کوہ قاف کے پُر اسراراور دشوار گذار راستوں پر گمشدہ
کہانیوں اور زندگی کے اسرار ورموز کی کھوج میں رواں دواں ’’ روبینہ نازلی‘‘
کو کبھی گلپوش وادیوں کی گہرائیاں اور سبزہ پوش پہاڑوں کی چوٹیاں فکر و
دانش کی نئی نئی راہیں دکھلاتی ہیں تو کبھی درختوں سے ٹکرانے والی تیز
ہوائیں زندگی کے ساز میں ڈھل کر اُنکی روح میں اُترتی چلی جاتی ہیں ۔اُنکی
وسعتِ نظر اور سوچ کی پرواز اُنکے قدموں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے
۔اُنکے سفر کی ایک منزل ’’کہانی ‘‘ ہے۔یہاں وہ کچھ دیر سستانے کے بہانے
بیٹھ کر اپنے مشاہدات اور انوکھے تجربات کی پوٹلی سے مختلف اقسام کے زر
وجواہر باہر نکالتی ہیں ۔اُنکی تراش خراش کرتی ہیں ۔انہیں سوچ کا پیر ہن
عطا کرتی ہیں اور اپنی ’’کہانی‘‘ کا جاندار کردار بنا دیتی ہیں ۔
’’کہانی ‘‘میں انکی سوچ کے تراشے ،جب اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو’’ روبینہ
نازلی‘‘ کو دنیا بازیچۂ اطفال نظر آتی ہے ۔جس میں ہر ایک اپنا کردار ادا کر
رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مشکل ،پیچیدہ اور ناہموار راستے اُنہیں
کشادہ اور واضح نظر آتے ہیں ۔ان راستوں سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو
سبک رفتاری سے تاریکیوں کا تعاقب کرتی ہیں ۔ایسی تاریکیاں جن کو انسا ن
اپنی جہالت اور خود غرضی کے باعث محسوس نہیں کرتاانہی تاریکیوں میں وہ
شعورِ آگہی کے خیمے نصب کرتی ہیں۔جن سے روشنی کی ہلکی ہلکی کرنیں غیر محسوس
طریقے سے رگ و پے میں اُتر کر روح کو پاکیزگی اور آنکھوں کو روشنی عطا کرتی
ہیں-
فن میں تخلیقی سطح پر غیر معمولی ’’ضبط وانضباط‘‘ نظر آتا ہے ۔آہستہ آہستہ
اور اعتدال سے چلنے والا ’’روبینہ نازلی‘‘ کا قلم قاری کو اپنی گرفت میں لے
لیتا ہے۔جو رفتہ رفتہ وابستگی اور وارفتگی کے مراحل تہ کرتا ہواخود کہانی
کا کردار بن جاتا ہے ۔اور کہانی کے اختتام کے ساتھ ہی وہ سوچ کی گہری وادی
میں اُترتا چلا جاتا ہے ۔اور پہروں اسکی سحر آفرینی سے باہر نکل نہیں پاتا
۔
انکا افسانہ ’’وہ کون تھی‘‘جدت اور قدامت کا حسین امتزاج ہے۔مؤثر اندازِ
تحریرکے باعث قاری اپنے آپ کو کہانی کا ہیرو محسوس کرتا ہے ۔اور کہانی کے
اختتام میں ایک اہم انکشاف کے بعد اگر کہانی کا ہیرو ایک ہفتہ حالتِ بخار
میں بستر پر پڑا رہتاہے تو کہانی میں منہمک ہونے والا خود ساختہ ہیروبھی
کئی روز تک حالتِ خوف سے باہر نہیں نکل پاتا ۔
جانور اور انسان میں کتنا فرق ہے اشرف المخلوق،جانور کب بن جاتا ہے ۔انکی
کہانی ’’جانور‘‘ ایک دلچسپ انوکھی طرز کی واردات اپنے اندر رکھتی ہے ۔جسمیں
کرداروں کی ظاہری سے زیادہ داخلی کیفیات کا اظہار ہے ۔بلکہ یہ کہنا بے جا
نہ ہو گا کہ بظاہر خوبصورت اور دلکش نظر آنے والے انسان کے اندر نجانے کتنے
بھیانک اور خونخوار درندے چھپے ہیں ۔
امکان اور ایقان کے سوال سے الجھی کہانی’’شعبدہ‘‘ایک پر اسرارکہانی ہے۔کسی
فلم کے خوفناک اختتام کی طرح ،کہانی کا اختتام قاری کے ذہن پر گہرے اور
انمٹ نقوش چھوڑ جاتاہے۔اور کہانی کے آخر میں بریکٹ میں یہ لکھ کر کہ یہ سچی
کہانی ہے روبینہ قاری کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
روبینہ نازلی کا ’’علم الانسان‘‘ ، ’’علم الروح‘‘ اورانسانی نفسیات کا وسیع
مطالعہ ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ انکی معاشرتی مسائل پر گہری نظر انکی تحریر کردہ
کہانیوں میں جا بجا نظر آتی ہے ۔اگر وہ کھیت ،کھلیانوں ،پگڈنڈیوں اور گاؤں
کے چوپال میں جنم لینے والی کہانیوں کے پسِ منظر میں انسانی رویوں ،معاشرتی
مجبوریوں اور محرومیوں سے آشنا ہیں تو کوئیں کی منڈیر پر بیٹھے عاشق کی
بانسری کی لے میں چھپے درد اورکرب سے بھی واقف ہیں ۔
انکی کتاب ’’علم الانسان ‘‘انسان اور روح پر ایک شاہکار کتاب ہے جو اہلِ
نقد ونظرکے لیے بیش قیمت سرمایہ ہے توطالبانِ علم پر علوم کے کئی باب وا
کرتی ہے ۔انکے شعری مجموعے،(دریچۂ دِل)کالموں پرمشتمل کتاب( ’’دیدۂ بینا
‘‘) اور زیرِ نظر ’’کہانی ‘‘گلستان ادب میں ایک انمول اضافہ ہے۔
روبینہ نازلی کا پُر اسرار سفر جاری ہے۔۔۔۔۔!
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف ا کیڈمی۔جرمنی |