العربیہ ٹی وی چینل کے مطابق
سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے اپنا فتویٰ ایک بار پھر دہراتے
ہوئے کہا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا ’بڑا گناہ‘ ہے۔ گلف نیوز کے
مطابق سعودی عرب میں ٹریفک حادثات میں روزانہ 17 ہلاکتیں ہوتی ہیں جو کہ
دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق مفتی
اعظم نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ ٹریفک قوانین کی اس طرح کی خلاف ورزی
گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔انھوں نے اس ضمن میں قرآن مجید کی ایک آیت
کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ''جس نے ایک
انسان کو قتل کیا ،اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک شخص
کو بچایا ،اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا''۔ ہمارے ہاں پاکستان میں
عوام مختلف قسم کے طبقات میں بٹی ہے ان میں سے دو طبقات بڑے اہمیت کے حامل
ہیں۔ ایک طبقہ سعودی عرب سے مرعوب ہے اور دوسرا آمریکہ بہادر سے۔ مندرجہ
بالا فتوی کے منظر عام پر آنے کے بعد جناب عصر حاضر کے دانشور ، صحافی و
اینکر پرسن جاوید چوہدری نے اپنے پروگرام میں چھوٹتے ہی ایک سانس میں
فرمایا کہ مفتی اعظم نے کمال کر دیاعصر حاضر کے اہم مسئلے پر اجتہاد کر کے
فتوی ارشاد فرما کر ملت اسلامیہ پر احسان کر دیا ساتھ ہی دوسری سانس میں
موصوف بولے کہ ہمارے مفتیان کرام کو سعودی مفتی کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے
بجلی چوروں کے خلاف فتوی دینا چاہئیے۔ معذرت و احترام کے ساتھ جاوید چوھدری
صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ ٹریفک حادثات اور بجلی چوری کی روک تھام صرف
فتوؤں سے نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئیے مناسب قانون
سازی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جس ملک کی اشرافیہ و ہر بڑا ادارہ بجلی
کا نادہندہ ہو وہاں محض فتوؤں سے بجلی چوری کو نہیں روکا جا سکتا۔ اگر یہ
سب فتاوی سے روکا جا سکتا تو سعودیہ میں ٹریفک حادثات رک جاتے کیونکہ سعودی
مفتی پہلے ٢٠١٠ میں یہ فتوی دے چکے تھے اور اب مئی ٢٠١٤ میں اسی فتوی کو
دہرایا ہے نہ کہ نیا فتوی دیا ہے۔ میں نے امت مسلمہ کے زوال کی وجوہات کو
تلاش کرنے کی بہت سعی کی کتابیں کھنگالیں اور بہت سے عقدے مجھ پر کھلے لیکن
ایک وجہ اس فتوی پر آپ کا تبصرہ سن کر سامنے آئی، وہ یہ کہ دور حاضر کا
مسلمان پریکٹیکل و عملیت سے دور بھاگتا ہے اور صرف تھیورٹیکل فتوؤں کے
سہارے زندگی گذارنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے اور ہر شعبہ میں ہماری راہنمائی کرتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ
اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے جو حصول علم اور عمل پر زور دیتا ہے۔ لیکن
شومئی قسمت سے علم و عمل دونوں سے ہمارا دامن خالی ہے۔ علم کو ہم نے روٹی
روزی کے حصول تک محدود کر دیا ہے اور عمل کو نماز روزے تک۔ ہمارے ہاں رشوت
و کرپشن کا دور دورہ ہے اور عرب دنیا میں واسطہ یعنی سفارش کا ناسور ہے
جسکی وجہ سے وہاں دو قسم کے قانون ہیں ایک عربوں کے لئیے اور دوسرا ہم جیسے
عجمی و مسکین لوگوں کے لئیے۔ آپ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار دیکھیں تو آپ
پر واضع ہو گا کہ ان کے ذمہ داروں میں اکثریت عربوں کی ہے عجمی نہ ہونے کے
برابر ملیں گئے اسکی وجہ وہی دو قسم کے قوانین ہیں۔ اگر کوئی عجمی حادثہ
کرتا ہے تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے سزا کاٹنے کے بعد اسے سافر یعنی ڈیپورٹ
کر دیا جاتا ہے لیکن سگنل توڑنے والا اور حادثہ کرنے والا عربی ہو تو پولیس
والے کے گال سے گال لگا کر بوسہ لیا جاتا ہے اور فون پر کسی بڑے آفیسر کی
بات کروائی جاتی ہے اور پھر مآ اسلام معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ ہم عجمیوں
کو تو کسی عربی کے خلا ایف آئی آر بھی کٹوانے کا حق حاصل نہیں۔ کویت میں
قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک کویتی نے پاکستانی کو قتل کر دیا ہم
پاکستانی مخفر یعنی پولیس اسٹیشن گئے لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے
انکار کر دیا ہم وفد کی صورت میں پاکستانی ایمبیسی گئے سفیر نے ملنے سے
انکار کر دیا ، ہم زبرستی کمرے میں داخل ہوئے تو موصوف نے کہا کہ میرے پاس
وقت نہیں آپ کے ساتھ تھانے نہیں جا سکتا۔ ہمارے سفیروں کے پاس کبڈی کے میچ
کے لئیے وقت ہوتا ہے مگر پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئیے نہیں۔ وہ سفیر
ہمارے تحفظ کا حقوق کیسے کر سکتا تھا جو کویت سے رشوت کے طور پر ویزے لے کر
لاکھوں میں بیچتا تھا، یہی حال ہمارے پوری دنیا سفارت خانوں کا ہے۔ سو ایسے
حالات میں فتوؤں کی نہیں قانون کی عملداری اور سب کے لئیے برابر قانون کی
ضرورت ہے، ہاں قوانین کو آپ شریعت کے تابع کر سکتے ہیں۔ کاش سعودی مفتی ایک
فتوی سعودیہ میں مقیم غیر ملکی مزدوروں کے حق میں بھی دے دیتے جن سےجانوروں
کی طرح کام لیا جاتا ہےاور اجرت دی نہیں جاتی اور اگر مزدور اجرت کا اصرار
کرے تو اسے کہا جاتا ہے وہ تھانہ ہے جاؤ رپورٹ کرو اسے پتہ ہوتا ہے کہ
پولیس میرے خلاف رپورٹ درج نہیں کرے گی۔ مفتی جی اگر حادثات روکنا چاہتے
ہیں تو اپنی حکومت سے دوغلے قوانین کے خاتمے کی سفارش کریں۔ برطانیہ میں
کسی پادری نے آج تک اشارے پر رکنے کا فتوی نہیں دیا لیکن سب سرخ بتی پر
رکتے ہیں آپ کے تمن خاں سعودی بھی یہاں رکتے ہیں وجہ کیا ہے ؟ آپ بھی سوچیں
میں بھی سوچتا ہوں اور جاوید چوھدری صاحب سے بھی درخواست ہے کہ اگر فتوؤں
سے کچھ ہو سکتا تو خودکش دھماکے ضرور رک جاتے کیونکہ سب کے فتوے ان کے خلاف
موجود ہیں۔ امن کو پانے کے لئیے کبھی فتوؤں سے آگے نکل کر دہشت گردوں کے
بازو توڑنے بھی ضروری و عین اسلامی ہوتا ہے۔ اگر فتوؤں سے ہی سب حل ہو سکتا
ہے تو پاکستان مفتیان کرام کو ٹھیکہ پر دے دیں۔ الله دین کی صحیح سمجھ نصیب
کرے۔ |