مزدوروں کا عالمی دِن اور ملکی ترقی میں محنت کشوں کا کردار

وطن عزیز کی 95% فیصد آبادی محنت کشوں ، مزدوروں اور متو ست طبقہ پر مشتمل ہے 1947ء قیام پاکستان کے بعدملکی تر قی میں محنت کشوں کا کردار ریڈ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ ابتدا ء میں ملک میں وسیع پیمانہ پر تعمیر و تر قی میں محنت کشوں ، مزدوروں نے اہم کر دار ادا کیا سرکاری اور غیر سرکاری طور پر مختلف شعبہ جات میں ملک کے مزدور اپنی پیشہ وارانہ مہار ت ، ذہنی ، کا و ش ، شبانہ رو ز محنت اور تجر بہ کی بنیاد پر ملکی قومی خدمات انجام دے رہے ہیں ملک بھر میں عمارات ، شا ہرات ، بجلی، سوئی گیس، زارعت ، آبپاشی ، بنکنک ، ڈاک تار،صنعتی ترقی اور دیگر مشینری،تعلیم و تر بیت اور جدیدترین کمیپو ٹر ٹیکنالو جی اور عوام الناس کوعلا ج معا لجہ کے متعلقہ مدد اور دیگرتمام شعبہ جات میں اپنی ہنر مندی کی بدولت بڑے بڑے پُل،بڑی بڑی سڑکیں اور بڑی بڑی عمارتیں تعمیرو مرمت محنت کشوں کی بدولت وجود میں آئی بلکہ آج کا ایوانِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی خو بصو ر ت عمارتیں بھی محنت کشوں کی کا و شوں کا نتیجہ ہے حتیٰ کہ شاہرہ ریشم کی طویل ترین سڑک بے شمار پاکستانی اور چائنہ کے محنت کشوں مز وروں کی بدولت وجود میں آئی اکثر ایسا بھی ہو تا ہے کہ یہ محنت کش کا م کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ محنت کشوں کا یہ طبقہ وہ ہے جو انتہائی مشکل حالات میں اپنا وقت گذارنے پر مجبور ہیں کیونکہ اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ بد قسمتی سے اِس ملک کے غریب مزدور ہیں جو کہ قلیل معاوضہ پر ملک و قوم کی خدمت کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں آج کا محنت کش اپنی معا شی تباہی کی وجہ سے زندہ در گو ر ہو رہا ہے احتجا ج کرنے کی بجائے خود کشیاں اور خود سو زیاں کررہے ہیں یہ ہی حالات 1886؁ء میں امریکہ کے شہر شکا گو میں ہوئے وہاں کے محنت کشوں نے اپنی ڈیو ٹی آٹھ گھنٹے کروانے کیلئے اُس وقت کے سرمایہ داروں ، صنعت کاروں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور ہزاروں محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے آنے والی نسل کو یہ سبق دیا کہ بغیر قربانی کے مقصد کا حصول نہ ممکن ہے۔ پاکستان کے موجودہ صنعت کار اور سرمایہ دار حکومت سے ملکر محنت کشوں کے حقوق غضب کرنے کے درپے ہے اکثریت میں ہونے کے باوجود محنت کش فاقومیں مبتلا ہیں حکومتی ادارے نجکاری اور پرائیویٹ کیے جارہے ہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے پاور لوم کی صنعت بنگلا دیش منتقل ہو چکی ہے وطن عزیزکی لیبر فارغ ہو چکی ہے یہاں کا مزدور فریاد کر رہا ہے۔
تن پر ماس بھی نہیں پر جان باقی ہے
کِس کو نے کھد رے میں آٹکی ابھی جان با قی ہے

کھانے کو کچھ ملتا نہیں پر جان با قی ہے
لہو چو س لیا حاکم نے پر جان با قی ہے

بجٹ کے نشتر سہہ لیے پر جان باقی ہے
منی بجٹ پر نکل جا ئے گی جو جان باقی ہے

کچھ ٹیکس اور لگاؤ کہ ابھی جان باقی ہے
گھی ، آٹا اور مہنگا کر و کہ ابھی جان باقی ہے

دے دیا پانی بل بجلی کا ابھی باقی ہے
گیس بل سے شاید نکل جائے جو جان باقی ہے

حد سے بر دا شت کیا جان ابھی نہیں نکلتی
کسی جلاد کو بلاؤ کہ ابھی جان باقی ہے

ڈرہے کہ رو زحشر بھی نہ چھو ڑیں گے میری جان
کہ دینگے مر گ کا ٹیکس اِسکے ذمے ابھی باقی ہے

اے خدا؟ اب تو سن لے مزدور کی فریاد
حاکم اِس طا ق میں ہیں کہ ابھی جان باقی ہے

محنت کش کی جان بھی کتنی سخت جان ہے اسحق
ظلم کی آگ میں جل رہی ہے پر ابھی جان باقی ہے

گوجرانوالہ کی صنعتی ٹریڈیونینز سرکاری وغیر سرکاری اداروں کی تنظیمیں مل کر اپنے مطالبات کے حق میں شکاگو میں اپنی جانوں کی قربانی دینے والے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کیلئے شیرانوالہ باغ میں ایک بہت بڑا جلسہ عام کے بعد جلوس نکالتے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی دنیا بھر کے مزدوروں کے ساتھ ہیں۔
Tahir Saeed
About the Author: Tahir Saeed Read More Articles by Tahir Saeed: 6 Articles with 6142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.