وزیر اعلی پنجاب!قبرستانوں پر قبضہ ایک روایت بنتی جا رہی ہے

قبرستان مسلم طبقہ کی آخری آرام گاہ ہے جہاں پرانسان مرنے کے بعد دنیا وما فیہا سے بے خبر ایک دوسرے عالم میں پہنچ جاتا ہے لیکن بقول شاعر ’’مر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘ کے مصداق بے حس دنیا کے بے ضمیر لوگ اب اس کی آخری آرام گاہ کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ قبرستانوں کی اراضی پر قبضہ کرنا، جانوروں کے اصطبل اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے فلتھ ڈپو بنادینا روز کا معمول بن گیا ہے ایسی ہی کچھ صورت حال کہروڑپکا اور گرد ونواح میں واقع قبرستانوں کی ہے جو کہ انتظامیہ کی نا اہلی اور غیر ذمہ داری کی بناپر روز بروز سکڑتے جارہے ہیں ۔شرابی ،چرسی،نشئی لوگوں نے جا بجا اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں کہیں کسی جال کے نیچے بھنگ کے گھوٹے لگائے جارہے ہوتے ہیں تو کہیں دیوار کے سائے تلے چرسی چرس کا دھواں اڑارہے ہوتے ہیں کہیں قبر کی آڑ میں بیٹھ کرنشے کے انجکشن لگا کر اپنی تسکین کا سامان کیا جارہا ہوتا ہے۔اسی طرح چاردیورای کا نہ ہونا بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے لوگ گزر گاہیں بنا لیتے ہیں ۔اپنے ایکسٹرا سامان کو سٹور کرنے کی خاطر قبرستان کی اراضی کو باپ کی جاگیر سمجھ کر استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ آرے والوں نے اپنی تمام ٹمبر قبرستان میں سٹاک کی ہوتی ہیں مگر انتظامیہ خواب خرگوش میں ہے اور پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔یہی عارضی قبضہ مستقل قبضہ میں تبدیل ہوجاتا ہے پٹواری جو کہ کھیوٹ اور خسرہ کی ہیر پھیر اور ردوبدل کا ماسٹر ہوتا ہے دنیا کمانے کی ہوس میں بے ضمیر وں کے نام وہ رقبہ الاٹ کردیتا ہے اور پھر یہ بے ضمیر اور آخرت کو بھول جانے والے لوگ قبرستانوں کو اپنی ملکیت بنالیتے ہیں اور ان میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں جنہیں دنیا’’ کھاتے پیتے لوگ‘‘ کہتی ہے۔ یہ کھاتے پیتے لوگ ہی قبرستانوں کو بھی ڈکارنے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔کیونکہ غریب تو اس کی طاقت واستطاعت ہی نہیں رکھتا ۔

گذشتہ روز کہروڑپکا شہر میں بھی ایسی ہی ایک کوشش رمضان بھٹی نام شخص کی جانب سے انتظامیہ کی ملی بھگت کی اورشہر کے وسط میں موجود ہندیرا پیر نامی قبرستان کی برلب سڑک کروڑوں روپے کی46 مرلے اراضی پر قابض ہونے کی کوشش کی۔ جس پرصحافیوں اور سماجی و مذہبی تنظیموں نے مداخلت کی۔ لیکن ریونیو انتظامیہ اسسٹنٹ کمشنر، تحصلیداراور بالخصوص مہر شریف پٹواری کی پراسرارخاموشی، سیاسی گرکوں کی قبضہ دلوانے میں بھرپور دلچسپی، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او کی عدم توجہ اور تماشائی پن بہت سے سوالیہ نشان اٹھارہا ہے۔ مثلا کیا ریونیو ڈیپارٹمنٹ حسب سابق بک چکا ہے؟ کیا سیاستدان سے خوف خدا ختم ہوگیا ہے کہ وہ قابضین کو سپورٹ کررہے ہیں۔ کیا عوام کا ووٹ قبروں کا سودا کرنے کیلئے لیا گیا تھا؟ پولیس کا ان معاملات میں چپ سادھنا بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پولیس بھی بھرپور مال پانی لے چکی ہے اور لسی پی کر سکون کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے؟پولیس کی موجودگی میں دیوارگرانے پر عوام اور صحافیوں پر سرعام فائرنگ کرنا پتھر اور اینٹیں برسانا اور ایس ایچ او کا یہ باور کرانا کہ فائرنگ نہیں بلکہ پٹاخے چھوڑے گئے ہیں۔فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار تو درکنار ان سے یہ تک نہ پوچھا جانا کہ فائرنگ کیلئے استعمال کیا جانیوالہ اسلحہ لائسنس یافتہ تھا کہ غیر لائسنس یافتہ؟ کوئی خوف خدا، آخرت کی فکر، مرنے کا ڈر، خدا ترسی اور قبروں کی بے حرمتی کا کوئی شائبہ تک نہیں کوئی شرم کوئی حیا دکھائی نہیں دیتی۔ بس ہوس سوار ہے۔ تادم تحریر قبضہ مافیاشدو مد کے ساتھ سرگرم اور متحرک ہے سیاست، صحافت، انتظامیہ ،پولیس اور ریونیو، کوئی ڈیپارٹمنٹ ایسا نہیں جہاں پر یہ لوگ اپنے تانے بانے بنتے دکھائی نہ دیتے ہوں ۔مخصوص گروپ کے لوگوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے کہ جہاں پر گورنمنٹ یا اوقاف کا لاوارث رقبہ موجود ہو وہاں پر اپنے مخصوص انداز میں مخصوص لوگوں کی مدد سے قبضہ جمالیا جاتا ہے ۔ہندیرا پیر قبرستان میں بھی ایسا ہی کوئی معاملہ پوشیدہ ہے جس کے بارے میں تمام محکموں نے چپ سادھ رکھی ہے اور عوام کوکہا جارہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی تکلیف ہے تو وہ کورٹ میں جاکر stay لے آئے۔یعنی کے انتظامیہ کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ قبرستان پر کیا جانیوالہ ناجائز قبضہ ختم کروائے یا اس کی حد براری کیلئے کوئی لائحہ مرتب کرے ورنہ تو یہ مافیا اس قبرستان کے ساتھ ساتھ دوسرے قبرستانوں کی اس زمین کوبھی ہتھیالے گا۔ اسی طرح پٹھانوں والہ قبرستان، پیر برہان قبرستان، پیلی کوٹھی والہ قبرستان، تھانے والہ قبرستان، بھاندی والہ قبرستان اسی طرح سے لوگوں کی دست برد کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں پر ناجائز قابضین نے قبضہ جمایا ہوا ہے تو کہیں انہیں فلتھ ڈپو بنایا جارہا ہے۔

ایک وقت ہوتا تھا کہ جب ہمارے بڑے (صرف ایک پیٹرھی پہلے) یہ کوشش کرتے تھے کہ عوام الناس کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی اچھا اور مستحسن کام کرجائیں تاکہ دینا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے ۔اس سلسلے میں جہاں اور جب جتنی سکت اور استطاعت ہوتی اس کے مطابق کہیں کوئی نلکا لگوادیتے کوئی پانی کی سبیل مہیا کردیتے ہیں ۔کسی جگہ پر مدرسہ ومسجد کیلئے کوئی رقبہ مختص کردیتے تھے ۔کہیں دنیاوی تعلیم کیلئے سکول کو جگہ الاٹ کردیتے تھے اور بہت زیادہ استطاعت واہلیت کے حامل قبرستانوں کیلئے رہائشی علاقہ جات کے گرد ونواح میں کئی کئی مربعے اراضی وقف کردیتے تھے ۔جس کا صرف اور صرف مقصد فلاح عوام ہوتا تھا۔ان میں ہوس ،طمع،لالچ یا سیاست کرنے کی سوچ ندارد ہوتی تھی اور اس پر وہ نہ تو کبھی فخر کرتے تھے اور نہ ہی اسے بڑائی گردانتے تھے۔ لیکن اب معاملات بالکل معکوس ہوچکے ہیں ۔انہی لوگوں کے سپوت او ر وارثان اپنے آباؤ اجداد کی روح کو زخمی کرنے اوراپنی عاقبت کو خراب کرنے کی نیت سے پٹواری وتحصیلدار سے مل کر وقف شد ہ اراضی کوسیاسی پشت پناہی کی بناپر ان وقف شد ہ رقبہ جات پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔چاہے یہ رقبہ سکول ہوکہ قبرستان انہیں اس سے کوئی غرض وغایت نہیں ہوتی ۔مطمع نظر صرف اورصرف اراضی کو ہتھیانا ہوتا ہے اور وہ ہتھیا بھی لیتے ہیں -

وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور حکومت پنجا ب نے قبرستانوں کو حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم جاری کی ہے جس کا مقصد قبرستانوں کی صفائی ستھرائی ،ان کی دیکھ بھال، چار دیواری،جنازہ گاہ ،پانی کاانتظام وانصرام ودیگر متعلقہ معاملات کو بہتر بنانا ہے تاکہ مرنے والوں کو ظاہری آرام وسکون کی سہولیات باہم مل سکیں اور قبرستانوں کو بے حرمتی سے بچایا جاسکے اور ان کے تقدس کو بحال کیا جاسکے ۔یہ اقدامات وزیراعلی کے کریڈیٹ پر ہیں لیکن جب قبرستان ہی نہیں رہیں گے مرنے والوں کو دوگز زمین بھی میسر نہیں ہوگی۔وہ بھی کراچی اور دوسرے کچھ علاقوں کی طرح خریدنا پڑے گی تو جینا تو مشکل ہے ہی مرنابھی محال ہوجائیگا۔یہ کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعلی،کمشنر ملتان، ضلع لودہراں اور تحصیل کہروڑپکا کی انتظامیہ اور متعلقہ ارباب اختیار کو ہدایات کریں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اس رقبہ اور اسی طرح کے اور جتنے بھی قبرستان ان عناصرکا شکار ہیں، کی فی الفور چاردیواری اور حد براری کریں۔ تاکہ قبرستان اور ان کا تقدس بحال ہوسکے ۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211969 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More