مڈل پاس رضا اور ما س کمیونیکیٹر عثمان

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں یونیورسٹی آف سرگودھامیں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کر رہا تھا۔ سرگودھا میں میرا قیام یونیورسٹی روڈ پر ہی واقع ایک پرائیویٹ ہوسٹل تھا۔ گھر سے باہر رہنے کی عادت نہ تھی لہذاپہلے سمسٹر میں تو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں جب حالات جمود کا شکار نظر آئے تو میں نے ہوسٹل تبدیل کرنے کی ٹھانی اور سوچا کہ شاید اس طرح معاملات میں کچھ بہتری کا امکان پیدا ہو ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پہلے سمسٹر کا آخری پیپر تھا جب میں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور سڑک کی دوسری جانب واقع ایک ہوسٹل میں جانے کی تیاری کرنے لگا۔ میرے روم میٹ رمضان جو میرا کلاس فیلوبھی تھا ، کو جب میرے ارادے کا علم ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ ہو لیا۔ ہمارے دو دوست بلال اور عثمان پہلے سے ہی یہاں رہائش پزیر تھے ۔ جب رات کے وقت بستر کندھوں بھی اٹھائے نئے ہوسٹل پہنچے تو ان دونوں کو اپنا منتظر پایا۔ اب ایک روم میں ہم چار دوست رہنے لگے۔ وقت اچھا گزرنے لگا۔ رات کے کھانے کے بعد ہم خوب گپ شپ لگاتے۔ ایک دن میں اور عثمان ماس کمیونیکیشن کی تھیوریز، مثبت صحافت اور عملی صحافت کے حوالہ سے بات کر رہے تھے کہ عثمان اپنے گاؤں کے ایک لڑکے کے بارے میں بتانے لگا جو کہ شعبہ صحافت میں نووارد تھا اور میٹرک پاس بھی نہ تھا۔ لیکن اپنی عیاریوں اور پھرتیوں کی وجہ سے دو قومی اخبارات کی نمائندگی لے چکا تھا اور اپنے ضلع کی ایک صحافتی تنظیم کا جنرل سیکرٹری بھی تھا۔ اب باقی کہانی آپ عثمان کی زبانی ہی سنیئے۔

’’ہمارے جاننے والوں میں ایک تیس پینتیس سال کی عمر کا رضا نامی بندہ ہے۔ نویں جماعت سے سکول سے بھاگ گیا۔ باپ نے بہت کوشش کی کہ دوبارہ سکول میں داخلہ لے لے مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور دوسرے شہر میں ایک کپڑے کی مل میں مزدوری کرنے لگا۔ کچھ عرصہ یہاں کام کرنے کے بعدوہ اینٹوں کے ایک بھٹے پر منشی کی حیثیت سے نوکری کرنے لگا۔ یہاں اس کا واسطہ ایک ایسے چالباز شخص سے پڑا جو پیسے لے کر لوگوں کے ناجائز کام کروایا کرتا تھا۔ بس پھر کیا تھااس شخص کا رنگ رضا پر بھی چڑھنے لگ گیا اور اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رضا بھی ہر غیر قانونی کام ایسے ماہرانہ طریقے سے کروانے لگا تھا جیسے میرٹ پر سو فیصد پورا اترنے والا کوئی ذہین و فطین شخص اپنا جائز کام کروائے۔ کئی سالوں کے بعد اس نے اپنے شہر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں آ کر سیمنٹ سریا کا کاروبار شروع کیا لیکن یہاں بھی اس کا زیادہ تر رجحان لوگوں کے غیر قانونی کام کروا کر پیسہ بٹورنے میں تھا۔ کاروبار کو مناسب وقت نہ دینے کی وجہ سے چند ہی دنوں میں سب کچھ تباہ ہو گیا۔ مگر اسے عقل نہ آنی تھی، نہ آئی۔ اب اس کے پاس اپنے ’’گرو‘‘ کا صرف ایک ہی تحفہ باقی بچا تھااور وہ تھا خوشامد ،چاپلوسی اور اتنا جھوٹ بولنا کہ سچ کی کوئی وقعت نہ رہے، جو سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لئے کافی تھا۔ رضا کے ایک ہم مزاج دوست نے اسے اپنے تمام غیر قانونی کاموں پر صحافت کا مقدس لبادہ اوڑھنے کا قبیح مشورہ دے ڈالا۔ بس پھر کیا تھارضا نے دو تین سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے تیس پینتیس ہزار روپے لوٹے اور لاہور جا کر دو قومی اخبارات کی نمائندگی لے آیا۔ چند ماہ بعداس نے اپنے ’’گرو‘‘ کے واحد ’’تحفہ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ضلع کی ایک صحافتی تنظیم کی ممبر شپ حاصل کی اور پھر اسی تحفہ کو استعمال کرتے ہوئے نئے سال کے لئے منتخب ہونے والی قیادت میں جنرل سیکرٹری بن گیا۔ اب تنظیم کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں تھے۔ لیکن جب باقی ممبران کو اس کی غلط سوچ کا اندازہ ہوا تو انہوں نے متفقہ فیصلے سے رضا کو اپنی تنظیم سے نکال باہر کیا۔ رضا پھر کسی نئے سہارے کی تلاش میں تھا کہ اسے خبر ہوئی کہ اسی شہر میں زرد صحافت کرنے والے چند لوگوں کا ایک اور گروپ بھی ہے۔ رضا نے دوسرا گروپ جوائن کیا اور چند ہی دنوں بعد خوشامد اور چاپلوسی کی بدولت اس کا بھی جنرل سیکرٹری بن بیٹھا۔ اب وہ اپنے ان بلیک میلر ساتھیوں کے ساتھ مل کرسادہ لوح لوگوں کو سر عام لوٹ رہا ہے ۔ اب اپنے رفقاء میں بیٹھا وہ بڑے فخر سے خود کو شہر کا کامیاب اور معروف ترین صحافی کہتا ہے۔

یہاں تک کہہ کر عثمان میری طرف دیکھا اورچند لمحوں بعد یوں گویا ہوا ’’یار ایسے شخص کو میں کیسے صحافی مان لوں جو خبر کے معانوں سے بھی ناواقف ہے۔اگر ایسے لوگ صحافی ہیں تو ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کرنے والے کا مستقبل کیا ہو گا یار۔اگر رضا جیسے لوگ چند ٹکوں کی خاطر ظالم کا ساتھ دینے پر تیار ہو جائیں گے توہم کیسے مظلوم کی آواز بن پائیں گے۔‘ ‘

اس وقت عثمان کے سوالوں کے جواب میں طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج جب اس کی باتیں یاد آتی ہیں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ مڈل پاس رضا زیادہ قصور وار تھایا ـــ’’مثبت اور شفاف‘‘ صحافت کے علمبردار اخبارات کی وہ انتظامیہ جو مثبت صحافت کے فروغ اور میرٹ کو ترجیح دینے کی بجائے چند نوٹوں کے عوض نمائندگیاں فروخت کر رہی ہیں۔
Tajammal Mahmood Janjua
About the Author: Tajammal Mahmood Janjua Read More Articles by Tajammal Mahmood Janjua: 43 Articles with 35240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.