یہ قصہ بھی تمام ہوا

سانحہ کھوڑی گارڈن کی تحقیقات اب اختتام پذیر ہوگئی ہیں۔ جس کے مطابق اکثر خواتین دم گھٹنے اور ایک ذہنی خوف کا شکار ہو کر ہلاک ہوئیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے نتیجے میں کسی بھی خاتون کی ہلاکت کسی زخم یا چوٹ کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ ۴۱ ستمبر کو ۰۲ خواتین بھگڈر یا دم گھٹنے سے ہلاک ہوئیں، تو پورے ملک میں کوئی کہرام نہیں مچا، کوئی شور بپا نہیں ہوا، ہر ایک نے اپنی اپنی بولی بولی، اظہار ہمدردی کیا، اخبارات میں تصویر چھپوائیں، حکومت نے انکوائری کے لئے ایک جج کو مقرر کیا، انکوائری میں ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا۔ بہت سے افراد کے بیانات ریکارڈ کئے گئے، جس نے جو کچھ دیکھا تھا، اس کا اظہار کردیا۔ پاکستان میں ہونے والے اکثر حادثوں، سانحوں اور واقعات کی طرح یہ سانحہ بھی گزر گیا۔ اب ایک رپورٹ کا اور اضافہ ہوجائے گا۔ رپورٹ میں کہا جائے گا کہ ان خواتین کی موت ایک حادثے کا نتیجہ تھی۔ ڈاکٹروں کے پوسٹ مارٹم نے بھی ان خواتین کے جسموں پر آنے والے زخموں کو دیکھا۔ لیکن کسی نے بھی ان عورتوں کی روحوں کے زخموں کو نہ دیکھا۔ نہ ہی کسی رپورٹ میں ان کے پیٹ میں چھپی ہوئی اس بھوک کا سراغ لگایا جاسکا، جو ان کی موت کا سبب بن گئی۔ کسی رپورٹ نے اس غربت کے بارے میں بھی نہیں کہا جس کے سبب شہر کی پسماندہ بستیوں سے نکل کر آنے والی یہ خواتیں یہاں آئی تھیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر نہیں ہوگا کہ ان کے بچے جن کی بھوک مٹانے کے لئے یہ خواتین یہاں آئی تھیں۔ اب کس حال میں ہیں۔ اب ان کو روٹی کے لئے کون دلاسا دے رہا ہوگا۔ یہ بچے راتوں کو ڈر کر روتے ہوں گے تو ان کو چپ کرانے والا کون ہوگا۔ یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سانحہ کھوڑی گارڈن نے معاشرے میں موجود غربت کا پردہ چاک کردیا ہے۔

عورت جو ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے وہ یہاں کتنی محفوظ ہے، ۳ سال، ۵ سال کی بچیاں بھی جنسی جنونیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ آئے دن ایسے ہولناک واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، جن کو پڑھتے ہیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جن گھروں پر یہ قیامت گزرتی ہے۔ ان کا کیا حال ہوتا ہے۔ اسپتالوں میں سے بچے اغوا کئے جارہے ہیں۔ یہ معاشرہ کہاں جارہا ہے، اس مملکت خداداد میں علاج کی سہولت نہ ہونے سے ہر دو گھنٹے میں ایک عورت زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہے۔ جہاں ہر ۲۱ گھنٹے میں ایک عورت خودکشی کرتی ہے۔ جہاں ہر روز دو عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ کیا ہم ایسے ہی تھے۔ کیا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ کیا ہم اس صورتحال کو بدلنے کے کچھ کررہے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پاکستان کا نام ساری دنیا میں سر فہرست ہے۔ جمہوریت کے شور میں خودکشیاں اور بچوں کی فروخت ہورہی ہے۔ یہ کونسا نظام ہے جس میں مہنگائی کا طوفان دیکھ کر لوگوں کو آمریت یاد آرہی ہے جس میں آٹے، چینی کی یہ لوٹ مار تو نہ تھی۔ صدارتی٬ پارلیمانی٬ آمرانہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی ناکامی کی بھی اصل وجہ کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ پاکستان میں ہر شعبے کے طاقتور افراد اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ اب ایک ایسا میکنزم بنایا جاچکا ہے کہ غریب عوام کا استحصال اشرافیہ کی مجبوری اور ضرورت بن چکا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے اشیاء ضرورت بھی اب غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں غریب لوگ بدترین نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پاکستان میں خودکشی کرنیوالے افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی٬ لاہور٬ اسلام آباد جیسے شہروں میں غریب افراد ہر روز خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ سرمایہ دار پاکستان میں مکروہ بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ سرمائے کی طاقت کو استعمال کر کے غریب طبقے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں٬ حکومت٬ بیوروکریسی٬ اسٹیبلشمنٹ میں سرمایہ دار٬ جاگیردار اور جرنیل بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف اپنے طبقے کی بہتری کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں۔ سیاست دان، سرمایہ کار، مذہبی قیادت سب کاروبار میں مصروف ہیں۔ غریب طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ غربت اور امارت میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے سماجی معاشرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اب چاہے لوگ خودکشی کر کے مریں یا راشن کی بھگدڑ میں کسی کو اس سے کیا غرض۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418948 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More