کہتے ہیں انسان کی پہچان اس کے
بات کرنے کے انداز سے ہوتی ہے،اگر وہ اچھے اخلاق کا مالک ہے تو لوگ اسے
اچھا انسان سمجھتے ہیں،لیکن اگر وہ برے اخلاق کا انسان ہے اور لوگوں سے بات
کرتے وقت دوسرے کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتا تو لوگ اس سے دور رہنے میں
ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور یہ ایک فطری عمل ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں
ہو سکتا۔جس گھر میں اچھے اخلاق والے لوگ ہونگے وہاں کا ماحول بھی فطرتی طور
پر اچھا ہی ہوگا چھوٹے اپنے بڑوں کی عزت کریں گے اور بڑے اپنے چھوٹوں سے
شفقت سے پیش آئیں گے اسی طر ح ایک خوشحال معاشرہ جنم لے گا۔اﷲ پاک قرآن
مجید میں فرماتے ہیں کہ اے انسان ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا
کیا اور پھر قبیلوں اور گروں میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
ی
ہی گروہ اور قبیلے جب مل جاتے ہیں تو ایک ملک بن جاتا ہے جہاں مختلف
قومیتوں،زبانوں،فرقوں اور تہذیبوں کے لوگ رہتے ہیں۔اگر وہاں کے لوگوں کے
درمیان باہمی محبت اور عزت کا رشتہ ہے تو وہ ملک ایک پر امن اور خوشحال ملک
بن جاتا ہے،لیکن اگر وہاں تہذیبوں اور گروہوں میں اختلافات شروع ہوجائیں تو
اس سے خانہ جنگی کی فضاء پیدا ہوجاتی ہے اور ملک پستی کی منازل طے کرنا
شروع کردیتا ہے۔دنیا میں دو سو سے زیادہ ملک آباد ہیں،ہر ملک کی اپنی شناخت
ہے،وہاں کا کلچر،سوچ،رہن سہن ،زبان دوسرے ملک سے جدا ہے،مسلمان ممالک کی
تعداد ستاون۵۷ ہے،زبان الگ ہے مگر یہ ممالک مذہب،سوچ،عقیدہ اور جذبات کی
بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔پاکستان اسلامی دنیا میں بالخصوص اور
دنیائے عالم میں بالعموم ایک شہرت کا حامل ہے یہاں کے بسنے والے لوگوں کی
اکثریت مسلمان ہے،مسلمانوں کی اکثریت اسلامی بھائی چارے اور اخوت کے رشتے
میں بندھے ہوئے ہیں ۔
پاکستان دنیا کا ساتواں ملک ہے جس نے ایٹمی قوت حاصل کرلی ہے،پاکستان کا
ایٹمی دھماکے کرنا دنیا کو ایک پیغام تھا کہ پاکستان کے بسنے والے لوگ
تیسری دنیا کے نہیں ہیں،ہم بہت محنتی اور قابل لوگ ہیں،ہم اگر سوئی نہیں
بنا سکتے تو کیا ہوا ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے،ہم دنیا کی بہترین فوج ہونے
کا اعزاز رکھتے ہیں،ہماری آئی ایس آئی دنیا کے لئے خوف کی علامت ہے،
پاکستان کے ظاہری اور باطنی دشمنوں کے لئے آئی ایس آئی موت کا فرمان بنی
ہوئی ہے۔پاکستان کے لئے دنیا کہتی ہے کہ یہاں تعلیم کا معیارصحیح نہیں یہ
ملک کبھی بھی ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا ان کے لئے عافیہ صدیقی،عارفہ
کریم،بلال حیدر،معین احمد اور ان جیسے نہ جانے کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں جنھوں نے اپنی محنت سے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔دنیا کی تاریخ
میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جو اتنے عظیم کارنامے سر انجام دیتا رہا ہے
اور اگر اﷲ نے چاہا تو آئندہ بھی دنیا کو حیران کرنے کے لئے پاکستانی ایسے
کارنامے سر انجام دیتے رہیں گے۔اٹھائیس مئی 1998میں جب بھارتی جارحیت کو
قابو میں کرنے کے لئے پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو دنیا ورطۂ حیرت میں
رہ گئی کہ کھانے کی بنیادی چیزیں تک باہر سے منگوانے والا ملک آخر کس طرح
ایٹم بم بنا سکتا ہے، پاکستان نے پہلے ۵ دھماکے کئے اس کے دو دن بعد مزید
دو دھماکے کرکے دنیا میں اپنی دھاک جمادی۔امریکہ کے ماہرین نے اس موقع پر
یہ کہا کہ پاکستان نے مزید ۳ سے ۵ دھماکے کیے ہیں جبکہ سچ تو یہ تھا کہ وہ
سائز میں چھوٹے ضرور تھے مگر اسمیں ایٹمی مواد زیادہ موجود رتھا جسکی وجہ
سے امریکہ کو شرمندگی ہوئی کہ اس نے تو ۳ سے ۵ کا کہا مگر ۲ نے ہی ایسا
کمال دیکھا دیا۔
پاکستان نے امریکہ کا دہشتگردی کی اس نام نہاد جنگ میں حصہ بن کر بے پناہ
نقصان اٹھایا ہے یہاں کے رہنے والے لوگوں نے اپنی جانوں اور مالوں سے اس
جنگ کی قیمت چکائی ہے،پاکستانی افواج نے سب سے زیادہ اپنے سپوتوں کی لاشیں
اٹھائیں ہیں مگر ان سب کے باوجود دنیا نے پاکستان سے ہمیشہ ہی ڈو مور کی
فریاد کی ہے۔اور کبھی بھی پاکستان کی اس جنگ میں خدمات کو عزت کی نظر سے
نہیں دیکھا گیا۔پاکستان کی معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اس دوران
پاکستان اندورنی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔جگہ جگہ خودکش دھماکے ہورہے ہیں
،بے گناہ پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں ،دنیا کو یہ نظر نہیں
آرہا۔اس نام نہاد جنگ میں اب تک چالیس ہزار پاکستانی لقمۂ اجل بن چکے ہیں
اور معاشی حالت بھی بہت بری ہے مگر ان سب کے باوجود پاکستان قائم و دائم
ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ پاکستان کے حالات بہت برے ہیں،پاکستان میں تعلیمی معیار
بہت پست ہے،جی ہاں پاکستان کے سیاستدان کرپٹ ہیں،پاکستانی مسلمانوں پر دہشت
گرد ہونے کا سٹیمپ لگا ہوا ہے،ہم سب مانتے ہیں ان سب خرابیوں اور نہوستوں
کے باوجود ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں،مانتے
ہیں کہ پاکستان میں زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات کی کمی ہے مگر پھر بھی
ہمیں اپنے ملک سے پیار ہونا چائیے۔آج کے پاکستانی سے اگر یہ سوال کیا جائے
کہ محترم آپ کی خواہش کیا ہے تو وہ فوراًکہتا ہے کہ امریکہ میں جابسنے کا
خواب ہے،اگر ان سے پوچھا جائے کہ جناب پاکستان میں کیا مسئلہ ہے تو جواب
آتا ہے کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے جو ہم یہاں رہ کر سڑتے رہیں، یہی
سوچ آج پاکستان کی بنیادوں کو کھوکلا کررہی ہیں،اس کے برعکس سوچ تو یہ ہونی
چائیے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے ؟اگر ہماری سوچ یہ ہوجائے تو کوئی
وجہ ہی نہ رہے اس ملک کو چھوڑ کر جانے کی۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا
واحد ملک ہے جو رہنے کے لائق ہے،یہاں چھوٹوں سے پیار ،بڑوں کا احترام کرنا
قابل تحسین عمل ہے، اگر کوئی قدرتی آفت اس ملک پر حملہ آور ہوتی ہے تو تمام
اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری قوم اس جسم کی مانند ہوجاتی ہے اس
کی واضح مثال 8oct 2008کے زلزلہ ہے جب پاکستان کے شمالی علاقوں میں اﷲ کی
طرف سے خوفناک زلزلہ آیا جس میں بیشمار ہلاکتیں ہوئیں اور بہت بڑے پیمانے
پر تباہی آئی مگر پاکستانی قوم اس جسم کی مانند متاثرین کی امداد کے لئے
حاضر ہوئے اور پھر دنیا نے وہ مناظر دیکھے جو شاید کی کبھی دیکھنے کو ملے
ہوں ،اپنا غم بھلا کر اپنے پاکستانی بھائی کی مدد، اپنے گھروں کے دروازے
متاثرین کے لئے کھول دینا اور دیگر امدادی کام اس رفتار سے کئے گئے کہ دنیا
بھی رشک کرنے لگی ،اس امداد میں کراچی والوں نے دل کھول کر رکھ دیا اور
متاثرین کو فوری مدد کے لئے خود کو میدان میں لاکھڑا کیا۔
اﷲ پاک نے یہ ملک ہمیں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد اپنے خاص فضل سے
دیا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چائیے،پاکستان دنیا کے اس خطے میں آباد ہے جس
علاقے کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آتی
ہیں﴿صحیح بخاری﴾۔پاکستان کو اس حدیث کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تو
پاکستانی ہونے پر ناز ہونا چائیے کہ یہ وہ سر زمین ہے جو اسلام کا قلعہ ہے
اور یہی سے دین اسلام کے قافلوں نے دنیا میں اسلام کے لئے نکلنا ہے،
پاکستان آج اسی لئے عالم کفر کے لئے کانٹا بنا ہوا ہے کہ پاکستان کے رہتے
ہوئے دنیا سے مسلمانوں کے خاتمے کا خواب کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ
کفار کے ان ناپاک عزائم کے درمیان ایک آہنی دیوار پاکستان کے نام کی کھڑی
ہے جو مسلمانوں کی بقاء کی خاطر کسی بھی حد تک جاکر کفار کا ملیا میٹ کرنے
کی صلاحیت رکھتی ہے یہی خوف اب بھی پاکستان کے دشمن ممالک کو لاحق ہے کہ
پاکستان کے ہوتے ہوئے انکے مضموم مقاصد کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔
پاکستان اﷲکی طرف سے ہم پر ایک نعمت ہے، ہمیں اﷲ کی اس نعمت کو اپنے لئے
باعث فخر سمجھتے ہوئے اس کی قدر کرنی چائیے، اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی
استطاعت کے مطابق حصہ ڈالنا چائیے،پاکستان رہے گا تو ہمارا وجود محفوظ
ہوگا،ہمارا کام پاکستان کا نام روشن کرنا ہونا چائیے ناکہ اس کے نام کو
دنیا بھر میں بدنام کرنا جیسا کہ آج کل کے صحافی حضرات اور حکومتی اہلکار
اپنے ذاتی مفاد کو خاطر میں لاتے ہوئے پاکستان کا منفی چہرہ دنیا کے آگے
رکھ رہے ہیں ،ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟کیا اﷲ نے پاکستان کو ایسی لئے بنایا
ہے کہ یہاں موجود لوگ ایکدوسرے سے لڑ لڑ کر مر جائیں ؟ہرگز نہیں پاکستان پر
اﷲ نے اپنی رحمت کا سایہ کیا ہوا ہے ،اور انشاء اﷲ یہ رہتی دنیا تک کے لئے
دنیا کے نقشے پر موجود ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ موقع کی نذاکت کو
سمجھتے ہوئے ہمیں مل کر اس ملک کی تعمیر کرنی ہے تاکہ اس ملک کو دنیا کا
عظیم ترین ملک بنایا جاسکے ۔ایک گھر میں رہنے والے چار لوگوں میں اختلاف کا
ہونا فطری عمل ہے لیکن اگر کو ئی بیرونی طور پر کو سازشی عنصر انکے درمیان
دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو ان چاروں کو ایک جان ہونا ہی پڑتا ہے ، یہی
پاکستانیوں کو بھی کرنا چائیے،آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی
مفاد کی خاطر ایک جان ہونے میں ہی اس ملک کی سلامتی اور بقاء ہے۔اﷲ سے دعا
ہے کہ وہ اس ملک پاکستان کو سلامتی اور امن کا گہوارہ بنادے اور اسے دن
دگنی رات چگنی ترقی سے نوازے اور اسے ایک عظیم ترین ملک کی حیثیت سے نمایاں
فرمائے……آمین |