حکمرانوں:تاریخ سے سبق سیکھو!

تاریخ ماضی کے واقعات کا نام ہے۔یہ سطور صرف ان لوگوں کے لیئے لکھ رہا ہوں جو اقتدار کے دیوانے ہیں اور اس کے حصول میں وہ حرام و حلال تو بھولے ہی ہیں اپنی شناخت بطور غلام رسول عربی ﷺ بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ کہنے کو انہیں علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی سے بھی بڑی عقیدت ہے کاش کہ یہ کلام اقبال کا مطالعہ کرتے یا بانگ درا ہی پڑھ لیتے جو ہمیں ہمارے مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر محترم و مکرم سالطان محمود مرحوم و مغفور نے آٹھویں جماعت میں پڑھائی تھی۔ چلیں کم از کم شکوہ جواب شکوہ ہی پڑھ لیتے، مسدس حالی مدوجزر اسلام ہی پڑھ لیتے تو کسی حد تک انہیں شناخت ہوجاتی مگر ہمارے ملک کے بڑوں، سرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کارخانہ داروں اور صلیبیوں کے ایجنٹوں کو اپنے بارے کچھ پتہ نہیں کیونکہ یہ لوگ اپنی شناخت کھوچکے ۔ پاکستان بنے اتنے سال ہوگئے ابھی تک انہیں اپنی زبان نہیں ملی اور نہ ہی اپنا نظام تعلیم تلاش کرسکے۔ دیگر نظام سلطنت تو دور کی بات ہے۔ صلیبی ہمارے بڑوں کو بدھو سمجھتے ہیں اور انہیں جو مشورہ دیتے ہیں یہ اسے قبول کرتے ہیں اور انکے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ برطانیہ بڑے شاطروں اور مکروفریب کے ماہرین کا ملک ہے۔ اسکی شکر کی پڑیا میں بھی سنکھیا ہوتا ہے۔ برطانیہ کو اپنی نوآبادیات کو جانے کے بعد بھی غلام رکھنے میں بڑی مکاری سے کام کرنا پڑا اور اس میں انہیں کامیابی ہوئی۔ علم ہی قوموں کے عروج وزوال میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اصلاح کے لیئے رسولوں کو انہیں قوموں سے پیدا فرمایا اور انہوں نے انہیں انہیں کی زبان میں تبلیغ فرمائی۔ پھر خاتم نبوت ورسالت ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ بھی انہیں کی برادری سے اور انہیں کی زبان میں ان سے مخاطب ہوئے۔ یہیں سے دنیا علم کے نور سے منور ہوگئی اور جدید ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اگر آپ ﷺ کسی اور زبان کو منتخب فرماتے تو اہل عرب کے لیئے ترقی کی یہ راہیں مسدود ہوجاتیں۔ صلیبیوں نے انتہائی مکاری کے ساتھ اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ہم سے عربی، فارسی اور اردو کے رشتہ میں فصیل کھڑی کردی ۔ انگریزی زبان کے بروکر عوام کو قائل کرتے ہیں کہ تمہاری اولاد کی ترقیاں صرف اور صرف انگریزی زبان میں پنہاں ہیں۔ ہمارے ملک میں دینی مدارس ، علماء کرام ، پیران عظام اور علوم شرقیہ کے روشن ستارے آسمان علم و فن پر روشن ہیں لیکن کوئی بھی حکمرانوں یا عوام کی سوچ تبدیل کرنے پر کیوں کمر بستہ نہیں ہوتا بلکہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق اپنی اولادوں کو بھی فرنگی کے رنگ میں رنگ رہے ہیں۔ صلیبیوں کے انگریزی کے نفاذ پیچھے بڑے بڑے مکروہ مقاصد ہیں۔ کبھی راولپنڈی میں گورڈن کالج کے ہوسٹل میں نوجوان لڑکیاں بھی حصول تعلیم کے بہانے رہاکرتی تھیں۔ پھر بغیر نکاح کے کئی صاحب اولاد ہوگیئں اوربرضا و بغیر رضا کے جو گل کھلتے رہے انکے بارے لکھتے ہوئے بھی شرم کے مارے سر جھک جاتاہے۔ مری کا لارنس کالج بھی اس بارے مشہور تھا۔کئی مسلمان لڑکیوں نے صلیبیوں سے نکاح بھی کرلیئے ۔ انہیں حرام حلا ل کا شعور ہی نہ تھا۔ اہل مغرب خاص طور پر برطانیہ جنسی آزادی میں صف اول کے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں مردوزن اور مردومرد اختلاط خاص وہاں کے قوانین کے تحفظ میں جاری ہے۔ ابھی کل ہی نیٹ پر ایک مضمون پڑھ کرپتہ چلاکہ برطانیہ میں 12 سالہ طالبہ اپنے 13 سالہ ہم جماعت و ہم مکتب دوست کے فیض سے ایک بچے کی ماں بن گئی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔ وہاں کے سابقہ وزیراعظم صاحب کے دادا جان بھی اس طرح نسل گم گشتہ تھے ،مادر نا ہنجار کہیں چھوڑ گئی اور کسی لاوارث سنٹر میں پلے۔ اسی لیئے وہاں کوئی خاندانی نظام نہیں ۔مغربی ممالک اور امریکہ میں جنسی اعتبار سے انسان اور دیگر حیوانات میں مساوات اور جمہوریت ہے۔ انکے وزیر اعظم نے ہمارے شریف وزیر اعظم کو بھی ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیئے فرنگی چفالوں کا استعمال کرکے انہیں بوتل میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ صرف باتوں تک نہیں بلکہ اس کارخیر کے لیئے پلے سے پیسہ بھی دیں گے۔ خواتین اساتذہ کو بطور خاص انگریزی پڑھائی جائیگی۔ پھر وہ آموختہ کی بنا پر انگریزی زبان کی حقیقی برکات سے مستفیذ کریں گی۔

عورتیں شیطانی جال ہیں۔ فحاشی اور بے راہ روی کے لیئے ابلیس کی نگاہ انتخاب انہیں پر پڑتی ہے۔ قارئین جانتے ہیں فرنگیوں نے ہمارے ہندوستان پر قابض ہوکر ہمارے نظریاتی اور مالی اثاثوں کا کیا حشر کیا؟کیا پھر وہی تاریخ دہرانے کی تیاری شروع ہوگئی ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کے جوان ہوتے ہی اسکی شادی کردو۔ اب دیکھیں کہ برطانیہ جیسے پاکیزہ معاشرے میں بارہ سالہ لڑکی تیرہ سالہ لڑکے سے بارآور ہوگئی ۔ حکومت سندھ اور سندھ اسمبلی کے ہوشمندوں سے کوئی پوچھے کہ تم نے اٹھارہ سال سے پہلے نکاح پر تو پابندی لگادی مگر برطانیہ والے لڑکے و لڑکی کی اگر تمہاری لڑکیوں اور لڑکوں نے تقلید کی تو کہاں جاؤگے؟ کیا مسلمان معاشرے میں تمہیں عزت ملے گی؟ کچھ شرم و حیا کرو۔ پاکستان بننے کے بعد کافی عرصہ تک لڑکے لڑکیا ں شرماتے تھے۔ ایک لڑکا اپنی کلاس فیلولڑکی سے گہری دوستی رکھتا تھا۔ لڑکی نے اسے اپنے گھر پر بلا لیا۔ مرتا کیا نہ کرتا اس دور میں محبوبہ کے گھر جانا خطرناک اورمعیوب سمجھا جاتا تھا۔ خیر وہ چلا گیا۔ لڑکی نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا اور دونوں نے ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال دیں(اس دور میں پیار کی یہی انتہاہوتی تھی)اتنے میں سائیڈ کا دروازہ کھلا اور لڑکی کے والد محترم نازل ہوئے۔ انہیں دیکھتے ہی لڑکے کے ہوش اڑگئے اور ایک دم کھسک کر دور ہوگیا۔ لڑکی نے اسے پکڑا اور کہا کوئی بات نہیں پاپا is کھلا ڈلا مین۔ والد محترم مسکرائے تو لڑکے کی جان میں جان آئی۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ حالات نے کئی کروٹ لیئے اب پاپا کے کھلا ڈلا ہونے سے بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں جہاں صرف بڑے لوگوں کے فرزند اور فرزندیاں پڑھتے ہیں نویں جماعت کی طالبہ بھی برطانوی لڑکی کی طرح جب بوجھل ہوئی تو باپ نے اسے سکول سے اٹھالیا کہ یہاں تو بڑی بے غیرتی ہوتی ہے۔ حالانکہ ماحول تو انکا دیکھا بھالا تھا۔ پہلے گھروں پر ٹیلی فون ہوتے تھے تو معاملا ت اس قدرخراب نہ تھے مگر اب تو موبائل کی برکتوں سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ کسی قوم کو برباد کرناہوتو انہیں جنسی مریض بنا دیا جائے ۔ جنسی فطری تقاضے پورے کرنے کے لیئے اﷲ اور اسکے رسول ﷺ نے حدودمقرر فرمادیں۔نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ انکی توجہ حصول علم اور تعمیر شخصیت تک رہے۔ بے تکی قانون سازیاں نہ کی جائیں ۔ جو کام اسلامی مشاورتی کونسل کا ہے اسے کرنے دیں اور اس پر حکومتوں کو عمل کرناچاہیئے۔لڑکیوں اور لڑکوں کے جوان ہونے کے بعد حسب حالات نکاح کردیں ۔ میں یہاں دینی مدارس کے صاحبان، علما کرام، پیران عظام ، مشائخ عظام اور دانشور صاحبان سے پرزور اپیل کروں گا کہ جہاں وہ آئے روز طرح طرح کے احتجاجی پروگرام کرتے ہیں ، دھرنے دیتے ہیں تو اجتماعی طور پر ملک اور قوم کو اپنی منزل تک پہنچانے کیلیئے اسلامی نظام کے نفاذ، قومی زبان کے نفاذ اور بے حیائی کے خاتمہ کے لیئے میدان میں نکلیں،احتجاج کریں، دھرنے دیں جو کچیھ ہوسکتا ہے کریں لیکن منزل حاصل کریں۔ اسی میں اﷲ اور رسول ﷺ کی رضا ہے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140656 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More