالالغاء’’مصالح مرسلہ وہ ہیں جنکی شرعی کو اصل (نص اور
اجماع)شہادت نہ دے نہ لغو قرار دے اور نہ اعتبار کرے‘‘۔
ضرورت اور مصلحت کوبنیاد بنا کر مسائل کا استنباط کرنا استحسان کی نسبت
استصلاح میں وسیع پیمانے پرہوتا ہے ۔استحسان خاص ہے جبکہ استصلاح میں
عمومیت کا عنصر کثرت سے پایا جاتا ہے۔دوسری نظر سے دیکھا جائے تو استحسان
عام ہے کہ اس میں قیاس خفی کا زاویہ نگاہ موجود ہے اور استصلاح خاص ہے کہ
اس میں صرف ضرورت و مصلحت کا زاویہ نگاہ کارفرما ہوتا ہے۔یہ اصول قانون ساز
سے مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھے اور قرآن و سنت
کے دائرے میں رہتے ہوئے افراد معاشرہ پر قلت تکلیف کے اصول کے تحت قانون
سازی کرے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں ایک صاحب ضحاک بن خلیفہ نے
مدینہ کی ایک وادی سے نہر نکال کر محمد بن مسلمہ کی زمین سے لے جانا
چاہی،محمد بن مسلمہ نے اپنی زمین میں جگہ دینے سے انکار کر دیا،ضحاک نے بہت
اسرار کیا لیکن محمد بن مسلمہ نہیں مانے۔ضحاک امیرالمومنین کے پاس گئے،محمد
بن مسلمہ کوبلایا گیا ،حضرت عمر نے کہا کہ اپنے بھائی کو ایسے کام سے کیوں
روکتے ہوجس سے آپ کو بھی فائدہ ہے اورنقصان کسی کا بھی نہیں۔محمد بن مسلمہ
بولے اﷲ کی قسم نہیں،ہر گز نہیں،حضرت عمر نے فرمایا اﷲ کی قسم وہ ہر صورت
میں نہر گزارے گا خواہ تمہارے شکم سے ہو کر گزرے۔ضحاک نے حسب فیصلہ نہر
گزاری۔
’’استصلاح کا اصول ایک وسعت انگیز اور ترقی بخش اصول ہے ۔لیکن اسکی حدود پر
نگاہ رہنی چاہیے، اسے بہت زیادہ پھیلایا جائے تو عین ممکن ہے کہ احتیاط کا
دامن چھوٹ جائے۔انسانی مصالح کا تعین ازبس مشکل ہے قرآن کہتا ہے کہ عین
ممکن ہے تمہیں کوئی پسند ہو لیکن وہ تمہارے لیے بری ہو جبکہ ایک چیز تمہیں
ناپسند ہو لیکن وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔استصلاح کا اصول نتائج کے اعتبار سے
استحسان سے جدا معلوم نہیں ہوتا،مصالح مرسلہ ہوں یا اصول عاقہ،شریعت کی روح
کو مدنظر رکھا جائے تو راہ فکر میں اس فرق کے باوصف نتائج میں اختلاف کم
ہوگا‘‘(اقتباس)۔
مذاہب اسلامی کے ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات شرعیہ کی حقیقت
تعمیل احکام ہے اور مسائلِ عبادات ،دلائلِ شرعیہ سے بالکل عیاں ہیں اور اسی
طرح سوائے داؤدظاہری کے تمام ائمہ اس بات پربھی متفق ہیں کہ مسائل و
معاملات میں جوعقلی پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مصالح اور رفاہ عامہ پر
مبنی ہیں۔جب شرع ان مصالح کا جواز یا عدم جواز نص یا قیاس کے ذریعے سے واضع
کر دے تواسکی تعمیل لازم ہے لیکن جب شرع مصالح کے بارے میں خاموشی اختیار
کرے یعنی جب دلائل شرعیہ کسی امر کی مصلحت کو واضح نہ کریں تو ہم اس میں
مصالح عامہ سے استصواب کر سکتے ہیں۔
امام مالک ؒ کے نزدیک مصلحت بھی ایک دلیل شرعی ہے اور انہوں نے اسے جائز
قرار دیا ہے۔دبستان مالکی میں قانون سازی کے اس طریقے کا نام ’’مصالح
مرسلہ‘‘ہے۔یہ اس لیے کہ جب مصالح عامہ کے لیے کوئی نص موجود نہ ہو تواسی کو
دلیل بنا کر فتوی دے دیا جاتا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی حکم کوایسے
ضابطہ معنوی سے منسلک کردیا جائے جو مصلحت عامہ اور منشائے شریعت دونوں کے
موافق ہو یا بالفاظ دیگر ایسا اصول قائم کیا جائے جس میں رفاہ عامہ اور
منشائے شریعت دونوں کا لحاظ رکھا جائے اور اسی کے مطابق حکم لگایا جائے۔بعض
فقہا اس طریق قانون سازی کے قائل نہیں ہیں اورصرف انتہائی مجبوری کے عالم
میں صرف اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب مصلحت اشد ضروری بالکل قطعی اور
یقینی ہو۔
ایسی نئی دلیل کے لیے تین شرائط ہیں:۔
1۔مسئلہ عبادات کا نہ ہو بلکہ معاملات یعنی امور دنیاوی سے تعلق رکھتا ہو
تاکہ اس میں نظروفکر کے ذریعے مصلحت کا تعین کیا جا سکے۔
2۔مصلحت عامہ ،روح شریعت کے عین مطابق ہو اور دلائل شریعہ کے مخالف نہ ہو۔
3۔مصلحت عامہ کا تعلق ضروریات زندگی یعنی بنیادی حاجات سے ہو،کمالیات و
تعیشات سے نہ ہو۔
ان مصالح کا اطلاق اس صورت میں ہوگا اگر:
۱۔یہ مصالح ان مصالح کے مطابق ہوں جن کا شارع نے اعتبار کیا ہے یعنی کلیات
خمسہ کی ضروریات میں سے کسی ضرورت سے انکی مشابہت ہو۔
۲۔یہ مصالح قطعیہ ہوں،کہ ان کے حصول کا یقین ہو اور محض خیالی یا تخمینی یا
گمانی نہ ہوں۔
۳۔ملک و ملت کے عمومی فائدہ اور مصلحت سے انکا گہراتعلق ہواور کسی خاص طبقے
کے مفادات کا حصول مقصد نہ ہو۔
ان مصالح کو اس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگراسلام اور کفر کی جنگ
میں دشمن ایسے قیدیوں کو سامنے لے کر آجائے جو مسلمان ہوں اوراس بات کا
تیقن حاصل ہو جائے کہ ان مسلمانوں کو قتل کیے بغیر دشمن کی پسپائی ممکن نہ
ہو گی بلکہ دشمن کی افواج اسلامی افواج پر غالب آجائیں گی تو ایسی صورت حال
میں باوجود یکہ خون مسلم حرام ہے لیکن پھر بھی ان قیدی مسلمانوں کو قتل کر
نا ضروری ہے تاکہ دشمن پر غلبہ حاصل کر کے تو اسلامی ریاست میں موجود ان
قیدی مسلمانوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کا اور مقاصد شریعت کادفاع کیا جا
سکے۔
مصالح مرسلہ سے نئے نئے مسائل حل کرنے کی کئی راہیں وا ہوتی ہیں،لیکن ان
مصالح کو سمجھنے اور قائدہ کے مطابق مسائل حل کرنے کے لیے علت کی پرپیچ
وادیوں سے گزرے بغیر چارہ نہیں ۔ذیل میں چار اہم قسمیں ذکر کی جارہی ہیں جن
کا تعلق مصلاح مرسلہ سے ہے:
۱۔موثر
موثر وہ علت ہے کہ نفس حکم میں اسکا اثر ثابت ہو اور عین حکم میں اس علت کا
اعتبار کیا گیا ہوجیسے کثرت طواف کے مکلفین سے پردہ کی رعایت کی گئی جس کا
براہ راست اثر بلی کے جھوٹے پر پڑا کہ گھر میں بلی کے کثرت طواف کے باعث
اسکا جھوٹا حرام قرار نہ دیا گیا۔اس قسم علت میں قرآن و سنت یا اجماع براہ
راست علت کی تاثیر حکم میں ظاہر ہوتی ہے۔
۲۔ملائم:
یہ وہ علت ہے جس میں منقولہ علتوں سے موافقت کی بنا پر علت بنا لی گئی ہو
مثلاََ
ا۔عین علت کا اعتبار جنس حکم میں ثابت ہو:جیسے صغر سنی کے باعث حکم نکاح کا
اعتبار جنس ولایت میں ثابت ہے۔یعنی بچپن کی ناسمجھی کے باعث فیصلے میں جو
دقتیں پیش آسکتی ہیں مصالح مرسلہ کے تحت انکی سہولت یا موافقت کے لیے ولایت
کو یہ اختیار منتقل کر دیا گیاہے۔
ب۔جنس علت کا اعتبار عین حکم میں ثابت ہو:جیسے بے ہوشی ،جنون کی جنس سے ہے
اورسقوط نماز میں اسکا اعتبار ثابت ہے۔
ج۔جنس علت کا اعتبار عین جنس میں ثابت ہو:جیسے نماز کا قصر ہونا مشقت کی
جنس سے ہے اور اسی لیے عورت کے ایام عذرمیں نماز کا سقوط بھی اسی جنس سے ہے
یعنی جنس مشقت سے۔
اس قسم میں علت،حکم سے دور نہیں ہوتی بلکہ قریب ہی ہوتی ہے اور حکم کی
اضافت اسکی طرف صحیح طرح سے کی جاتی ہے تاہم اس طرح سے کتاب و سنت یا اجماع
سے براہ راست اعتبار ثابت نہیں ہوتا لیکن چونکہ اسی سے مطابقت رکھتی ہوئی
دوسری علت پر کتاب و سنت یا اجماع کا حکم براہ راست موجود ہوتا ہے اور شارع
نے اسکا اعتبار کیا ہوتا ہے اسی لیے اسے’’ملائم ‘‘یا موافق کہتے ہیں۔
۳۔غریب:
جب علت ِملائم میں مذکور ہ تین طریقوں میں سے کسی کے ساتھ علت کا
اعتبارثابت نہ ہوتوایسی علت کو ’’غریب‘‘کہتے ہیں۔اسکی مثال وہ قتل ہے جس کے
بعد قاتل وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔اس محرومی کی وجہ حکم محض
ہے،’’ملائم‘‘ میں موجود تینوں طریقے اس سے عنقا ہیں چنانچہ مصالح مرسلہ کے
تحت اگر کوئی شوہر قریب المرگ ہونے کے باعث بیوی کو اس لیے طلاق دے دے گا
کہ وہ وراثت سے محروم کر دی جائے تودوران عدت اگر خاوند کی وفات واقع ہو
جائے تو قاتل پرقیاس کرتے ہوئے شوہرکے ترکے میں سے اس عورت کا حق وراثت
ثابت ہو گا۔
اس قسم میں عموماََ عدم وصف عدم حکم کی علت بنتا ہے اور ایسی علت بعض
اصولیین کے نزدیک قابل اعتنا نہیں ہے اس بنا پر بعض فقہا نے عین کے اعتبار
کو معدوم قرار دے کر غریب کی اس طرح تعریف کی ہے’’غریب وہ ہے جس کی اصل
شہادت اگرچہ تاثیر کے بغیر موجود ہو تاہم ملائم کی تینوں طریقوں کے ساتھ
اسکی علت کا اعتبار ثابت نہ ہو‘‘۔بعض فقہا کے نزدیک یہ تعریف محض ایک تکلف
ہے وگرنہ عدم وصف کے عدم حکم کی علت بننے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
۴۔مرسل:
یہ وہ علت ہے کہ جس میں تاثیر کے لحاظ سے یاموافقت پر حکم لگانے کے ترتب کے
لحاظ سے کسی طرح بھی کتاب و سنت یااجماع سے اسکا اعتبار ثابت نہ ہو،اور لغو
قرار دینا بھی ثابت نہ ہو۔مثلاَکفاروں کی مختلف صورتوں میں سے آسان چنی
جاتی ہیں باقی بظاہر لغو ہیں جیسے اگر کوئی روزہ توڑ کر ساٹھ مسکینوں کو
کھانا کھلا سکتا ہے اور کھلا دیتا ہے تو ساٹھ مسلسل روزے رکھنا یا غلام
آزاد کرنے کی صورتیں اسکے لیے لغو ہیں جبکہ ممکن ہے اسکے لیے جو لغو ہے کسی
دوسرے کے لیے قابل عمل ہو۔غرض مرسل میں وہ اوصاف ِ مصالح مرسلہ جو علت بننے
کی صلاحیت رکھتے ہیں داخل ہونگے بشرطیکہ انہیں شارع کی جانب سے لغو ٹہرانا
ثابت نہ ہو اور نہ ہی انکا اعتبار ثابت ہو۔
مصالح مرسلہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
ا۔فوجی اخراجات اور ملکی دفاع کے لیے مالداروں پر اضافی ٹیکس لگانا۔
۲۔مجرم سے مال واپس لینا اگرچہ چوری شدہ مال کے علاوہ کوئی دوسرا مال ہی
کیوں نہ ہو۔
۳۔دشمن اگر مسلمانوں کو بطورڈھال استعمال کرے تو ان مسلمانوں کا قتل کرنا۔
۴۔مدعی کے لیے دعوی کی پیروی کی ایک مدت مقرر کر دیناکہ جس کے بعد دعوی
باطل قرار دے دیا جائے۔
۵۔نکاح،طلاق،انتقال جائداد،بیع نامہ اور مصالحت وغیرہ کے معاملات کو کاغذات
پر قلمبند کرنا۔
’’مصالح مرسلہ ‘‘یا ’’استصلاح‘‘ سے وہاں کام لیا جاتا ہے جہاں معاشرہ کی
عمومی فلاح مقصود ہو اور تکلیف سے خلق کو دور رکھنا مقصدہو۔بدلتے حالات کے
مطابق قوانین سازی اور ان قوانین کے اطلاق کی نئی نئی راہیں کہ جن سے عوام
الناس کی مشکلات کم سے کم کی جاسکیں اورانہیں حدوداﷲ تعالی کے اندر رہتے
ہوئے آسودگی راحت اور اطمنان بہم پہنچایا جا سکے اس طرح کی قانون سازی کا
منہج ہے۔اس طرح سے عین ممکن ہے کہ ایک وقت میں جو فتوی دیا جائے دوسرے وقت
میں اسے واپس لے لیا جائے جیسے ایک زمانے میں تعلیم قرآن اور اشاعت دین کے
لیے اجرت لینا جائز نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں تبدیل ہو گیا۔خاص طور
پر سائنسی آلات کی بھرمار نے عبادات تک کو متاثر کیا ہے اس صورت حال میں
حالات کے مطابق اجتہاد کرنا اور اس میں مصالح مرسلہ کا اعتبار کرنا عین
تقاضائے شریعت اسلامیہ ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی:
1۔الموافقات جلد1
2۔منہاج الاصول
3۔فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر
4۔تعارف قرآن،حدیث فقہ
5۔کتاب الاعتصام جلد2
6۔المستصفی جلد1
7۔تبصرۃ الاحکام جلد2
8۔فلسفہ شریعت اسلام
9۔المبادی الاولیہ فی علم الحقوق
10۔المبسوط جلد24
11۔تاریخ فقہ مع عائلی قوانین و احکام میراث |