۵ نومبر ۲۰۰۹ء جمعرات کا دن تھا ، دن کی
مصروفیات کے بعد رات ۹ بجے میں نے کمپیوٹر کھولا ہی تھا کہ موبائل پر ایک
پیغام موصول ہوا، لکھا تھا کہ ٹی وی پر پٹی چل رہی ہے کہ کوئٹہ میں
لائبریری و انفارمیشن سائنس شعبہ کے استاد پروفیسر خورشید اختر انصاری کو
نا معلوم افراد نے شہید کردیا، پیغام بھیجنے والے تھے نوشاد غضنفر جو جامعہ
ذکریا کے کتب خانے میں کام کرتے ہیں اور میرے عزیز بھی ہوتے ہیں۔ یقین نہیں
آیا، پیغام کو دوبارہ پڑھا، کسی بھی قسم کا ابہام نہیں تھا۔ پھر بھی ایک
اِضطِراب کی کیفیت قائم رہی، اولین فرصت میں اپنے دوست ڈاکٹر خالد محمود کو
لاہور فون کیا۔ انہیں یہ خبر معلوم ہوچکی تھی لیکن وہ بھی خبر کی تصدیق کے
اقدامات کررہے تھے۔ گویا ہوئے کہ ہاں مجھ تک بھی یہ خبر پہنچی ہے میں کوشش
کررہا ہوں کہ کسی طرح اس کی تصدیق ہو، اگر کچھ معلوم ہوتا ہے تو آپ کو بتا
تا ہوں۔میں نے کوشش کی کہ کوئٹہ میں دوستوں سے رابطہ کیاجائے، شعبہ
لائبریری و انفارمیشن سائنس ، بلوچستان یونیورسٹی کے صدر شعبہ جناب رحمت اﷲ
بلوچ کو فون ملا یا ، ان کا نمبر بند مل رہا تھا، دوسرے دوست محمد الیاس سے
بمشکل تمام رابطہ ہوا، انہوں نے بتا یا کہ خبر بالکل درست ہے میں اور دیگر
دوست اس وقت ان کے گھر پر ہی ہیں، مرحوم عشاء کی نماز کے لیے اپنے گھر سے
مسجد کے لیے نکلے ہی تھے ،نا معلوم دہشت گردوں نے ان پر گولیا برسائیں اور
وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔انا اﷲ وانا علیہ راجیعون۔
مرحوم سے دیرینہ تعلق کی فلم میرے ذہن میں چلنے لگی۔ کس قدر نفیس ، خاموش
طبع، ملن سار انسان تھا۔ میری ان سے آخری ملاقات کراچی میں ہائر ایجو کیشن
کمیشن کی قائم کردہ قومی نصابی کمیٹی National Curriculum Revision
Committee in LIS کی میٹنگ منععقدہ ۱۶ ۔۱۸ اپریل ۲۰۰۹ء بمقام HEC ریجنل
سینٹر، لیاقت میموریل لائبریری بلڈننگ میں ہوئی تھی ۔خورشید انصاری اس
کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے کوئٹہ سے آئے تھے دیگر اراکین میں پروفیسر
ڈاکٹرمحمد فاضل خان ، پروفیسر ڈاکٹرخالد محمود، پروفیسر ڈاکٹرکنول امین،
ڈاکٹرروبینہ بھٹی، ڈاکٹر نثار احمد صبح پوتو، ڈاکٹر محمد رمضان ،پروفیسر
ملاحت کلیم شیروانی، شیریں گل سومرو، عذرا قریشی، محمد شعیب خان، حامد
رحمان، منظور احمد خان انجم، چودھری یعقوب علی اور گلناز اختر کے علا وہ
راقم الحروف بھی شامل تھا۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ پروفیسر خورشید اختر
انصاری سے یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔
خورشید اختر انصاری سے اپنے تعلقات کو شمار کرتے کرتے رات ہوگئی، اس دوران
ڈاکٹر خالد محمود کا فون بھی آیا اور مرحوم سے اپنے ملاقاتوں کا مختصر ذکر
ہوا، اب خیال ہوا کہ اس افسوس ناک خبر سے دیگر احباب کو بھی آگاہ کیا جائے۔
چنانچہ میل بکس کھولاتو لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر کنول امین کا پیغام
PakLAGپر موجود پا یا جوانہوں نے رات ۱۱ بجے جاری کیاتھا۔ انہوں نے اپنے
پیغام میں لکھاــ"It is very sad to read the news of
target killing of such a humble yet promising person like Khurshid
Sahib. I met him few months back in Karachi in HEC meeting. It was my
first meeting with him. He was very decent, composed and cordial. Really
it was pleasure meeting him. It is really disappointing that humans are
becoming much worse than animals. I deeply mourn his leaving us in such
a way. The Dept. shares the grief of colleagues at University of
Baluchistan. Its a common loss.May God rest the departed soul in
peace and grant the strenght to family, friends and colleagues".
پروفیسرڈاکٹر کنول امین نے سچ کہا کہ ا نسان جانوروں سے بھی بدتر ہو تے
جارئے ہیں ، کوئی بیس منٹ بعد پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے اپنا تعزیتی
پیغام PAKLGُُپر جای کیا یہ تھا:
I am shocked to know the news about the murder of my friend Khurshid
Akhtar Ansari, Assistant Professor of LIS at University of Balochistan,
Quetta. According to the initial reports he was shot dead near his house
when he was going to
the mosque for Isha prayer. All friends are requested to pray for this
nice fellow and his family.
ان پیغامات کے بعد میں نے بھی افسوس اور دکھ کے اس اظہاریے کو جاری رکھتے
ہوئے اپنا تعزیتی پیغام جاری کیا، پھر احباب کے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ
جاری ہوگیااور کیوں نہ ہوتا یہ غم اور دکھ تھا بھی اسی قدر شدید اور افسوس
ناک۔
پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس کے چیف ایڈیٹرڈاکٹر غنی الا کرم
سبزواری صاحب نے امریکہ سے اپنے پیغام میں جو ۶ نومبر کو PakLAGپر جاری ہوا
خورشید انصاری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ـ’’ It is really a very
shocking and painful to know that Prof. Khurshid Akhtar Ansari was
attacked and killed by some miscreants. Inn Lilillah wa Inna Elehey
Rajeon. May Allah (Swt) rest his soul in peace and reward him a high
palace Jannatul Firdous. Ameen. It is strange how innocent people are
being killed in our country. May Allah (Swt)
restore peace and tranquility in our country.
خورشید اختر انصاری پنجاب کے ایک متوست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، بجا طور
پر ایک self madeانسان تھے، محنت و مشقت کرکے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا
تھا۔۱۹۷۵میں جامعہ پنجاب کے کتب خانے سے ملازمت کا آغاز کیا اور ۱۹۸۴ء تک
اسسٹنٹ لائبریرین اور لائبریرین کے فرائض انجام دئے ، ۱۳اپریل ۱۹۸۵ء میں ان
کا تقرر لیکچر ر کی حیثیت سے شعبہ لائبریری سائنس ، بلوچستان یونیورسٹی میں
ہوا اور اپنی شہادت تک وہ شعبہ کے ایک استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے
رہے۔ یکم مئی ۲۰۰۰ء سے ۲ فروری ۲۰۰۴ء کے درمیان وہ صدر شعبہ بھی رہے اور
شعبہ کی ترقی کے لئے کوئی کثر نہ اٹھا رکھی۔
جامعہ پنجاب سے ۱۹۸۲ میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا، بلوچستان
یونیورسٹی سے منسلک ہونے کے اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ۱۹۹۷ء
میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ایم فل کرنے کے بعد خورشید انصاری اس تگ ودو
میں تھے کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ چنانچہ اپنے شعبہ
میں پی ایچ ڈی شروع کرانے میں کامیاب ہوئے۔مجھے ۲۰۰۵ء میں ’’بورڈ آف
اسٹڈیز، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ بلوچستان کا ممبر
’’ایکسپرٹ‘‘منتخب کیا گیا۔ اس وقت جناب رحمت اﷲ بلوچ شعبہ کے سربراہ تھے ،
اور خورشید انصاری بورڈ میں ایک رکن کی حیثیت سے شامل تھے۔بورڈ کی جس میٹنگ
میں خورشید انصاری اور محمد الیاس کے پی ایچ ڈی کے (Synopces)کی منظوری دی
گئی اس میْتنگ میں راقم کے علاوہ ڈاکٹر فاضل خان صاحب، ڈاکٹر خالد محمود،
لیاقت علی اور رحمت اﷲ بلوچ شامل تھے۔ خورشید انصاری بہت خوش تھے کہ انہوں
نے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوئے اب مرحلہ کام کاتھا، ابتدا
میں خورشید انصاری کی تھیسس سپروائزر ڈاکٹر سکینہ ملک مقرر ہوئیں جب کہ
ڈاکٹرافتخار خواجہ، محمد الیاس کے پی ایچ ڈی سپر وائیزر مقرر ہوئے، ڈاکٹر
سکینہ ملک امریکہ چلی گئیں تو خورشید انصاری نے ڈاکٹرافتخار خواجہ کو ہی
اپنا گائیڈ بنا لیا، کیوں کہ وہ کوئٹہ میں ہی موجود تھے۔ ان کے تحقیقی
مقالہ کا عنوان تھا "Standards for Public Libraries in Pakistan" ۔ ان کی
شہادت کے بعد معلوم ہوئی۔ اس بات کی کوشش کی گئی کہ مرحوم کو ڈگری دیدی
جائے، لیکن تاحال اس سلسلے میں جامعہ کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں
آئی۔
تحقیق کے حوالہ سے میں نے ۲۰۰۴ء میں خورشید انصاری سے ایک انٹر ویو کیا
جومیرے پی ایچ ڈی مقالہ میں شامل ہے۔موضوع کی مناسبت سے ان سے بعض سوالات
کیے جن کے جوابات انہوں نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر دئے ، بعض باتیں ان کے
حوالہ سے بھی تھیں ،انٹر ویو کی تفصیل درج ذیل
ہے:
۱ : آپ نے لا ئبریرین شپ کا پیشہ کب اور کیسے اختیار کیا؟
ج : لا ئبریرین شپ کا آغاز ۱۹۷۵ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کی
اعظم علی اورک زئی میموریل لا ئبریری میں بحیثیت لا ئبریری اسسٹنٹ کیا۔۱۹۷۸
ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈی ایل ایس کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا۔
۲ : اپنی تعلیم اور ملازمت کے با رے میں بتائیں۔ لا ئبریری سا ئنس کی تعلیم
کب اور کہاں سے حا صل کی؟
ج : ۱۹۷۹ میں اسی لا ئبریری میں بطور لا ئبریرین تعینات ہوا۔ ۱۹۸۲ء میں
پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی لا ئبریری میں تبادلہ ہوااور اسی سال ایم ایل ایس
میں داخلہ لیااور ۱۹۸۳ء ایم ایل ایس میں کامیاب ہوا ۔ اس میں میری تیسری
پوزیشن بھی تھی۔۱۹۸۶ء میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری و
انفارمیشن سا ئنس میں بطور لیکچرر میرا تقرر ہو گیا اور میں پنجاب سے کوئٹہ
منتقل ہو گیا۔ نیز اب میرے کام کی نوعیت بھی بدل چکی تھی ۔ میں لا ئبریرین
کے بجائے لا ئبریری سائنس کا استاد تھا۔ ۱۹۹۰ء میں اسی شعبہ میں اسسٹنٹ
پروفیسر ہوا ۔ ۱۹۹۹ء میں ایم فل کیا۔ ۲۰۰۰ء میں شعبہ کے چیر مین کے اختیار
سنبھالے اور یہ ذ مہ داریاں اب بھی میرے پاس ہیں
۳ : لا ئبریری سا ئنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغاز جا معہ کر اچی سے
۱۹۶۷ء میں ہو چکا تھا۔ ۳۷ برس میں صرف تین لوگ یہ سند حاصل کرسکے ، آپ کے
خیال میں اس کی وجہ اپنے مضمون سے عدم دلچسپی رہی یا کوئی اور رکا وٹ؟
ج :میرے خیال میں پا کستان میں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند رکھنے
والے حضرات کی تعداد میں کمی کی وجوھات کئی ہی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :
۱۔ پنجاب یونیورسٹی کے اسکالر شپ پر ڈاکٹریٹ کر نے والوں نے اپنی مادر علمی
اور اس پیشہ کی ترقی کے بجائے بیرون ملک ملازمت اور ذاتی مفادکے
حصول میں مصروف رہے۔
۲۔ یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام کا طریقہ کار انتہائی
پیچیدہ ‘ سست اور حوصلہ شکن ہے۔
۳۔ بیرونی یونیورسٹیوں کے مطالعاتی پروگرام اوراعلیٰ تعلیمی وظائف کے با رے
میں وزارت تعلیم یا تو اس کی تشہیر نہیں کر تی یا قلیل معیاد کے نوٹس پر
معلومات فراہم کی جا تی ہے ۔
۴۔ بعض یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے قوانین بہت سخت ہیں ۔ مثلاً
بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل مکمل کر نے کے بعد پی ایچ ڈی کر نے کی اجازت
ہے۔ایم فل میں چار سال لگ جا تے ہیں۔ پی ایچ ڈی کے سیمینار لیکچر کے لئے
حاضرین میں ۳۰ اساتذہ کی حاضری کا کورم پورا ہوناضروری ہوتا ہے ورنہ
سیمینار منسوخ کر دیا جا تا ہے۔ اس قسم کے حربے حوصلہ شکنی کے مترادف ہیں۔
۴ : آپ لا ئبریری سائنس کے استاد ہیں یہ فرمائیں کہ آپ پاکستان میں لا
ئبریری سا ئنس کی تعلیم کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ج : بحیثیت لا ئبریری کے استاد کے مجھے تو اس کا مستقبل تابناک نظر آتا
ہے۔خا ص طور پر نظر ثانی شدہ نصاب پر مستقبل کے تقاضوں کے پیش نظر جو
تبدیلیاں کی گئیں ہیں ان کی بدولت اس کی تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی
ہے۔ خاص طور پر automationاور کمپیوٹرائزیشن کے حوالے سے جو انقلا بی
تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ قابل ذکر ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر انٹر
میڈیٹ اور بی اے میں یہ مضمو ن سندھ ، پنجاب اور سر حد میں شروع ہو چکا ہے
، البتہ بلو چستان میں تاحال اس پر عمل نہیں ہو اسے یہاں پر بھی کالجوں میں
شروع ہو نا چا ہیے۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں اعلیٰ تعلیم سے پہلے اور درمیان
اور
نچلی سطح پر تعلیم بعد میں شروع ہو ئی۔ اس مضمو ن کی تر قی و ترویج میں
علاقائی اور مر کزی لا ئبریری ایسو سی ایشن اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
۵ : لا ئبریری کے فروغ اور کتب خانو ں کی ترقی میں حکیم محمد سعید کے کردار
کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج :حکیم صاحب پیشہ حکمت کے علاوہ علم وحکمت کا پیکر تھے۔ کتب علم کا ریکارڈ
ہو تی ہیں ، انہو ں نے اپنی تمام زندگی علم و حکمت کی ترویج کے لیے وقف
کردی تھی ، علم کے ان سچے موتیوں اور جوہرات کے خزانے جنہیں ہم ادنیٰ قیمت
پر بھی نہیں خرید سکتے، وہ ہمارے لیے بیت الحکمہ کی صورت میں چھوڑ گئے
۶ :بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لا ئبریری میں کمپیو ٹرکے آجا نے کے بعد لا
ئبریری کو ثانوی حیثیت حا صل ہو گئی ہے،اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج : یہ محض ایک مفروضہ ہے، کمپیوٹر آجا نے سے لا ئبریری کے کا مو ں میں
تیزی اور بہتری آگئی ہے، لا ئبریری سائنس کی تعلیم میں کمپیوٹر کا استعمال
عصری تقاضوں کے ہم آھنگ ہو نے میں اور اس علم کو دوسرے علوم کے برابر لا نے
میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، کمپیوٹر بذات خود ایک ذریعہ علم نہیں ہے بلکہ
معلومات کی Processingاور Retrievalکا ایک ذریعہ ہے کمپیو ٹر پر موجود معلو
مات کو آخر کار پرنٹ کی صورت میں کاغذ پر منتقل کر نا ضروری ہو تا ہے۔ جو
کتاب کی انفرادی شکل ہی ہے۔
۷ :آپ کی رائے میں اسپل کے منعقد کر دہ سیمینار ، ورکشاپ کے لا ئبریرین شپ
پر ان کے کیا اثرات مرتب ہو ئے؟
ج :SPILکے منعقد کر دہ سیمینار ، ورکشاپس اور کانفرنسوں نے کتب خانوں کی
ترقی اور لا ئبریری تحریک پر انمٹ نقوش مر تب کیے ہیں۔ ان منعقد کر دہ
اجلاسوں کی رودادیں لا ئبریرین شپ کے لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے یہ
لٹریچر کتب خانوں کی بہتری اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے رہنما کا کا م
دیتا ہے۔ پا کستان میں لا ئبریرین شپ کی تاریخ اس کے ارتقاء اور مستقبل کی
ضروریات کے لئے ایک اہم دستاویز ہے، نیز لا ئبریرین شپ میں بنیادی قانون
سازی کے لیے بھی راہ متعین کر تا ہے۔
۸ : کیا ’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ پا کستان میں لائبریری تعلیم کے فروغ میں معا
ون ہو سکا؟
ج :ستائش اور حوصلہ افزائی کسی بھی طالب علم کے لئے مہمیزکا کام دیتی ہے،
کر اچی یونیورسٹی کے MLISطلباء کے لیے گولڈ میڈل کا اجراء بھی اسی سلسلے کی
ایک کڑی ہے۔ اس ضمن میں دوسرے اداروں اور انفرادی اشخاص کو بھی حوصلہ
افزائی کے کاموں میں اپنا کردار ادا کر نا چاہیے اور یہ اقدام یقیناً فروغ
علم میں اور پیشے کی تر قی میں معا ون ثابت ہوا ہے۔
۹ : اس موضوع کے بارے میں آپ کچھ کہنا پسند کریں گے؟
ج : آپ جس موضوع پر تحقیق کرنے جا رہے ہیں وہ حکیم محمد سعید کی ان خدمات
کو جو انہوں نے پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے لیے انجام دیں۔ بلاشبہ یہ
ایک عظیم الشان خراج تحسین ہوگا۔ یہ موضوع تحقیقی تقطہ نظر سے حکیم محمد
سعیدکی کتب خانوں کے بارے میں خدمات اور کو ششوں کو بین الاقوامی سطح پر
منظر عام پر لا نے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا۔ اس سے دنیا بھر کے اہل علم کو
معلوم ہوسکے گا کہ سر زمین پا کستان کیسے کیسے دردمند اہل علم مشا ہیر سے
بھری پڑی ہے۔ کتب خانو ں کے حوالے سے حکیم صاحب کی پچاس سالہ علمی خدمات اس
امر کی مستحق ہیں کہ ان پر ڈاکٹریٹ کی سطح کا علمی مقالہ سپرد قلم کیا
جائے۔ تحقیقی نقطہ نظر سے یہ موضوع انتہا ئی وسیع ہے اور یقینا حکیم صاحب
کی زندگی کے چھپے ہو ئے پہلو اُجاگر کر نے میں بے حد کامیاب ثابت ہوگا۔ یہ
تحقیق بلا شبہ پاکستان میں لا ئبریرین شپ کے تحقیقی مواد میں ایک قابل قدر
اضافہ ہو گی جس کے ذریعہ، طلباء ، اساتذہ اور پرفیشنل حضرات کی ذہنی تربیت
ہوسکے گی۔
دَہشت گردی کی اس لہر میں نا معلوم کتنے ہی بے قصور اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں ، انہیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں کیوں مارا جارہا ہے اور ہوسکتا
ہے کہ گولی چلانے والے کو بھی یہ معلوم نا ہو کہ وہ کیوں گولی چلا کر کسی
بے قصور کی جان لے رہا ہے، عجب ستم ظریفی ہے کہ افسوس اور دکھ کے سوا انسان
کچھ نہیں کرسکتا ، اﷲ تعالیٰ پروفیسر خورشید انصاری کو اپنے جوار رحمت میں
جگہ دے آمین۔
(شائع شدہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جنرل۔ ۴۱(۲) جون ۲۰۱۰) |