احوال ’’آزادی صحافت ‘‘ سیمینارز کا

پاکستان سمیت دنیا بھر میں تین مئی2014کو آزادی صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ صحافتی برادری کی جانب سے آزادی صحافت کے اس اہم عالمی دن کو پورے جوش و خروش سے منایا گیا۔ آزادی صحافت کے تحفظ کے بھرپور عزم کا اعائدہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے کہا ہے کہ 2013میں اپنی فرائض کے انجام دہی کے دوران 11صحافی جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔صحافیوں پر حملوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا سے استثنیٰ حاصل رہا۔اس طرح شہری آزادیوں کے حامل ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان 179ممالک میں سے 159ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان میں اب تک اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کی پاداش میں 54 صحافی اپنی جانوں سے دھو بیٹھے ہیں بڑی تعداد میں صحافیوں کو زخمی کیا گیا۔ پاکستان میں وقتاً فوقتاً صحافیوں کو انتہائی نا مساعد حالات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ درجہ بندی میں پاکستان کو صحافیوں کے حوالے سے دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یعنی صحافیوں کے حوالے سے درجہ بندی میں پاکستان پہلے پانچ خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور اس کا پانچویں نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔وزیراطلاعات پرویز رشید نے عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر کہا ہے کہ حکومت صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ملک کے تمام ادارے اور معاشرے کے طبقے ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حق میں ہیں۔پرویز رشید نے کہا کہ صحافیوں کو بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن حکومت نے ان کو تحفظ دینے کا تہیہ کررکھا ہے۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم جرنلسٹ سان فرنیٹیئر یا سرحدوں سے ماورا صحافی نے ہنڈرڈ انفارمیشن ہیروز کے نام سے دنیا بھر کے سو صحافیوں کی فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان سے سینیئر صحافی ایم ضیا الدین اور جیو ٹی وی کے اینکر پرسن حامد میر کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ایم ضیا الدین نے پینتالیس سال قبل صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا اور آج بھی صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے ایک بڑے اخباری گروپ ایکسپریس ٹرئبیون کے ایگزیکٹویو ایڈیٹر ہیں۔صحافت میں اپنے طویل کریئر کے دوران ایم ضیاالدین مختلف حیثیتوں میں بیس سال سے زیادہ عرصے تک روزنامہ ڈان سے وابستہ رہے۔ایم ضیاالدین نے صحافت میں اکانامک رپورٹنگ یا اقتصادی امور پر رپورٹنگ اور تجزیاتی کالم لکھ کر نام کمایا لیکن ڈان میں ملکی سیاست پر ان کے بے لاگ تبصرے اور کالم بھی قارئین میں یکساں مقبول ہوئے۔روزنامہ ڈان کی طرف سے وہ لندن میں بھی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ایم ضیا الدین کو اپنی غیر جانبدارنہ رپورٹنگ اور بے لاگ تبصروں کی بدولت پاکستان کی صحافت میں جو عزت اور وقار حاصل ہوا وہ بہت کم صحافیوں کے حصے میں آتا ہے۔ضیاالدین پاکستان میں فوجی اور جمہوری حکمرانوں کے لیے ہمیشہ ہی ایک ناپسندیدہ صحافی رہے۔ اپنی تحریروں کے علاوہ وہ اپنے سوالات سے بھی حکمرانوں کو کبھی نہیں بھائے۔لندن میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف سے ایک سوال کرنے پر پرویز مشرف نے پاکستانیوں سے اپنے خطاب میں ان کے بارے میں کہا کہ ایسے صحافیوں کو اگر ایک دو ٹکا بھی دیے جائیں تو برا نہ ہوگا۔ضیاالدین ہمیشہ سے آزادی صحافت کے عالم بردار رہے ہیں اور اس کے لیے صحافیوں کی مختلف تحریکوں کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔حامد میر کا نام بھی صحافت کے سو ہیرو کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ حامد میر پر حال ہی میں کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور جس میں وہ بال بال بچ گئے۔حامد میر جیو ٹی میں اینکر بننے سے پہلے اردو زبان کے کئی روزناموں میں کام کر چکے ہیں۔لاہور میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے زیر اہتمام ایوان اقبال میں رانا محمد عظیم کی سربراہی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں شرکا نے آزادی صحافت کے لئے قربانیاں دینے اور صعوبتیں برداشت کرنے والے صحافیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ پاکستان کی بقا سیاسی،صحافتی ، جمہوری اور آئینی اداروں کی آزادی میں ہی مضمر ہے ،حامد میر سمیت کسی بھی صحافی پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کی شدید مزمت کرتے ہیں اور اس کے رد عمل کے طور پر غیر ذمہ دارانہ بیانات پر بھی ہمارے تحفظات ہیں مگر ہم کسی بھی صحافتی ادارے کی بندش قبول نہیں کریں گے، صحافتی اور ملک کی آزادی کی بقا کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اقبال آدیٹوریم میں منعقدہ سیمینار میں ملک کے طول عرض سے آئے ہوئے مختلف یونینز کے سینکڑوں نمائندوں کے علاوہ وفاقی وزیر برائے شپنگ کامران مائیکل، صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ ، سینیٹر جہانگیر بدر، رکن اسمبلی شفقت محمود، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر پنجاب میاں محمد اسلم، پارلیمانی لیڈر ایم کیو ایم سندھ اسمبلی رشید گوڈیل، جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم، سلمان غنی ،پی ایف یو جے کے سینئر رہنما عبادلحمید چھاپڑہ، خاور نعیم ہاشمی، آئی ایف جے کے مشیر پرویز شوکت، ایپنک چیئرمین ناصر نقوی، ناصر زیدی ،پاکستان ایسوسی ایش آف فوٹو جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری محمد رمضان،آل پاکستان سائبر نیوز سوسائٹی کے میڈیا کو آرڈنیٹر ممتاز حیدراور سول سوسائیٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔سیمینار میں کراچی سے آئے ہوئے بزرگ صحافی عبدالحمید چھاپڑہ نے کہا کہ وہ اپنے لگائے ہوئے پودے کو پروان ہوتے دیکھ کر بہت خوش ہیں ۔ انہوں نے آزادی کی خاطر کوڑے کھانے والوں اور اپنی جانیں تک قربا کرنے والے صحافیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اب کسی آمرکوآزادی چھیننے کی جرات نہیں ہو گی۔ سیمینار میں سینیئرصحافیوں اور ورکنگ جرنلسٹوں کی خدمات کے اعتراف میں ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے قریب صحافیوں کو ایواڈز دئے گئے۔ سیمینار کے اختتام پر ایوان اقبال تا الفلاح چوک تک ریلی نکالی گئی جس میں سیمینار کے تمام شرکا نے حصہ لیا۔الفلاح چوک میں شرکا نے شہدا آزادی صحافت کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔ لاہور پریس کلب سے پنجاب اسمبلی تک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کی قیادت میں بھی آزادی صحافت ریلی نکالی گئی۔جس میں سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے خورشید عباسی ،چیئرمین ایپنک شفیع الدین اشرف ، سیکرٹری جنرل اکرام بخاری ،صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری، سیکرٹری محمد شہباز میاں اور صدر پنجاب یونین آف جرنلسٹس وسیم فاروق شاھدسمیت ملک بھر سے آئے صحافی رہنماؤں ،صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران،صدر پشاور پریس کلب ناصر حسین،صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس عرفان سعید، صدر ملتان یونین آف جرنلسٹس رؤف مان،صدر رحیم یار خان یونین آف جرنلسٹس راناافضل،صدر فیصل آباد یونین آف جرنلسٹس شمس الاسلام ناز،صدر سکردو پریس کلب نثار عباسی،صدر حیدر آبادپریس کلب اسحاق مینگریو،صدر سکھر پریس کلب لالہ اسد پٹھان،لاہور سے پی ایف یو جے کے رہنما رانا شفیق پسروری ،سینٹرل یونین آف جرنلسٹس آزاد کشمیر کے صدر ابرار حیدر سمیت دیگر نے شرکت کی۔اس موقع پر صحافی رہنماؤں نے کہا کہ آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ موجودہ حالات کے حوالے سے جو بھی لائحہ عمل دینگے ملک بھرمیں اس پر عمل کیاجائے گا اور آزادی صحافت پر کوئی سمجھوتہ یا سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ ملک بھرسے آئی خواتین صحافیوں اور پی ایف یوجے کی ایف ای سی کا مشترکہ اجلاس مقامی ہوٹل میں ہوا جس میں سینئر صحافی مجاہد بریلوی ،ناجیہ اشعر، ناجیہ لاکھانی،منیزے جہانگیر اور فہیم صدیقی نے خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل اورانکے حل پر روشنی ڈالی۔ہاؤس نے حکومت اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے یہ مطالبہ کیا کہ دفاتر میں خواتین کو وہ حقوق فراہم کیے جائیں جو عالمی اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ تمام میڈیا ہاؤسز ،پریس کلبز اور یونین کی سطح پر ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی جائیں اورصحافتی تنظیموں کی فیصلہ سازی میں ان کو شریک کیا جائے۔پی ایف یو جے اور ایپنک کے الگ الگ اجلاسوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں چھانٹیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا سلسلہ بند کیاجائے اور لیبر قوانین کے مطابق کارکنوں کو ان کے معاشی حقوق دیئے جائیں۔ میڈیا ہاؤسز ، حکومت سیاسی جماعتوں اوردیگر اداروں کو آئین اور قانون پر عملدرآمد کا مشورہ دینے والے ایسے ادارے خود بھی قانون پر عملد درآمد یقینی بنائیں۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197279 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.