ایک انتہائی خوبصورت باریش اور
نورانی چہرہ والے صاحب درس دے رہے تھے۔ انسانیت کی خدمت، حقوق کی ادائیگی،
اکرام مسلمین ، اﷲ کی بڑائی ، کبریائی، جنت کا شوق اور جہنم سے نجات، اﷲ کی
مخلوق کا تعلق اﷲ رب العزت سے جوڑنے کے لئے اﷲ کی مخلوق پررحم ، اخلاق
،اپنا حق معاف کرنا پڑے تو معاف کردو ، اﷲ معاف فرمائے آج انسانیت سیدھی
راہ سے بھٹک چُکی ہے۔"اﷲ معاف فرمائے" آج ہم دنیا میں مگن، ساری محنت مٹی
گارے ، مال واسباب اکٹھا کرنے، اور بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف ہے۔ یہ
صاحب تقریباــ ــتھوڑی دیر "بعداﷲ معاف فرمائے" اس درد بھرے لہجہ میں
دہراتے کہ شخص تڑپ کر امین کہتا۔ ان صاحب کے پیارے اوردل گدازانداز ِ بیان
کی برکت تھی کہ محفل میں موجود ہرشخص پوری توجہ سے ہربات سن رہا تھا ۔درس
کا اختتام بڑے رقعت آمیز انداز میں اﷲ کے حضور مانگی گئی دعاسے ہوا۔
میرے دوست نے قریبی ہسپتال سے چیک اپ کے لئے پہلے ہی وقت طے کر رکھا
تھا۔ہسپتال کے استقبالیہ پرموجود صاحب نے بڑے ہمدردانہ لہجہ میں بتایا جی!
ڈاکٹر صاحب موجود ہیں آپ برائے مہربانی اُن کے کمرے میں تشریف لے جائیں
ڈاکٹرصاحب فیس خود وصول کریں گے۔ میں یہاں ایک بار پھر اپنی قسمت پر فخر
اور آج کے دن پر خوشی کا دل ہی دل میں اظہار کئے بنا نہ رہ سکا کہ یہ تو
وہی فرشتہ سیرت انسان ہیں جو ابھی تھوڑی دیر پہلے درس دے رہے تھے۔ خیر ہم
سے پہلے کچھ مریض موجود تھے ۔ ہم بھی ایک طرف بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہر مریض
کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ مریض کو تسلی اور دوا تجویزکرنے کے
ساتھ ساتھ،اُنہیں ادائیگی نمازکی تلقین فرماتے اور آخرت کی فکرکی دعوت دیتے
کہ یہ دُنیا عارضی ہے ۔ یہاں کی بیماری ،دُکھ ، تکلیف ، مصیبت ،عزت،دولت،
شہرت ، کامیابی ،ناکامی سب عارضی ہیں۔ اصل کامیابی اور ناکامی تو روز
ِقیامت کی ہوگی جس کا انحصارنامہء اعمال پر ہے۔ اگر نامہ اعمال دائیں ہاتھ
میں مل گیا تو ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی اور دوسری صورت میں ہمیشہ کی ناکامی
اور بربادی ہے۔ اُنہوں نے ہر مریض کواسی طرح نصیحت کی۔ ان کو دیکھ اور سن
کردل ِمضطرب کوبڑی مدت کے بعد اطمینان نصیب ہوا اور آخرت کی فکرکے ساتھ
ساتھ اپنی سابقہ زندگی جو آخرت کی فکرکے بغیر گزری پرافسوس اور ندامت سی
محسوس ہونے لگی۔ایک ہم ہیں کہ دُنیاکی فکرسے فرصت ہی نہیں رات دن دُنیا
کمانے میں ایک کردیتے ہیں اور ماء شااﷲ ایک یہ صاحب ہیں کہ ہر مریض کی
تشخیص اوردواتجویزکرنے کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکراور نیک اعمال کی نصیحت
فرما رہے ہیں۔
ہم سے پہلے ایک خالصتاََ دیہاتی عورت بیٹھی تھی، پھٹے پرانے کپڑے،ظاہری
حالت اور چہرہ سے صاف ظاہر ہوتا کہ بہت تکلیف میں ہے اورکسی غریب گھرانے سے
تعلق ہے۔یہ عورت ڈاکٹر کے ہر جملہ کے بعدآہستہ آواز میں کہتی ـ"میڈا سوہنا
اﷲ، بہوں توباں ایں "اور پھر تکلیف سے کراہنے لگتی۔ڈاکٹرصاحب نے بوڑھی عورت
سے انتہائی ہمدردانہ لہجہ میں کہااماں جی کیا ہوا، اماں جی کی تکلیف سے
آگاہی کے بعد دوا تجویز کی اور کچھ لمحے فیس کی ادائیگی کے لئے انتظار کیا۔
اماں جی نے ڈرتے اورکانپتے ہونٹوں سے التجا کی بیٹا میں غریب ہوں میرے پاس
پیسے نہیں ہیں۔ اب کیا تھا ڈاکٹرصاحب اپنی سیٹ سے اُ ٹھے اور بوڑھی اماں کو
بازو سے پکڑ کر تلاشی شروع کردی، قمیض جیب کے بغیرتھی، تہہ بندکے ایک پلو
سے کوئی سوڈیڑھ سوکے قریب مالیت برآمد ہوئی ڈاکٹر صاحب نے غصہ سے اپنی میز
پر پھینک دیئے، یہ رقم ڈاکٹر صاحب کی فیس کے نصف سے بھی کم تھی ۔ بوڑھی ماں
چیختی چلاتی رہی، میرے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں مگر ان صاحب نے مائی
کوبازو سے پکڑ کر باہر نکال دیا۔اس دوران غصہ کی وجہ سے ان صاحب کا لب
ولہجہ اور اس دوران جو الفاظ استعمال کئے تحریر کے لائق نہیں۔پھر ہمیں
مخاطب کرتے ہوئے کہادیکھا یہ چور لوگ ہیں۔ اس کے پاس پیسے تھے لیکن جھوٹ
بولنا ،دھوکہ دینااور دوسروں کا حق مارنا لوگوں کی عادت بن گئی ہے۔پھر میری
طرف متوجہ ہونے کے بعد کہا آپ کیا کہتے ہیں؟ جواب میں بس اتناعرض کیا کہ اﷲ
معاف فرمائے۔
باطل کے غلاموں کی ہے تکفیر بھی کھوٹی۔۔۔۔اس دیس کے سالار کی ہے شمشیر بھی
کھوٹی
بولنا تو آسان اور کلام کی آرائش بھی آسان ہوتی ہے مگر عمل کرنا اور اپنے
آپ کو بڑے کاموں اور بلند اقدار میں ڈھالنابہت مشکل ہے ۔آج ہم میں سے کوئی
بھی اپنا کردار اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ترجمہ:-ــ"کیا تم
لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ حالانکہ تم
کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔" (۲:۴۴)
ہرپیشہ اور شعبہ قابل احترام ہے۔میری تحریر کا مقصد کسی پیشہ، طبقہ، گروہ
یا جماعت پر تنقید کرنا ہرگز نہیں اور نہ ہی کسی ادارے ،پیشہ کی ناقدری اور
کسی فردِواحد کی بے توقیری مرادہے۔ بے شک دین ِاسلام کی ترقی وترویج کی
محنت جوکسی بھی صورت میں وعظ ،تقریر، تحریر، انفرادی حیثیت سے یا کسی جماعت
اورملکی سطح پرہورہی ہے دنیاوی تقریرو تحریراور محنت سے افضل ہے ۔ ہزارہا
صلوۃوسلام ہوں اس طلعت زیبا پرجس کی آمد سے گلشن ِ عالم میں بہار آگئی اور
انسانیت کو شرف حاصل ہواکہ بحیثیت آپ ﷺ کے اُمتی ہونے کے ناطے دعوت کی محنت
بلاتفریق رنگ ونسل، امیر غریب، جوان بوڑھے ، مرد عورت ،بادشاہ و فقیرہر
مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے ۔ عرض یہ ہے کہ وعظ ،تقریرو تحریرکے ساتھ یہ
اخلاق حسنہ ہماری عملی زندگی میں بھی نظر آئیں اگر کہیں ہمیں اپنا حق معاف
کرنا پڑے تو اﷲ کی رضا کے لئے معاف کردیں۔ بے شک اﷲ رب العزت دلوں کے حال
سے خوب واقف اور اپنی رحمت سے ہر انسان کی غلطی اور کوتاہی معاف کرنے پر
قادرہے۔ اﷲ رب العزت اپنے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکے لائے ہوئے
دین کوغلبہ عطاء فرمائے ۔ہمیں دین اسلام کی محنت کرنے اور پورے دین پر عمل
کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ اﷲ رب العالمین ہمیں اسلام کی سربلندی اوراسے
پورے عالم میں پھلانے کا ذریعہ بنائے
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے
عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما
آمین ثم آمین یارب العالمین۔
اللھم ارحم امۃَ محمدِِرحمۃََعامۃاللھم اصلح ا مۃَمحمدﷺ |