لیبر ڈے اور وعدوں کی بوچھا ڑ

 کسی بھی قوم کی تعمیرو ترقی کی سب سے بڑی وجہ اس قوم کی محنت اور لگن ہے ۔ جو قومیں محنت کرتی ہیں اور چھوٹے سے چھو ٹا کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔اور ملک ترقی وخوشحالی کی طرف گامزن رہتاہے ۔اس تعمیر و ترقی میں سب سے اہم کردار اس قوم کے مزدوروں کا ہوتا ہے اس لیے مزدور کو قوم کا معمار کہاگیا ہے ۔کیونکہ مزدور ہی کسی قوم کو بنانے یا گرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔قوم کے معماروں سے اچھی تعمیر کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات دینی چایئے ۔اور ان کا بہت خیال رکھنا چاہیے مزدور کی محنت کے مطابق پوری اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینی چاہیے اس بات پرہمارے پیارے نبیﷺ نے بھی بہت زور دیا ہے کہ مزدور کو اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت دو۔ ویسے تو ہر دن مزدور کا ہی دن ہوتا ہے کیونکہ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے دن رات کوشاں رہتاہے ۔لیکن ایک خاص دن بھی اس کے لیے مختص کیاگیا ہے جیسے کہ یکم مئی کو یوم مزدور (لیبر ڈے)کا دن رکھا گیا ہے ۔ اس دن کا خاص مقصد لوگوں کومزدور کی قدر وقیمت کے بارے میں آگاہ کرنا ہوتاہے اور انہیں یہ باور کروانا ہوتاہے کہ مزدور کسی بھی قوم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔پاکستان کے ہر شہر ،ضلع ،صوبہ اور ملکی سطح پر سیمنار منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں تاکہ مزدوروں کو ان کی قدروقیمت کا پتہ چلے ۔اس دن کی ابتدا شکاگو سے اس وقت ہوئی جب اپنے حقوق کے لیے نکلنے والے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کو بہت بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اسی حوالے سے مزدوروں کو سرخ سلام پیش کیا جاتاہے۔جس کا باقاعدہ آغاز شکاگو سے ہی ایک تحریک کی شکل میں ہوا ۔یکم مئی کا دن پاکستان میں دوسرے بہت سے ایام کی طرح صرف ایک تہواربن کے رہ گیا ہے ۔اس دن حکومت مزدوروں کے لیے بہت سی پالیساں مرتب کرتی ہے سیمنارز میں حکومتی عہدران مزدورں سے بہت سے وعدے کرتے ہیں جو کہ صرف اسی دن تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں اور بے چارہ مزدوروہی کا وہی رہتاہے ۔حکومت نے ایک مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت دس ہزار روپے مقرر کی ہے ۔جوکہ ایک مزدور کی صرف سوچ ہی ہے کہ اسے کبھی اتنی اجرت کا منہ دیکھنا نصیب ہو گا مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر بہت سیاست چمکائی جاتی ہے جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ادارے بھی سر فہرست ہوتے ہیں جس میں سارے وعدے اور تقریریں صرف فوٹو سیشن کی حد تک ہی محدود ہوتے ہیں۔اس دن کے بعد کون سے مزدور اور کون سی مزدوری پرائیویٹ کمپنیاں اور کارخانے چھ ہزار سے زائد اجرت نہیں دیتے اور کام جانوروں کی طرح لیتے ہیں لیکن سیاست اور پالیساں ایسے دیکھاتے ہیں جیسے ساری کائنات ان مزدورں کی گود میں ڈال رہے ہوں پاکستان میں بھٹہ مزدور تو سب کے سامنے ہیں جن کوپوری اجرت دینا تو دور کی بات ان بیچارے بھٹہ مزدوروں کو بیچا اور خریدا جاتاہے ۔اسی طرح گھروں میں مزدوری کرنے والے جیسے دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدورں کا استحصال عام سی بات ہے اب حکومت اگر اپنی پالیسی میں ایک مزدور کی اجرت دس ہزار یا اس سے بڑھا کر گیارہ ہزار بھی کر دیتی ہے تومزدور اتنی اجرت میں بھی اپنے گھر کا بجٹ نہیں چلا سکتا ۔حکومت اگر اتنی اجرت کا اعلان کرتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کو چایئے کہ اسکے گھرکا بجٹ بھی بنا کر دے کہ کس طرح ایک مزدور کے گھر کا چولہا چل سکے ۔ایک مزدور اپناچولہا جلانے کی فکر میں ہوتا ہے تو مہینے کے آخر میں مختلف بلوں کی صورت میں ایک اور قیامت سر آجاتی ہے اگر فیکٹری مل اور پرائیویٹ اداروں کے مالکان مزدوروں کو کم اجرت دیکر ان پر ظلم کرتے ہیں تو دوسری طرف مزدوروں میں چھپی کالی بھیڑیں بھی اپنے فیکٹری اور مل مالکان کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ دہی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ابھی چند دن قبل ہی ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا میں چند دوستوں کے ہمراہ ایک زیر تعمیر فیکٹری کے سامنے سے گزرا تو وہاں ہونے والے شور غل کو سن کر رک گیا تو پتہ چلا کہ فیکٹری کے ڈرائیور نے سو لیٹر ڈیزل بیچنے کے لیے چوری چھپا رکھا تھا ۔اس طرح کے چند لوگ اپنے مقدس پیشے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں یکم مئی کا دن جو مزدوروں کے لیے مختص ہے یہ دن بھی مزدور کے لیے قیامت بن کر گزرتا ہے کیونکہ چھوٹی کے باعث وہ اپنے گھر کا چھولہا جلانے کی فکر میں ہی پریشان رہتاہے جب کہ بڑے لوگ گھروں میں چھوٹی کے مزے اڑا رہے ہوتے ہیں ۔حکومت کومزدوروں کے حوالے سے موثر حکمت عملی اپنانی چایئے تاکہ پورے ملک میں کوئی بھی بھوکا نہ سو ے اور غربت کی وجہ سے خودکشی جیسے ناپسندیدہ عمل سے گزرے ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا ،اگر میری سلطنت میں ایک کتا بھی بھوک و پیاس سے مر گیا تو قیامت کے دن میری پکڑ ہو گی اگر حضرت عمر ؓکی اس بات پر حکمران غور کر لیں تو ان کی راتوں کی نیند ہی اڑ جائے
سوئی ہے کفن اوڑھ کہ جو مزدور کی بیٹی افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگ حنا دیکھ -
Muhammad Adnan Bin Yousuf
About the Author: Muhammad Adnan Bin Yousuf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.