تقریباًنوماہ ہونے کوہیں متاثرین
مضاربت کا کوئی پرسان حال نہیں اورتاحال شفیق مرچنٹ اینڈکمپنیزکی حقیقت
کاحتمی طورپرکچھ پتانہیں، جتنے منہ اتنی باتوں والامعاملہ ہے۔ کسی کاکہنا
ہے یہ اسلام مخالف این جی اوزکی سازش تھی جس کا مقصدعلماء پر عدم اعتماد کی
فضاکومزیدہوادیناتھا، کوئی کہتاہے یہ پونزئی اسکیم کی طرح ایک فراڈتھا،
غریب عوا کو بے وقوف بناکران کا پیسا لے کر نودوگیارہ ہوگیا۔ عوام کالانعام
نے اپنی جمع شدہ پوری پونجی اس کاروبار پر لٹادی، کسی نے اپنی دکان بیچی
توکسی غریب نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جمع کیے زیورات۔ ایسی ایسی کہانیاں
ہیں کہ الامان والحفیظ۔
ایک جماعت کاکہناہے مذہبی جماعتیں فنڈنہ ہونے کے باعث اپنے پر نہیں
پھیلاسکتے، اپنے نظریات کااظہار کھل کرنہیں کرسکتے، چونکہ اس کاروبار کے
ذریعے ان کے فنڈ میں روزبروز ترقی دیکھنے میں آرہی تھی اس لیے ایجنسیوں نے
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کا فارمولہ اپناکر اپنی بانسری بجادی۔ واﷲ اعلم
بالصواب۔
اگرچہ کراچی کی دنیائے مضاربت کے بے تاج بادشاہ شفیق الرحمن نے ابھی تک
حقائق طشت ازبام نہیں کیے، منظر عام پر نہیں آیالیکن اس کاتذکرہ اب بھی
اکثر مجلسوں کی جان ہے، ایسی ہی ایک مجلس کی وجہ سے یہ سطور لکھنے کا داعیہ
پیدا ہوا۔ اس مجلس کے علاوہ بھی یہ رائے متعدد مقامات پر سنی اس لیے قلم
وقرطاس سنبھالے بناچارۂ کار نہ تھا۔
متاثرین اور غیر ماثرین کا ایک طبقہ کہتاہے لوگوں نے اپنا سرمایہ علماء کے
کہنے پر لگایا، اب ہر ایک اپنے انداز میں علماء کو مورد الزام ٹھہراتا ہے،
کوئی نرم الفاظ میں تو کوئی گرم ، بعض تو علماء ومفتیان کے حق میں گالم
گلوچ تک سے دریغ نہیں کرتے۔اس طبقے کاکہناہے اگر علماء جواز کا فتویٰ نہ
دیتے تو عوام بھی اپنا سرمایہ نہ لگاتے ۔ یہ بات کہنے والے اگر تھوڑے ٹھنڈے
دماغ سے کام لیں تو ہرگز ایسی بے سروپابات نہ کہیں۔
بھائی میرے!آپ کن مفتیان کرام کی بات کررہے ہیں جنہوں نے جواز کافتویٰ
دیاہے؟کیاآپ نے فتویٰ بغور پڑھاہے؟آپ جس فتوے کی بات کررہے ہیں اگر اسے غور
سے پڑھاجائے تو اعتراض کی کوئی بات دکھائی نہ دے ۔ فتویٰ دینے والے کو
کاروبار دکھایا گیا، خریدوفروخت کی رسیدیں دکھائی گئیں، پوری تسلی کرائی
گئیں تب انہوں نے فتویٰ دیا۔ شریعت ظاہر کو دیکھتاہے، انہوں نے ظاہر پر
فتویٰ دے دیا۔ اب کاروبار کرنا اور کاروبار کا مشورہ دینا علماء کاکام نہیں
،کاروباری افراد ہی کاروبار کے بارے میں درست رائے دے سکتے ہیں ، جس کاکام
اس کو ساجے۔
اگر آپ واقعی اپناکاروبار مفتیان کرام کے فتوے پر چلاتے ہیں تو اﷲ کو
حاضروناظر جان کر بتائیں آپ نے اپنی پوری زندگی کتنی مرتبہ علماء کی رائے
پر اپنیکاروبارکو پروان چڑھایا ہے۔ اگر آپ واقعی اپنی حرص وطمع، لالچ و ہوس
پر نہیں بلکہ مفتیان کرام کے فتوے پر چلتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں جواز کا
فتویٰ دینے والے علماء کی تعداد زیادہ ہے یاعدم جواز کی اور یہ بھی دیکھتے
ہیں کہ علمیت میں کون فوقیت رکھتا ہے۔ آپ کی تھوڑی سی تحقیق آپ کوبتادے گی
کہ اس کاروبارسے منع کرنے والے علماء کرام زیادہ بھی ہیں اور علمیت میں
اپنے وقت کے امام رازی وغزالی ہیں۔جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
، جامعہ دارلعلوم کراچی، جامعہ فاروقیہ اور جامعۃ الرشید جیسے ملک کے بڑے
مدارس نے اس کاروبار کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرکے دور رہنے
کامشورہ دیا تھا۔ مفتی احمدممتاز بے چارے نے تو اپنا وظیفہ بنالیاتھا، ہر
مجلس میں اس کے خلاف آوازاٹھاتے۔آپ کو جمہور علماء کیوں دکھائی نہیں دیتے ۔
میرے بھائی!علماء کرام ومفتیان عظام پر نشتر زنی کرکے اپنے ایمان سے نہ
کھیلیں، امام شافعی ؒ کے قول کے مطابق اپنے بھائی کی غیبت کرنامردارگوشت
کھانا ہے جبکہ علماء کی غیبت کرنامردار زہریلے گوشت کھانے کے مترادف ہے،
برائے کرم اک ذرا احتیاط۔ہم اگر عملاًکچھ نہیں کرسکتے تو رب کے حضور دست
سوال ہی دراز کردیں کہ کسی طرح متاثرین کے دکھوں کا مداواہوجائے، خصوصاً ان
کا جنہوں نے اپنی پوری جمع پونجی اس آگ میں جھونک دی ہے، اب نہ جائے رفتن
نہ پائے ماندن کی تصویر بنے حسرت و افسوس کی زندگی جی رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ
سب کا حامی وناصر ہو۔ |