’’جو قومیں اپنی عورتوں کو عزت اور تحفظ نہیں دے
سکتی وہ برباد ہوجاتی ہیں‘‘۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ کی طرف منسوب یہ
جملے حقیقت سے بہت قریب تر ہیں۔ سندھ کی فتح کی ایک بڑی وجہ بھی کچھ ایسے
واقعے سے جڑی ہے۔ اگرسندھ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
راجہ داھر کے غنڈوں نے جب سندھ کے باسیوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی تھی
تو سندھ کی ایک مسلم خاتون نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا اور اپنے ساتھ ہونے
والے مظالم کی آب بیتی بتائی۔ جس پر حجاج بن یوسف نے اپنے نوعمر بھتیجے اور
داماد محمد بن قاسم رحمہ اﷲ کو ایک مسلم خاتون کی عزت کا تحفظ اور اس کا
بدلہ لینے کے لئے روانہ کیا۔ اسی بدلے کی وجہ سے سندھ فتح ہوا اور محمد بن
قاسم ایک کم عمر فاتح بن کر لوٹے۔
آج ہم ایک ماں ، ایک بہن اور ایک بیٹی کے ہونے کے باوجود عورت کے مقام اور
مرتبہ کو نہیں پہچان پائے۔ ایک طرف راجہ داھر کے غنڈے ہیں جو مسلم خاتون کی
عزت کو تار تار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف کراچی یونیورسٹی میں
بیٹھے کچھ درندے ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی ہی بہن، بیٹی کو بے
آبرو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرے سامنے اخبار رکھا تھا اور اس پر موٹی سی سرخی میں یہ خبر تھی کہ جامعہ
کراچی شعبہ ریاضی، سوشیالوجی کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی گئی جس کے
بعد طالبہ روتی ہوئی یونیورسٹی کی چھت کی طرف بھاگی اور خودکشی کی کوشش
کرنے لگی تو اسے پکڑ لیا گیا۔ بعد ازاں شور سن کر انتظامیہ بھی وہاں پہنچ
گئی۔ جبکہ واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری طرف شور سن کر طلبہ و
اساتذہ جمع ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق لڑکی کا لباس بھی کئی جگہوں سے
پھٹا ہوا تھا۔خبر میں یہ بھی تھا کہ جامعہ کی انتظامیہ کی جانب سے متاثرہ
لڑکی اور اس کے گھر والوں کو بدنامی سے ڈرا کر مرضی کا بیان بھی لینے کی
اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
دل دھلا دینے والا یہ ایسا واقعہ تھا جس کو عام خبروں کی طرح نہیں لیا
جاسکتا تھا۔ خبر اس قدر دلخراش تھی کہ اس کی تلخی کو میں نے اپنے وجود میں
محسوس کیا۔ مجھے ایسے محسوس ہونے لگا تھا جیسے خدانخواستہ ہماری بربادی کا
وقت قریب آگیا ہے اور ناجانے کس وقت زمین اپنا منہ کھول دے اور ہم اس میں
دفن ہوجائیں۔
کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک دوست سے میری اس موضوع پر بات ہوئی تو
وہ بھی کافی خائف سے نظر آئے۔ انہوں نے دبے لفظوں میں اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے بتایا کہ ناجانے اس قسم کے کتنے واقعات ہیں جو رونما ہوتے رہتے ہیں
مگر عزت اور جان کے خوف کے مارے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا۔ انہوں نے یہ
بھی بتایا کہ یونیورسٹی کا معیار اب پہلے سے کہیں زیادہ ابتر ہوچکا ہے۔ خاص
طور پر اخلاقیات تو یونیورسٹی کے دہلیز تک رہ گئیں ہیں۔
ان کی باتیں سن کر مجھے ایک انٹر کی طالبہ کے وہ جملے بھی یاد آگئے جو
انہوں نے مجھ سے ایک سروے کے دوران کہے تھے۔ شریں نامی طالبہ سے جب میں نے
کراچی یونیورسٹی میں داخلہ نہ لینے کی وجہ سے پوچھی تھی تو اس نے قدر محتاط
انداز میں کہا تھا کہ مجھے یونیورسٹی کے ماحول سے ڈر لگتا ہے۔ میں
یونیورسٹی میں تعلیم کے معیار کی سے نہیں بلکہ اس میں رہنے والے کچھ عناصر
کی حرکتوں سے خوف آتا ہے۔ اس لئے میں یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے رہی۔
میرے سامنے دو ایسے طلباء کی باتیں تھیں جن میں ایک تو وہاں کا طالب علم ہے
اور دوسری وہاں جانے سے کترا رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے․․․؟ جب میں نے کراچی
یونیورسٹی انتظامیہ سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تو کسی نے بھی بات
کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ دو جملے سب نے کہے کہ واقعے کی تحقیقات کی
جارہی ہے جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
میں نے اپنی زندگی میں اس جیسے روایتی جملے بیسیوں بار سنے ہیں۔
صورتحال اس قدر گھمبیر ہے کہ ایک طالبہ کی زندگی کے ساتھ کھیلا گیا اور بات
ابھی تک تحقیقات پر لٹکی ہوئی ہے۔ متعدد بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلے
ظلم ہوتا ہے اور پھر چپ کرانے کے لئے پیسوں کا سہارہ لیا جاتا ہے اور اگر
میڈیا پر بات آجائے تو پھر کمیٹی تشکیل دے دی جاتی اور کچھ دن کے بعد کمیٹی
کا حتمی فیصلہ سنانے کے لئے ایک اور کمیٹی کا تشکیل دی جاتی ہے اور یوں
کمیٹیاں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں مگر انصاف کا نام بدنام ہوتا رہتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی واقعہ جہاں انتظامیہ پر کئی سوال چھوڑتا ہے وہیں ہمارے
وزارت تعلیم پر بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ یونیورسٹی یا کوئی بھی تعلیمی
ادارے کا مقصد وہاں قوم کو اچھائی کی راہ دیکھانا، بھلائی کا رستہ بتانا،
قوموں کی تعمیر کا کام کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کا بنیادی مقصد
دوسروں کی اصلاح کرنا ہے، انسان سے انسانیت تک کا سفر یہیں پر طے ہوتا ہے
مگر آج کے اس واقعے نے انسان سے درندگی تک کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔ اب
تو شاید شریں جیسی لاکھوں طالبات کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے
ہزار مرتبہ سوچیں گی۔ شاید اب ایسا ہوگا کہ ہر گزرتی لڑکی کراچی یونیورسٹی
کی عمارت کو خوف کی علامت سمجھے گی۔ میری سوچ کی حدیں اب محدود ہونے لگیں
تھیں کہ کیا ہمارے سب سے اہم ترین اداروں میں سب سے غلیظ ترین حرکتیں کرنے
والے گندے ترین لوگوں کو جگہ دی جاتی رہے گی۔ یونیورسٹی واقعہ کے بعد شاید
طالبات کا تعلیم سے جی اٹھ جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا ذمہ دار کون
ہوگا․․․؟ یونیورسٹی انتظامیہ کہ جس نے اس قسم کے عناصر کو جگہ دی ہوئی ہے․․
یا پھر وزارت تعلیم کہ جو اس قسم کے واقعات پر کمیٹیاں تشکیل دے سکتی مگر
انصاف نہیں دلا سکتی․․ یا پھر گورنر سندھ کہ جو واقعے کے بعد نوٹس تو لے
سکتا ہے مگر واقعے سے پہلے انتظامیہ کو پابند نہیں کرسکتا ہے۔ سوالات بہت
ہیں مگر جواب کوئی نہیں․․․․ آخر کون کرے گا انصاف؟ |