مسلم حکمرانوں نے مسلمانوں کی اصل حیثیت کو ایسا داغ
لگایا ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں مسلمان ہی ہیں جو ذلیل و خوار ہو رہے
ہیں۔اﷲ نے مسلمان حکمرانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب تمہیں میں اقتدار دوں تو
تم کو سب سے پہلے جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ نماز کا نظام قائم کرو،زکواۃ
کا نفاذ کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے اپنی رعایا کو روکو۔ان چار
کاموں کو دنیا کا کون سا مسلمان حکمران عملاً کر رہا ہے۔جب مسلم حکمرانوں
کی یہ حالت ہو جائے تو کیا دنیا میں مسلمان عزت کی زندگی گزار سکیں گے؟ساری
دنیا میں مسلمانوں کا جو حال ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔اتنی بڑی
تعداد میں مسلمان دنیا میں موجود ہیں لیکن ہر جگہ ذلت ان پر مسلط ہے۔اگر یہ
کام مسلم حکمران کرتے جس کا حکم اﷲ نے ان حکمرانوں کو دیا ہے تو آج ساری
دنیا میں مسلمان راج کر رہے ہوتے۔جن مسلم حکمرانوں کو اﷲ نے تیل کی دولت سے
مالامال کیا ہے اور اس کی وجہ سے و ہ دنیا کی دولت میں نہا رہے ہیں۔یہ لوگ
دنیا کی امیر ترین مملکت کہلاتے ہیں۔یہ لوگ دنیوی دولت سے تو مالامال ہیں
لیکن دینی دولت ان کے پاس ناپید ہو چکی ہے۔دنیا کی دولت سے کسی کو کبھی
سکون ملا ہے نہ مل سکتا ہے۔کافر لوگ جو آخرت کے منکر ہیں اور دنیا کو ہی سب
کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ان کو تو اﷲ نے ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کو ان کے اچھے
کاموں کا بدلہ بھی دنیا میں دے دیا جاتا ہے اس لئے وہ دنیا میں خوب عیش
کرتے ہیں لیکن مسلمان جو یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی عارضی ہے اور
قیامت کے بعد آنے والی زندگی دائمی ہے جہاں موت نہیں آنی، پھر بھی وہ اگر
کافروں والا رویہ اپنا لیں تو پھر وہ کس طرح فلاح پا سکتے ہیں۔ دین اسلام
کو اﷲ نے تمام مذاہب پر غالب کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ خبربھی دی ہے
کہ یہ دین غالب ہو کر رہے گا۔اب اس دین کو غالب کون کرے گا ؟موجودہ
حکمران؟ایسا تو کہیں نظر نہیں آرہا۔جو اسلامی تحریکیں دنیا میں اس وقت چل
رہی ہیں وہ ہر جگہ مسلم حکمرانوں کے رویہ کی وجہ سے سخت آز مائش کا شکار
ہیں۔ مصر ہو ،بنگلہ دیش ہو،فلسطین ہو،افغانستان ہو،کشمیر ہو پاکستان ہو یا
دیگر دوسرے اسلامی ممالک ہوں جہاں مسلم تحریکیں اﷲ کی زمین پر اﷲ کی
حکمرانی قائم کرنے کی جد و جہد کر رہی ہیں ان کو اپنے ہی حکمرانوں کی بزدلی
کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔پاکستان جس کا قیام ہی اس
پاک سر زمین پر اسلامی نظام کا نفاذ تھا اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود
حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے سودی قرضوں میں جکڑ کر ،سودی معیشت کو
اپنانے کی وجہ سے شریعت کے نفاذ سے مسلسل فرار کی وجہ سے آج اس نوبت کو
پہنچ چکا ہے کہ ملک میں افرا تفری اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔بے سکونی،لا
قانونیت اور جرائم نے ہر جگہ اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے۔مہنگائی،بے روز
گاری،کرپشن کون سی برائی ہے جو ترقی نہیں کر رہی۔لوڈ شیڈنگ نے تمام کارو
بار ختم کر کے رکھ دئے ہیں۔یہ مسلمان جنھیں اﷲ نے بہترین ملت کا نام دیا آج
فرقوں میں بٹ کر سب سے زیادہ پستی کا شکار ہے۔جب تک یہ لوگ فرقوں کے جال سے
نہیں نکلتے ایک ملت نہیں بنتے جسے امت کا نام دیا گیا ہے، ہمارے دشمن ان کو
آپس میں لڑاتے رہیں گے اور ان پر بھوک،افلاس اور بے چینی کے بادل نہیں چھٹ
سکیں گے۔پہلے مسلم رعایا اپنا طرز عمل تبدیل کرے اور پھر اچھے حکمرانوں کو
اقتدار میں لانے کی جدو جہد کرے تب جاکر اس ملک پاکستان کی قسمت جاگ سکتی
ہے۔نسل در نسل آتے رہنے والے حکمرانوں سے جان چھڑائے بغیر ملک میں کوئی
اچھی حکومت کا خواب دیکھنا فضول ہے۔اگر اس پاک وطن کو مزید فتنوں سے نکالنا
ہے تو یہاں پر بنیادی تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔جمہوریت کی جگہ خلافت،الیکشن
کی جگہ شورائیت اور انتخاب کی جگہ انقلاب کو اپنانا ہوگا ورنہ ملک کی تقدیر
نہ بدل سکے گی۔
خلفائے راشدین کے دور کو دیکھا جائے تو ایک خلیفہ کے دنیا سے کوچ کر جانے
کے بعد دوسرے خلیفہ کا فیصلہ شوریٰ کے مشورہ سے کیا جاتا تھا۔یعنی تا حیات
یہ لوگ امیر المومنین رہے۔اس لئے شریعت کے نفاذ کے وقت یہ بات بھی مد نظر
رہنی چاہئے کہ جب تک ملک کا خلیفہ(امیر المومنین)صھت و تندرستی کے ساتھ
نظام حکومت ااحسن طریقہ سے چلا رہا ہو تو اس کو بلا وجہ تبدیل نہیں کیا
جانا چاہئے۔ اب ملک پاکستان کے حالات کسی بڑی تبدیلی کی طرف جا رہے
ہیں۔طالبان سے مذاکرات کامیاب ہو جائیں تو ملک دہشت گردی اور خودکش حملوں
سے پاک ہو جائے گا ۔اس کے بعد ملک کے نظام میں بیرونی دباؤ سے نکل کر
بنیادی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ہم یہود و نصا ریٰ کے غلام نہیں ہیں کہ ان کے
نظام حکومت کی پیروی کرتے چلے جائیں اور امید بہتری کی رکھیں۔ہمیں اپنا
عدالتی نظام سرے سے تبدیل کرنا پڑے گا مسجدیں عدالتوں میں بدلنی پڑیں گی۔جج
اور وکلاء کی جگہ قاضی اور گواہان (چار گواہ)کی بنیاد پر فوری فیصلوں کا
نظام قائم کرنا پڑے گا ۔موجودہ عدالتی نظام برطانوی نظام کے ماتحت ہے اور
شرعی عدالتیں جو بنائی جاتی ہیں ان کے فیصلے برطانوی طرز کی عدالتوں میں
چیلنج کر دئے جاتے ہیں اس طرح دنیاوی مروجہ قوانین ،شرعی عدالتوں کے فیصلوں
پر غالب آجاتے ہیں۔اس نظام کو با لکل بدلنا پڑے گا ورنہ ملک کو اسلامی
فلاحی مملکت کہنا اپنے کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔اﷲ کرے آنے والا
وقت ملک میں ایسی تبدیلی لائے جس سے ملک کی نظریاتی پہچان اپنا اصل روپ
دھار لے اور ملک بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نکل سکے(آمین) |