پاکستان اسلامی دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے جس
کی اہمیت کا اندازہ موجودہ صورت حال میں بہت ہی اہم ہے خاص طور پر ان خلیجی
ممالک کے لئے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں مگر وہ اپنے دفاع میں مکمل
طور پر خود کفیل نہیں ہیں ان ممالک میں خاص طور پر خلیجی ریاستیں اور سعودی
عرب شامل ہیں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ پاکستانی حکومت کے انتہائی درینہ
تعلقات ہیں چونکہ دونوں اسلامی ملک ہیں اور دونوں کے مسالک سے تعلق رکھنے
والے لوگ پاکستان میں آباد ہیں اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت سعودی عرب
اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن لانا چاہتی ہے جو گذشتہ برسوں سے
خرابی کا شکار ہیں پاکستان مسلم دنیا کے ساتھ ہمیشہ سے تعلقات کو اہمیت
دیتا ہے اور خاص طور پر سعودی عرب جو کہ سنی مسلمان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے
اور ایران جو کہ شیعہ مسلمان کی طرف ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب سعودی
عرب کی طرف سے پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا
امدادی پیکج یا تحفہ اور دوسری طرف ایران کے ساتھ شروع کی جانے والی گیس
پائپ لائن جس کی پاکستان کو سخت ضرورت تھی اس کا یوں اچانک سے یہ کہہ کر
روک دینا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے عالمی برادری کی طرف سے ان پابندیوں کی
خلا ف ورزی ہو گی جو کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے اس پر لگی ہوئی
ہیں ایسے میں ان اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جس طرح کے تعلقات حکومت
پاکستان چاہ رہی ہے وہ کافی مشکل ہیں مگر ناممکن ہر گز نہیں حال ہی میں
پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی اور حکومتی اکابرین نے ایک دوسرے کے ممالک
کے کئی دورے کیے ہیں اس کے علاوہ پاکستان ایران کے ساتھ بھی اپنے روابط کو
بڑھا رہا ہے اور باوجود اس کے کہ پاکستان نے پائپ لائن پر کام کو روک دیا
ہے انتہائی اہم ہے توقع ہے کہ پاکستان کی خطے میں امن کی کوششوں کے سلسلے
میں وزیر اعظم نواز شریف مئی یا جون میں ایران کا دورہ کریں گے ویسے بھی یہ
مسلم امہ کے اتحادکے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر
ہوں اس وقت دنیا میں جو فرقہ وارانہ تقسیم پھیل رہی ہے وہ اسلامی دنیا کے
لیے انتہائی مضر ہے، اور مسلم امہ کا اتحاد ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے سعودی
عرب کی طرف سے دی جانے والی امداد کے بعد پاکستان میں یہ باتیں گردش کرتی
رہی کہ شاید پاکستان اپنے فوجی شام بھیج رہا ہے تاہم وزیر اعظم نے ایک بیان
میں واضح کر دیا کہ پاکستان اپنے فوجی کہیں نہیں بھیج رہے ۔سعودی حکام کی
جانب سے حکومت پاکستان کو گزشتہ دنوں ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد پر پارلیمان
کے اندر اور باہر شدید تنقید ہو ئی کچھ لوگ اسے شام کی صورتحال سے جوڑتے تو
کچھ اسے خطے میں مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی شیعہ سنی کشیدگی کا نتیجہ قرار
دیتے رہے لیکن ا س کے باوجود ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ 1998 میں بھی
جوہری تجربات کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی اور اس کے
لئے تیل اور قیمتی زرمبادلہ بھی دیا تھا ساتھ ساتھ ہر قسم کی سپورٹ فراہم
کرنے کے لئے اقدامات کیے تھے بعد ازاں ایک مشکل وقت میں جب پاکستان کے ساتھ
کوئی نہیں تھا عالمی برادری نے بھی ہاتھ کھینچ لیا تھا 1965کی جنگ زوروں پر
تھی ایران نے پاکستان کے لئے تقریبا مفت تیل مہیا کر کے اسے سہارا دیا تھا
پاکستانی قوم ان کا وہ احسان کھبی نہیں بھلا سکتی اس لئے حکومت پاکستان بھی
ان دونوں اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتی ہے ۔ماضی میں
حکومتوں نے کسی اور ملک کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے مداخلت کی ان تمام
معاملات میں جن میں ہمارا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا ہمیں غیرجانبدار
رہنے کی ضرورت تھی جب ہم نے دوسرے ممالک کے مسائل کو اٹھا کر اپنے سر ڈال
لیا اس وقت دی جانے والی امداد ہمیں اچھی لگنے لگی لیکن ہم اس بات سے بلکل
بے خبر رہے کہ جس فتنے کو ہم پروان چڑھا رہے ہیں کل جب وہ تنا ور درخت بنے
گا تو ہمارے ہی گھلے پڑئے گا اور ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا آج ہم دوسروں
کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ہمارے لئے ایسا کمبل بنا ہوا ہے جس سے ہم جان
چھڑانا بھی چاہیے تو نہیں چھوڑ سکتے ایسے میں مسلم ممالک کا اتحاد ہی ہمیں
اس جنگ سے نکالنے اور ان بحرانوں سے نجات دلانے میں معاون ہو سکتا ہے آج
مسلم ممالک کے ساتھ ہم جوروابط بہتر کرنے کی جستجو کر ہے ہیں اگر وہی جستجو
ہم دس سال پہلے کرتے تو آج کی صورت حال مختلف ہوتی ہمیں دوسروں کی جنگ بھی
نہ لڑنی پڑتی اور ہمارے لئے اتنے معاشی ،معاشرتی ،اور اقتصادی مسائل بھی نہ
ہوتے اس پرائی جنگ نے ہمارے تمام وسائل کو نگل لیا ہماری تمام طاقت کو ختم
کر دیا ہمارے اتحاد کو بگاڑ کے رکھ دیا الغرض ریاست کوئی ایسا ادارہ نہیں
رہا جس کو اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو ۔
آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام اسلامی ممالک سے روابط کو بہتر کیا جائے
ان کے ساتھ تعلقات میں وہی گرم جوشی ،اعتماد،اتحاد و یگانگت لایا جائے جو
اعتماد اور اتحاد و یگانگت ذولفقار علی بھٹو نے لایا تھا تبہی ملک کو ان
اندھیروں سے نجات دلائی جا سکتی ہے اس فتنہ فساد سے چھٹکارا دلایا جا سکتا
ہے ۔ |