قسم کیا ہوتی ہے۔۔۔؟

قلم اٹھانے اور قدم بڑھانے کے بعد اب باری آتی ہے قسم کھانے کی تو صاحبان قسم کھانے کے متعلق راقم کی معلومات کچھ زیادہ نہیں بس اتنا کہ اگرچہ قسم کھائی جانے والی چیز نہیں لیکن پھر بھی بہت زیادہ کھائی جاتی ہےعام طور پر تو کھانے والی چیز وہ ہوتی ہے جسے کھا کر انسان اپنی جسمانی بھوک مٹاتا ہے نہ معلوم قسم کھانے سے کونسی بھوک مٹائی جاتی ہے یوں تو قسم کھائی جانے والی کسی خاص شے کا نام نہیں لیکن پھر بھی بات بے بات قسم کھائی جاتی ہے اس کے علاوہ چند حضرات کو بغیر کسی بات کے بھی قسم کھانے کی عادت ہوتی ہے

عام طور پر انسان اپنی بات یا اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لئے قسم کھاتا ہے، کبھی اپنی بات منوانے کے لئے قسم کھاتا ہے تو کبھی اپنے نظریات کی بابت دوسروں کو قائل کرنے کے لئے بھی قسم کھاتا ہے انسانوں کی طرح بہت سے جانور اور پرندے بھی اناج، سبزی اور گوشت کھاتے ہیں لیکن قسم صرف انسان ہی کھاتے ہیں کیونکہ قسم زبان سے کھائی جاتی ہے دانتوں سے نہیں اور جبکہ زبان صرف انسان کو ہی عنایت کی گئی ہے لہٰذا زبان کا استعمال کرتے ہوئے انسان ہی قسم کھا سکتا ہے انسان کس کس چیز کی قسم کھاتا ہے تو آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہو گی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اکثر و بیشتر ہر دوسرا شخص اتنی سی بات کو لیکر "اللہ پاک کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں یا کہہ رہی ہوں"

جب کوئی سچا ہے تو اسے اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ سچائی تو خود بخود سب کے سامنے آجاتی ہے ظاہر ہے کہ جس کے لئے اپنے بیان کی حقانیت مشکوک ہوگی وہی خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھاتا ہے پہلی بات تو یہ کہ قسم کھانے کی نوبت ہی کیوں آئے جب کہ آپ کو اپنی بات کا یقین ہے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو یقیناً دوسروں پر بھی سچائی ظاہر ہو جائے گی اس میں اس قدر جذباتی انداز میں شدت کے ساتھ قسم کھانے کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہتی اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا بھی عام بات بنتی جارہی ہے

عدالتوں میں بھی قرآن پاک پر ہاتھ رکھوا کر قسم کھانے کا حکم صادر کیا جاتا ہے جہاں تک عدالتوں میں کلام پاک کی قسم کھانے کا تعلق ہے تو جن دو فریقین یا گروہوں کے درمیان مقدمہ چل رہا ہوتا ہے وہ دونوں ہی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے پر راضی ہو جاتے ہیں اور کھاتے بھی ہیں اب ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں شاہدین اور شہادتوں کی روشنی میں ہی مقدمے کا حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ قسم تو دونوں ہی فریقین نے اٹھائی اب اس صورت میں قرآن پاک کی قسم کھانے کی کیا اہمیت رہ گئی کسی ایک نے تو جھوٹی قسم کھائی ہوگی نہ کیا یہ پاک کلام کی ﴿نعوذ باللہ﴾ گستاخی نہیں ہے

یہ تو ہوئی چھوٹے یا بڑے معاملات میں بڑی بڑی قسمیں کھانا اس کے علاوہ قسم کھانے کی ایک قسم بلیک میلنگ کے زمرے میں بھی آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنی بات منوانے کے لئے اپنی قسم کھا بیٹھتا ہے کہ “اگر میری فلاں بات نہ مانی گئی تو مجھے قسم ہے کہ میں ۔۔۔فلاں فلاں یا فلاں کر گزروں گا یا گی" وغیرہ

راقم کی دانست میں اس طرح سے قسمیں کھانا اور اپنے پیاروں سے اپنی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کروانے کے لئے قسم کھانا نہایت بودی ترکیب ہے ممکن ہے کہ آپکے اس طرح سے اپنی قسم کھانے کی بنا پر آپ کے گھر والے آپ کی بات مان بھی لیں تو کیا ممکن ہے کہ اس عمل سے انہیں ذہنی یا روحانی اذیت بھی اٹھانا پڑی ہو تو کیا محض اپنی عارضی یا چھوٹی سی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے پیاروں کو تکلیف دینے کا عمل جائز ہے

راقم کی دانست میں تو اس کا جواب 'نہیں' یعنی نفی میں ہے اپنے علاوہ اپنے کسی دوست یا عزیز کی قسم کھانے کا رواج بھی دیکھنے میں یوں آتا ہے کہ جب انسان کسی دوسرے کو اس خوش فہمی میں ڈالتا ہے کہ اس کے لئے کسی دوسرے کی زیادہ اہمیت ہے تو وہ اپنے دوست پر اپنے جذبے اپنی محبت اور اپنے خلوص کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اس کی قسم کھا کر ہی اس پر اپنی بات کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہتا یا کہتی ہے کہ “مجھے تمہاری قسم اگر تم مجھے نہ مل سکے نہ مل سکیں یا اگر میں تمہارے لئے یہ نہ کر سکا یا نہ کر سکی تو میں۔۔۔۔، اس ادھوری بات کو آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آگے کیا بات ہو سکتی ہے

اب آپ بتائیے کہ قسم کھانا خوب ہے یا نہیں راقم کے خیال میں تو قسم کھانا کوئی اچھی عادت ہے نہ طرز عمل نہ خود کو سچا ثابت کرنے کی دلیل ۔۔۔ قسم کھانے کے معاملے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ انسان دانستہ یا دانستہ قسم کھا کر وقتی طور پر اپنا مطلب بھی پورا کروا لیا کرتا ہے لیکن بعد میں یہ بھول جاتا ہے کہ اسے اپنی قسم کو بھی پوری کرنا ہے کہ قسم کھا لینا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن قسم پوری کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر قسم کھا لی جائے تو قسم کھانے والے پر لازم آتا ہے کہ وہ قسم پوری کرے قسم پوری نہ کر سکے تو اسے قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ قسم پوری نہیں کرتا یا قسم کا کفارہ ادا نہیں کرتا تو اس نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ قسم کھا کر پوری نہ کرنے کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے

پس راقم کی ناقص دانست میں قسم کھانا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ قسم کا نہ کھانا ہی بہتر ہے ۔۔۔ کہیے آپ کا کیا خیال ہے قسم کھانا کوئی کھانا تو نہیں یا انسانی خوراک تو ہے نہیں کہ جو نہ کھائی گئی تو بھوک اور فاقے کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ہر چیز کا علم اللہ بہتر رکھتا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہمارا قلم ہمیشہ سچ کے لئے اٹھے، ہمارے قدم ہمیشہ بھلائی کے لئے اٹھیں اور ہم میں سے کسی ہر کبھی بھی جھوٹی قسم کھانے کی نوبت نہ آئے ﴿آمین﴾
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456507 views Pakistani Muslim
.. View More