ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

ایک دفعہ کا زکر ہے کہ کسی علاقے میں ایک وڈیرے کا راج ہوا کر تا تھا اور اس علاقے کے تمام معاملا ت اس وڈیرے کی مرضی سے طے پاتے تھے عوام کے مسائل کا حل کرنا ہو یا کچھ سب کچھ اس کی منشا سے ہو تا تھا ایک عر صہ بیت گیا لیکن علاقے میں سے کوئی بھی کسی قسم کی تجویز یا شکایت لے کر وڈیرے کے پاس حاضر نا ہوا وڈیرے نے سوچا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ جس سے لوگ اپنی شکایات لے کر میرے پاس آ ئیں اور ان کو اس بات کا احساس ہو کہ ان کے مسائل صرف میں ہی حل کر سکتا ہوں کافی غور غوض کے بعد بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اس علاقے میں موجود پل جس سے لوگ بازار گھروں سے نکل کر بازار کی طرف آ تے ہیں وہاں ایک شخص کو کھڑا کر دیا جائے اور ہر شخص کو آ تے جاتے کوڑے لگائے جائیں علاقے کے لوگوں کو کوڑے لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن کو ئی بھی شخص اپنی شکایت لے کر وڈیرتے کے پاس حاضر نہ ہوا اس کو حیرت تھی کے آ خر یہ ماجرہ کیا ہے بالا آ خر کچھ دنوں بعد علاقے کے کچھ لوگ وڈیرے کے پاس پہنچے تو اس نے سوچا یقینا یہ لوگ یہی کہنے آ ئے ہونگے کہ کوڑے لگا ئے جانے کا یہ سلسلہ بند کیا جائے جب وڈیرے نے ان لوگوں سے پوچھا کیوں آ ئے ہو ئے تو انہوں نے کہا کہ جناب عالیٰ جو شخص آ پ نے ہمیں کوڑے لگانے کے لیے کھڑا کیا ہے اس سے کوڑے کھانے کے لیے ہمیں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور وقت جائع ہو جاتا ہے اس لیے اگر جناب ہم غریبوں پر رحم فرماتے ہو ئے کوڑے لگانے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیں تو یہ آ پ ہم پر احسان ہو گا خدا جھوت نہ بولنے دے بلکل وہی حالت ہماری اس قوم کی ہو گئی ہے ہم اپنے اوپر ظلم کرنے ولوں کی تعداد میں آ جافہ کرنے میں لگے ہوئے کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے جانے والی مملکت خداداد پاکستان میں غریبوں پر زمین تنگ کر دی جا چکی ہے حکومت غربت مکاو نہیں غریب مکاو پالیسی پر گامزن ہے ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدوراں کے موقع ہر بڑی بڑی تقریبا ت کا انعقاد کیا جاتا ہے مزدور سے اظہار یکجہتی کا ڈھنوگ رجایا جاتا ہے کسی نے بھی مزدوروں کی فلاح وبہبود کرنا کا سوچا ہی نہیں ہاں وعدے ضرور کیے جاتے ہیں لیکن وہ بھی اس موسم میں جب ان مزدوروں سے ووٹ لیے جانے ہوں اب آ ج بھی بلکل ایسے ہی بڑے بڑے دعوے کیے جانے ہیں مزدوروں سے اظہار یکجہتی کی جانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے مزدور کا دن وہی ہے جس دن اس کی دیہاڑی لگ جائے اس کا وہی دن اس سے ہمدردی کا عالمی دن ہے جس دن اس کے بچے بھوکے نہ رہیں جس روز اس کے بچے اس کو امید بھری نظریں سے دیکھ رہے ہوں اور ان کو دیکھ کر اس کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ایک محترم دوست کی آزاد نظم یاد آ نے لگی ہے کہ
اے کا ش کوئی ان سے پوچھے
جو ہیں عدل کے دعویدار بنے
کوئی گیلانی کوئی زرداری یہ نواز افتخار بنے
کیا ان کے بچے بھی پیسے کے لیے ہر صبح کر روتے ہیں
کیا ان کے بچے شام ہوتے ہیں فٹ پاتھ پر جا کر سوتے ہیں
اے کاش کوئی ان سے پوچھے
اے کاش کوئی ان سے پوچھے

یہ حقیقت ہے اور تلخ حقیقت کہ قائد آ عظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے جانے والی اس مملکت میں قانون صرف غریب کے لیے اور وسائل صرف امیر کے لیے ہیں قیادت سے جس قدر ہو سکے اس دیس کے مزدوروں سے غلط بیانی کرے ان پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے کون ان کی خاطر اواز آٹھاے گا کوئی نہیں اور کس کے سامنے آ ٹھا ئے گا اقتدار کے ایوانوں میں ایک رکن اگر دوسے کی بات کو توک بھی دے تو ہوتا ایسے ہے کہ شور مچ جاتا ہے پورا میڈیا چلا آ ٹھتا ہے کہ فلاں ممبر اسمبلی نے اس کی بات کو غلط کہہ کر یا توک کر دوسے ممبر کا استحقاق مجروع کر دیا لیکن کبھی کسی نے خیال کیا کہ اپنے بیوی بچوں کو صبح یہ امید دے کر آ نے والاکہ میں شام کو کھانے کا سامان لے کر آؤں گا جب شام کو خالی ہاتھ واپس گھر لوٹتا ہے اور اس کو اپنے بچوں اور بیوی کے سامنے ندامت سے سر جھکانا پڑتا ہے اس پر کیا قیامت ٹو ٹتی ہے اس ہی کو پتا ہو تا ہے تو بتائیں اس کا استحقاق مجروع نہیں ہو تا ؟لیکن اس کی عزت اور اس کی زندگی کا کسی کو خیال نہیں مزدور سے اپنے ووٹ کے لیے کہنے میٹھی باتیں ہیں لیکن دینے کو کچھ بھی نہیں عالمی یوم مزدوراں پر دعوے کرنے والے یہ بات کیسے بھول جاتے ہیں کہ اس دیس کے عدالتیں کسی غریب کی سنیں یا نہ سنیں لیکن جس دن اس دیس کے کسی غریب نے ان سے تنگ کر آ کر اس دربار میں صدا دے دی جو اس جہاں کا خالق و مالک ہے تو پھر وہ عدالت کوئی ایسا فیصلہ صادر کرے گی کہ ان کے صرف جسم ہی نہیں روح بھی کانپ جائے گی ،
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
akhlaq ahmd rana
About the Author: akhlaq ahmd rana Read More Articles by akhlaq ahmd rana: 23 Articles with 19522 views i am Akhlaq ahmed rana .here in neelum valley azad kashmir .

Akhlaq ahmed rana
03558153899
[email protected]
.. View More