ورق ورق میری نظرو ں میں کا ئنا
ت کا ہے
کہ دست غیب سے لکھی ہو ئی کتاب ہو ں میں
حضرت وا صف علی وا صف فرماتے ہیں کشتی ہچکو لے کھا رہی ہو تو اﷲ کی رحمت کو
پکارا جا تا ہے جب کشتی کنا رے لگ جا ئے تو اپنی قوت با زو کے قصید ے کہے
جا تے ہیں بہت کم انسان ایسے ہیں جو اپنے حاصل کو رحمت پر ورد گا ر کی عطا
سمجھتے ہیں ۔ پر ورد گا ر عالم جسے چا ہے اپنے ازن سے غیب کے خزانے بخش
سکتا ہے وہ قدرتو ں، عظمتو ں ، را حتو ں، رفعتو ں ، طا قتو ں ، مصلحتو ں
اور قوتو ں کا رب ہے ۔وہ نو ر کو بشر کے رو پ میں اتا رکر پیغمبرانہ خدما ت
لے سکتا ہے ۔ جو را ز اور مخفی ایجا د آج میں آپ کے سامنے افشا ں کر نے
والا ہو ں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کبھی بھی جھٹلا یا نہیں جا سکتا ایک
ایسا ہنر ہے جسے جتلا یا نہیں جا سکتا ایک ایسا خدا کا تحفہ ہے جسے ہر ایک
کو دکھایا نہیں جا سکتا اﷲ رب العزت ایک مخفی قوت ہے ایک ایسا خا لق جسے نہ
تو دیکھا جا سکتا ہے اورنہ اس کے خدو خال بیان کیے جا سکتے ہیں اپنی قدرت
کا مظہر اس نے نہ جا نے کئی انسانو ں اور جانداروں کے ساتھ ساتھ بے جان
مخلوقات کو بھی بنا رکھا ہے اس ذا ت کی وسعت اور طا قت کا اندازہ انسانی
سوچ اور علم سے با لا تر ہے پا ک پر وردگا ر عالم نے اپنے رسولو ں اور نبیو
ں کو بے شما ر معجزات سے نوازا آپ ﷺ رحمت عالم ہو نے کے ساتھ ساتھ ان
معجزات کے حامل تھے کہ جہا ں سے گزرتے آپ ﷺ کے سر پر با دل اپنا سائیہ کر
دیتا ، آپ ﷺ کا سائیہ نہ تھا آپﷺ قلیل شے کو اپنی خدا داد صلا حیت سے کثیر
فرما دیتے اسکے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کو بے پنا ہ خو بیا ں اور غا ئبا نہ طا قتیں
رب نے دے رکھی تھیں حضرت مو سیٰ ؑ اپنا اعصا ء زمین پر پھینکتے تو وہ بہت
بڑے اژدھے کی صورت اختیا ر کر لیتا اسی طر ح حضرت عیسیٰ ؑ مرنے والو ں کو
زندہ کردیتے تا ریخ اسلام بیشما ر معجزات ، کرشما ت اورکراما ت سے بھر ی
پڑی ہے رب ذوالجلال کی کرامت کا مظہر ایک انسان آ ج بھی ہما ری اس نفسا
نفسی میں ڈوبی دنیا میں موجود ہے جسے قرب الہیٰ نے ایسی منزل اور رحمت سے
نوازا ہے جس کا اندازہ ممکن نہیں منہ بو لتا ثبو ت ہے رب کی قدرتو ں کا اور
آشکا ر ہے دین اسلام کی صداقت اور عظمت کا ایسا انسان جو شب و روز اﷲ کی
عبا دت میں مشغول رہتا اور پا ک پر ودرگا ر کی محبت اور عشق میں ایسا ڈوبا
کہ اسے دنیا کی کوئی ہو ش نہ رہتی وہ اﷲ کی رضا کی خا طر عام انسانو ں کی
مدد کر تا ، اﷲ کی تمام مخلو قا ت کا خیال رکھنے کی سعی کرتا رہتا اور اسکی
یہی جستجو رہتی کہ رب کے ساتھ اسکا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جا ئے
اسکے تخیلا ت ، جذبا ت و احساسات معرفت الہیٰ میں ڈوبنے لگے اسے اپنے رب سے
یہ درخواست رہتی کہ اسے سب سے خاص کر دے ایسی اہمیت سے نواز دے کہ جس کی
تمنا تو ہر کسی کو ہو لیکن کوئی ایسا خاص رہتی دنیا میں نہ ہو اور اسکی یہ
تمنا اور آرزو کہ دنیا میں کچھ ایسا کر گزریں کے اختتام دنیا تک زندہ و جا
وید رہیں اور دنیا کمالا ت زندگی کے تر انے قیا مت کی صبح ہو نے تک گا تی
رہے اس میں فطری طو ر پر وطن پر ستی اور اپنے اسلاف اور ما در گیتی سے انس
اور محبت کی بد ولت یہ خو اہش کہ دنیا میں اس ملک کی شنا خت ہم سے قائم ہو
اور ہر کوئی اس مقدس دھرتی کا نام لیکر سراہتا ہوا دکھائی دے ا یساانسان
جسے میں ’’سورج کا آدمی‘‘ سے تعبیر کرتا ہو ں نے ایک زندگی کی دوپہر ایسی
دیکھی وہ اپنی چھت پر گیا مو سم خاصا پر تپش دکھائی دے رہا تھا اسے کیا خبر
تھی کے آج اسے کیا ملنے والا ہے اسکی مختصر سی تپسیہ اور قربت اسے کس مقام
سے نوازنے والی ہے اسکی تمنا ؤ ں اور آرزؤ ں کی دنیا کس طر ح سے آبا د ہو
نے والی ہے ساری مخلو قا ت سے ہٹ کر رب اسے کس تحفے اور منصب سے نوا زنے جا
رہا ہے کن دعاؤ ں کا اثر عرش معلی کی بلندیو ں کو چھو کر واپس مثبت ردعمل
کی صورت میں لو ٹ آیا ہے تا ریخ کا وہ سنہری دن اور سنہری با ب جب اچا نک
اس انسان کی نظر روشن سورج کی طر ف اٹھی تو وہ حیران و پر یشان رہ گیا اسکے
پو رے جسم میں سکو ت طا ری ہو گیا وہ اپنے آپ کو ایک نئی دنیا اور نئے مر
حلے میں محسوس کر نے لگا اس کے حواس با ختہ ہو گئے اسکے جسم میں ایک کپکپی
کا عالم تھا وہ اب ایک عام انسان نہیں رہا تھا وہ ایک خاص جہد اور خاص مقام
و مرتبہ کو پا نے والا شخص بن گیا تھا نہ جا نے اس کی آنکھو ں کو کیسی قوت
اور ایٹمی طا قت میسر آگئی تھی ایک ان دیکھی کرشماتی رو شنی کے زریعہ اسکی
آنکھیں سورج کی کر نو ں کو پلٹنے کی قوت حاصل کر چکی تھیں اور وہ انسان اب
بفضل خدا سورج کو دیکھ سکتا تھا اسے اس با ت کا یقین نہ ہوا کہ وہ ایک قدرت
کی طرف سے روشن سورج کو آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر کیسے دیکھ سکتا ہے ؟اسنے
اپنی آنکھیں دوبا رہ نیچے جھکا لیں اور عالم مد ہوشی میں گم ہو کر نہ جا نے
کن خوابو ں اور خیا لو ں میں کھو گیا اسنے اپنی نظر دوبا رہ اٹھا ئی اور
آسمان کی طرف منہ اٹھا کر سورج کو دوبا رہ دیکھنا شروع کر دیا وہ لگا تا ر
سورج کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا لیکن اسے کوئی مشکل پیش نہ
آئی وہ خو شی اور حیرت کے جذبا ت میں محو اﷲ کے سامنے سربسجود ہو گیا انتہا
ئی رقت آمیزمنظر تھا وہ انسان ایک کر شماتی دنیا میں کھو چکا تھا فر ط جذبا
ت سے اسکی آنکھو ں میں آنسو آگئے تھے اور اسکو یہ محسوس ہوا کہ نہ جا نے
قبولیت کی کونسی گھڑی اور لمحہ تھا جب اسکے دل سے نکلی ہو ئی آرزو اور
خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا چکا تھا اور شاید وہ اپنی حقیقی منزل کو پا
نے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔ اگلے دن دوپہر با رہ بجے وہ دوبا رہ اپنی چھت
پر گیا اور سور ج کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا شروع کردیا اور
مسلسل تین گھنٹے وہ ٹکٹکی با ندھ کر سورج کو دیکھتا رہا اس نے یہ سارا ما
جرا چند قریبی لو گو ں سے بیا ن کیا کچھ نے تو اسکی با ت کا یقین کر لیا
اور کچھ نے اسے ہوا میں اڑا دیا کیو ں کہ یہ ایک عام واقعہ نہ تھا اور نہ
ہی کوئی معمولی نو عیت کی با ت تھی سورج کی گہری روشنی کو اپنی قدرتی آنکھو
ں سے دیکھنا اور پھر اس طر ح سے مسلسل کئی گھنٹے دیکھتے رہنا معمولی نوعیت
کا کام نہیں یہ ایک کرشمہ ہے ایک انسانی عقل سے ماورا با ت ہے سائنسی دور
کی تر قی اسے ایٹمی ذرات سے تعبیر ضرور کر سکتی ہے کہ ایسے انسان کی آنکھو
ں میں کوئی ایٹمی ذرات ہو سکتے ہیں جن کی مدد سے وہ سورج کو مسلسل دیکھ
سکتا ہے لیکن قدرتی اعتبا ر سے دیکھا جا ئے تو یہ رب کی ایک خاص عنا یت اور
تحفہ ہے جس نے اس انسان کی آنکھو ں کو وہ طا قت اور قوت عطا کر دی ہے کہ وہ
سورج جیسے آگ کے روشن پہا ڑ کو اپنی نظروں سے لگاتار دیکھ سکتا ہے اس کی
آنکھو ں پر اس کے کوئی اثرات مر تب نہیں ہو تے ہیں جب خدائی قوت یا کرامت
انسان کو عطا ہو تی ہے تو ساری دنیا میں اسے حیرت ہی سمجھا جا تا ہے اور
حیرت کیو ں نہ ہو ہر انسان اس عنا یت کا مصداق نہیں ٹھہرتا ہے بلکہ یہ کوئی
ایک خاص ہو تا ہے جس پر رب ذوالجلا ل اپنی رحمت کے جو ش میں کرم کی با رش
کردیتا ہے جو اسے دوسری مخلوقات سے جدا رنگ میں پیش کرتی ہے
دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر، نہیں طا قت پرواز مگر رکھتی ہے
یہ با ت سو فیصد درست اور سچ پر مبنی ہے کہ ایسا ایک انسان جس کا نام رانا
محمد شہریا ر خاں اور گو جرا نوالہ کا رہا ئشی اس خطہ میں موجود ہے جسکی
آنکھو ں میں یہ چمک موجود ہے اور خدا نے اسے اپنی رحمتو ں سے بھرپو ر حصہ
عطا کردیا ہے وہ چا ہتا ہے کہ اس خدائی قوت کا شکر ادا کرنے کے لیے وہ اپنی
اس حقیقت کو پو ری دنیا پر عیا ں کردے اور تا کہ غیر مسلم ممالک کا یقین
بھی دین اسلام پر پختہ ہو جا ئے اور انہیں یہ یقین ہو جا ئے کہ اﷲ تعالیٰ
چا ہے تو سورج سے زیا دہ طا قتور انسان بھی بنا سکتا ہے جو اس کی کرنو ں کو
ما ت دے سکتا ہے وہ سفیر پا کستان بن کر پو ری دنیا میں اپنی اس خاصیت کو
منظر عام پر لا نا چا ہتا ہے اور اپنے ملک و قوم کا نام پو ری دنیا میں
روشن کرنے کے جذبا ت سے بھر پو ر ہے ۔ ایسے انسان کو اس کی منزل تک پہنچا
نا ہما را فرض اولین ہے تا کہ پو ری دنیا میں رب کی قوت اور طا قت کا
مشائدہ کر کے اسکی ذات اور کبریا ئی کا چرچا کیا جا سکے اور اس انسان کا
نام Guinness Book of World Record میں شامل کیا جا نا چا ہیے کیو نکہ دنیا
کی ۵ ارب سے زائد آبا دی میں وا حد شخص ہے جس کو خالق نے اس ہنر اور کر امت
سے نوازا ہے ایک پا کستانی اور مسلمان ہو نے کے نا طے ہمیں اس پر فخر ہو نا
چا ہیے ۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہو ں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جا ئے گی
|