پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ مزدور تھا سونے کی کان میں
کل مزدور وں کا عالمی دن تھا اور مزدور کے نام پر سیاست کرنے ولوں نے اس دن
کو بھی خوب منایا اور جسکا دن تھا وہ اس دن بھی مزدوری کے لیے دربدر ہی رہا
ایک مزدور کا سفربھی بہت عجیب اور امیدوں سے بھرا ہوتا ہے ہر گذرے دن کی
مصیبتیں وہ آنے والے دن تک بھول جاتا ہے گاؤں میں زمیندار کے ظلم کا نشانہ
بنتے بنتے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے جب ایک محنت
کش گاؤں، قصبے یا چھوٹے شہر سے بڑے شہر کا رخ کرتا ہے تو اچھے مستقبل کے نہ
ٹوٹنے والے خواب اسکے ہمسفر ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ کراچی ،لاہور ،فیصل
آباد ،پشاور یا کسی اور بڑے شہر میں قدم رکھتا ہے تو وہاں پر موجود بے
روزگاروں کی تعداد اور فٹ باتھوں پر موجودبکھرے بالوں سے براجمان بوڑھے مرد
اور خواتین اسکے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نئے آنے والے کے خواب
اور بچوں کا مستقبل اسے مایوس نہیں ہونے دیتا اور وہ اپنی مزدوری کی تلاش
میں لگ جاتا ہے کبھی کام مل گیا کبھی نہ ملا کبھی سونے کی جگہ مل گئی کبھی
نہ ملی اور اپنی بھوک اور خواہشات دبا دبا کر جب کچھ پیسے جمع کرلیے تو پھر
گھر والوں سے ملنے کی خوشی میں واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے گھر اور گاؤں
والے یہ سمجھتے ہیں کہ شہر میں بہت کام ہے بڑے پیسے مل جاتے ہیں یہ تو ایک
مزور ہی جانتا ہے کہ کس طرح محنت مزدوری کے بعد اس نے اپنے کھانے کے پیسے
بھی کسی نہ کسی لنگر خانہ کی لائن میں لگ کر بچا لیے رات کسی دربار کے باہر
یا کسی پارک میں لیٹ کر یا بیٹھ کر گذار لی وہ یہ سب تکلیفیں اپنے خاندان
کی کفالت کے لیے برداشت کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جب کبھی کوئی مشکل
پڑے گی تو کسی نے اسکا ساتھ نہیں دینا حکومت کے تو بلکل ہی ہاتھ کھڑے ہوتے
ہیں ایک باپ کے لیے اسکے بچے بچپن میں ہی جوان ہوجاتے ہیں خاص کر بیٹیاں جو
والدین کا سہارا اور جیون دھارا ہوتی ہیں انکی خواہشات کو پورا کرنا ہر
والدین اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اسی فرض کو نبھاتے نبھاتے وہ کولہو کے بیل
بن کر کام میں لگے رہتے ہیں اور انکے خون پسینے سے ٹیکس چور دن بدن امیرسے
امیر بن جاتے ہیں پاکستان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے والے ایسے
وڈیرے اور سیاستدان جنہوں نے غریب کے نام پر اپنی سیاسی دوکانداری چمکائی
اور پھر غریبوں کے ہی دشمن بن گئے آج پاکستان اور اس میں بسنے والے مزدوروں
کا یہ حال ہے کہ جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا اس سے بھی دو قدم پیچھے چلے
گئے ہیں جبکہ ہمارے سیاستدانوں نے نہ صرف پاکستان میں جائیدادیں بنا لی
بلکہ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی ملکی دولت جمع کرلی پاکستان اور اسکی
عوام کو اس حال میں پہنچانے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہم سب اس میں شامل ہیں
ایک کلرک سے لیکر وزیر اعظم اور صدر تک سب ہی قصور وار ہیں جو اپنے ذاتی
کام تو اس تیزی سے کرتے ہیں کہ ایک دن کے بعد دوسرا دن نہیں چڑھنے دیتے
جبکہ غریب بیوہ کو صرف چند ہزار مالی امداد حاصل کرنے کے لیے درجنوں بار
وزیر اعلی کے دفتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور وہاں پر بیٹھے ہوئے انتہائی
لاپرواہ اور بدتمیز قسم کے کلرک ان اپنے جیسوں کا ہی استحصال کرنے میں
مصروف ہوتے ہیں میں نے متعدد بار ایسی بوڑھی خواتین اور معذور افراد کو
وزیر اعلی کے دفتر کے اندر اور باہر روتے ہوئے اور فرعون صفت کلرک بادشاہوں
کے آگے ہاتھ جوڑتے دیکھا مگر کیا مجال ہے کہ وہ ان پسے ہوئے بدنصیبوں کو
تسلی دلاسہ دیکر ہی واپس بھجواتے مگر یہاں پر فرعونیت اپنے ہی رنگ میں
براجمان ہے پاکستان میں جس سے بھی کسی کو کام پڑ گیا وہی ذلیل وخوار کرنے
میں مصروف ہو جاتا ہے میں خود قلم کا مزدور ہوں اور اسی حوالے سے ملک کے
دوسرے مزدوروں سے بھی رابطہ رہتا ہے آج جس طریقہ سے مزدور ہی مزدور کو
کمزورکررہا ہے اسکی مثال نہیں ملتی غریبوں کو آپس میں لڑانا اور اپنے
مفادات حاصل کرنا یہ ہمارے حکمرانوں کی پالیسی رہی ہے جس میں وہ بڑی حد تک
کامیاب بھی رہے یہی وجہ ہے کہ جو بھی پاکستان میں حکمران آیا اس نے آنے سے
پہلے غریبوں کے نام پر ہی اپنی اپنی سیاسی دوکانداری چمکائی اور پھر اقتدار
کے ایوانوں میں پہنچ کر عوام کو ایسے بھولے جیسے وہ غریبوں کو کچلنے کا
مینڈیڈیٹ لیکر آئے ہوں اسی لیے تو دن بدن ملک میں غربت کی شرع خطرناک حد تک
بڑھ چکی ہے اور جو اچھے مستقبل کی امید لیکر شہروں میں مزدوری کرنے آرہے
ہیں وہ پیسہ تو نہیں کما سکے الٹا بیماریاں لیکر واپس اپنے گھروں کو ضرور
جارہے ہیں جہاں غربت اور جہالت پہلے سے ہی انکی منتظر ہوتی ہے ۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی کسی مزدور کی فاقوں سے مرگئی ۔ |