سوات کے علاقے اوڈیگرام میں سلطان محمود غزنوی کے دور کی
تعمیر کردہ مسجد شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد ہے جو 440 ھجری یعنی
1048 اور 1049 عیسوی کے درمیان تعمیر کی گئی تھی۔ 1985ء میں اٹالین
آرکیالوجیکل مشن نے اس مسجد کو دریافت کیا تھا-
اوڈیگرام کے ایک رہائشی اور ماہر آثار قدیمہ جلال الدین کا کہنا ہے کہ
گیارہویں صدی کے دوران جب سلطان محمود غزنوی نے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا)
پر حملہ کیا تو اُس کی فوج باجوڑ ایجنسی کے ذریعے سوات کی تاریخی وادی میں
داخل ہوئی۔
|
|
سوات کی وادی میں داخل ہونے کے بعد علاقے کو فتح کرنے کے لیے سلطان محمود
غزنوی نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ایک گروپ جس کی سربراہی وہ
خود کر رہے تھے، دریا عبور کرنے کے بعد اس تاریخی علاقے میں داخل ہونے کے
بعد اس وقت کے آخری بادشاہ راجہ گیرا کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ آور ہوا۔ فتح
حاصل کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس
وقت کے حاکم منصور نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔
1985ء میں اس مسجد کو دریافت کرنے والے اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس عبادت
گاہ کی بوسیدہ دیواروں کو دوبارہ تعمیر کیا جبکہ مسجد کو جانے والے راستے
اور وضو خانے بھی تعمیر کیے۔ ساتھ ساتھ اس مسجد کو چاروں طرف سے محفوظ بھی
بنایا گیا۔
اوڈیگرام میں پہاڑوں کے دامن میں 1984ء میں مسجد کے احاطے سے ایک کتبہ
دریافت ہوا، جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو
مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشتگین کے
زیر نگرانی مسجد تعمیر کروائی، جس کا مقصد علاقے میں اسلام کا فروغ تھا۔
ایک اور ماہر آثار قدیمہ فضل خالق کے مطابق مسجد کے مقام پر بدھ مت کے دور
کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ یہ آثار مسجد کی تعمیر سے پہلے بھی یہاں موجود تھے،
جنہیں توڑا گیا اور پھر اُنہی پتھروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ مسجد تعمیر
کی گئی۔
|
|
اوڈیگرام (سوات) کی سلطان محمود غزنوی مسجد قدیم اسلامی فن تعمیر کی عکاسی
کرتی ہے۔ مسجد میں 30فٹ چوڑی دیوار، عام کمرے، طالب علموں کے کمرے، ان کے
پڑھنے کی جگہ، قبرستان اور صحن میں پانی کا ایک تالاب بھی موجود ہے۔
کافی بلندی پر واقع اس مسجد تک جانے کے لیے ایک کشادہ راستہ تعمیر کیا گیا
ہے۔ مسجد کی تعمیرِ نو کا کام 2011ء میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کی نگرانی
میں انجام پایا اور اس پر دو ملین یورو کی لاگت آئی۔ اٹالین آرکیالوجیکل
مشن پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا ماریا الویری کے مطابق مسجد کی تزئین و
آرائش پاکستان اور روم حکومت کے درمیان 2006ء میں طے ہونے والے سو ملین
ڈالر کے ایک آرکیالوجیکل معاہدے کا حصہ ہے۔
اٹلی کے آرکیالوجیکل مشن کے تحت اوڈیگرام میں مسجد کے آثار کی کھوج کا کام
1985ء سے لے کر 1999ء تک جاری رہا۔ اطالوی حکومت وادی سوات میں قدیم ورثے
کی حفاظت کے کئی دیگر منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔
|
|
مسجد سے نیچے وادی میں دیکھنے پر انتہائی خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے۔
پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ قدیم اور تاریخی مسجد اب سیاحوں اور عام لوگوں
کے لیے کھولی جا چکی ہے اور دور دراز علاقوں سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے
لئے جاتے ہیں۔ یہاں اب باقاعدگی سے نمازِ جمعہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
بشکریہ: (ڈوئچے ویلے) |