بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب
ایک ایسی عوامی تقریب تھی۔ جو ہمیشہ یاد آتی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اس کے لئے
لیاری کا انتخاب کیا تھا اور لیاری والوں نے اس تقریب کی میزبانی کا حق ادا
کردیا تھا، اس رات ککری گراﺅنڈ میں جشن کا سماں تھا۔ آتش بازی، لوک رقص،
لیاری والوں کی خوشیاں قابل دید تھیں۔ لیاری پیپلز پارٹی کا دل ہے۔ جو بھٹو
خاندان سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ لیاری والوں کی پیپلز پارٹی کے لئے
قربانیاں بےمثال ہیں۔ بےنظیر بھٹو کی ضیا دور میں یہ لیاری کی خواتین ہی
تھیں جو ہمیشہ اپنی شہزادی کے گرد پروانوں کی طرح حلقہ بنائے رکھتی تھیں،
بے نظیر اس حلقے میں ہمیشہ اپنی سیکورٹی سے بے فکر رہتی تھیں۔
اسی لیاری میں جرائم پیشہ عناصر اور پولیس کے درمیان مقابلے میں گزشتہ روز
سات افراد ہلاک ہوگئے۔ اس سے ایک دن قبل یونیورسٹی روڈ اور گلستان جوہر کا
علاقہ میدان جنگ بنا ہو تھا۔ جہاں سندھی قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند
پارٹی کے ایک کارکن کی ہلاکت کے خلاف احتجاج میں ۹ گاڑیاں جلادی گئی تھیں۔
ترقی پسند پارٹی نے کارکن کی ہلاکت کا الزام سندھ حکومت کی اتحادی جماعت
عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی کے کارکنان پر لگایا ہے۔ جبکہ اے این پی
کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ جمن گٹکو کی ہلاکت میں ملوث نہیں ہیں اور ان کے
کارکنان پر فائرنگ کی گئی ہے۔
لیاری گزشتہ کئی برسوں سے پولیس مقابلوں اور گینگ وار سے متاثر علاقہ رہا
ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰۰۲ سے اب تک تقریبا ۰۰۴ افراد اس گینگ وار
میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیاری میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے
رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت اور ان کے تین ساتھیوں کی ہلاکت کے واقعے کو
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ رحمان بلوچ کی ہلاکت کے خلاف لیاری، گولیمار
اور آس پاس کے علاقے مکمل طور پر بند ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق رحمان بلوچ
کراچی کے علاقے لیاری میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری گینگ وار اور دیگر جرائم
میں پولیس کو مطلوب تھے۔ وہ کئی مرتبہ پولیس کی تحویل سے فرار ہوچکے تھے۔
رحمان بلوچ پر الزام تھا کہ وہ ڈکیتی سمیت ایک سو سے زیادہ جرائم میں ملوث
تھے۔ حکومتِ سندھ نے ان کے سر پر پچاس لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ حالیہ حکومت کے قیام کے بعد رحمان بلوچ نے لیاری میں جاری
گینگ وار کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔ دو ماہ
قبل لیاری میں جشن امن منعقد کیا گیا تھا، جس میں رحمان بلوچ کو سردار
رحمان خان بلوچ کے لقب سے نوازہ گیا تھا۔ انہوں نے امن امان برقرار رکھنے
کے لیے امن کمیٹیاں قائم کردی تھیں۔ حالیہ حکومت کے قیام کے بعد گزشتہ ایک
سال سے رحمان بلوچ غیر سرگرم ہوگئے تھے۔ انہوں نے لیاری میں جاری گینگ وار
کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کوششیں شروع کر رکھی تھیں اور آج کل ان کا
ایک سیاسی کردار سامنے آ رہا تھا۔ لیاری سمیت شہر کی دیواروں پر ایسی چاکنگ
کی گئی تھی جن میں ان کے اقدامات سراہا گیا تھا لیاری کے کچھ علاقوں میں
پینے کے پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر لوگ ان کے شکر گزار تھے۔ رحمان
بلوچ اس عرصے میں ایک شوشل ورکر کی حیثیت سے مقبول ہوچکے تھے، اور اس بات
کے لئے بھی کوشش کی جارہی تھی کہ انھیں سینٹر کا انتخاب لڑایا جائے۔ لیاری
کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کی پاپولر لیڈر شپ کر ابھرنے سے پہلے ہی منظر عام
سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل بلوچ اتحاد کے سابق صدر سہراب بلوچ کو لیاری
کے علاقے بغدادی میں فائرنگ کر کے ہلاک کردیا گیا تھا۔ جنوری دو ہزار پانچ
میں بلوچ اتحاد کے چئرمین انور بھائی جان کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ
تنظیم بھی لیاری میں جاری گینگ وار کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ انور بھائی جان
لیاری میں ایک توانا آواز تھی جو خاموش کردی گئی۔
لیاری کی بہتری کے لئے کچھ عرصے پہلے لیاری ٹاسک فورس بھی بنائی گئی تھی،
جو اچانک ختم کردی گئی تھی۔ پولیس کا دعوٰی ہے کہ بہتر پولیسنگ کے ذریعے
حالات پر قابو پا لیا جائے گا پولیس افسر کا کہنا ہے کہ لیاری میں بھتہ
مافیا سرگرم ہے اور جرائم پیشہ افراد کے چار گروہ پولیس پر حملوں میں ملوث
ہیں۔ لیاری ٹاؤن پولیس نے اعلٰی حکام سے لیاری میں تعینات نفری کی تعداد
ایک ہزار تک کرنے کی تجویز کررکھی ہے جس کی موجودہ تعداد چار سو ہے۔ لیاری
کے مکینوں کو پولیس پر اعتماد نہیں ہے وہ موجودہ حالات کو پولیس کی دہشت
گردوں اور بدمعاشوں کے ساتھ ملی بھگت قرار دیتے ہیں۔ ہے۔ لیاری کے بڑے
مسائل لاقانونیت، بے روزگاری اور بجلی کی عدم فراہمی ہیں۔ لیاری میں پولیس
یا عوام کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ راتوں کو خاص طور پر گھر سے باہر نکلنا
ناممکن ہے کیونکہ مختلف گروہ رات کو لڑتے ہیں فائرنگ کرتے ہیں اور عام لوگ
بیچ میں آکر مارے جاتے ہیں، خوف کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنے بچوں کو
سکولوں سے اٹھا لیا ہے جبکہ کاروبار اور دکانداری الگ زبوں حالی کی شکار
ہے۔ ڈکیت گروہ کے لوگ بھتہ گن پوائنٹ پر لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کئی
کارخانے اور دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ علاقے میں مسلسل بدامنی کی فضاء کی وجہ
سے پانچ ہزار خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ اس وقت لیاری میں گیارہ یونین
کونسل ہیں جن میں چھ یونین کونسل ان گینگ کے قبضے میں ہیں جس کی بنیاد پر
یہاں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کراچی ایک عرصے سے ایک محصور شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ جس کے داخلی اور
خارجی راستوں جرائم پیشہ افراد اور ایسے بااثر لسانی گروہ منظم ہیں جو جب
چاہے شہر کا امن وامان تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ کراچی میں سہراب گوٹھ پر
ہونےوالے آپریشن میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انیس سو بانوے میں کراچی میں
جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جو کسی نہ کسی طور
انیس سو ننانوے تک جاری رہا۔ لیکن بعد میں اس کا رخ جرائم پیشہ افراد کے
بجائے ایک سیاسی جماعت کے خلاف کردیا گیا اور سینکڑوں افرد کو مبینہ طور پر
ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں شعبے کرمنالوجی کی سربراہ
ڈاکٹر رعنا صبا سلطان کا کہنا ہے کہ آپریشن جرائم پر قابو پانے کا پائیدار
حل نہیں بلکہ معاشرے سے محرومیوں کے خاتمے کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ سندھ
حکومت اور صدر آصف زرداری نے لیاری کی بہتری کے لیے اربوں روپے کا لیاری
پیکج منظور کیا ہے جس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ
عوام کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے جلد از جلد لیاری کے عوام کو وہ سہولتیں
بہم پہنچائی جائیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔ |