امت مسُلمہ کی تنزل وانتشار کا باعث، دین اسلام سے روگردانی

آج کی افراتفری اور انتشار کی دور سے نظریں ہٹا کرساڑے چودہ سو سال پیچھے لوٹ جائے۔تاریخ کی صفات کنگا لیں اور دیکھیں کہ دُنیا میں مسلمانوں کا کیا حال تھا۔ میری مراد اُس دور سے ہے جس دور میں کائینات کے مقدس ترین انسان کو رحمت العالمین بنا کر بھیج دیا گیا۔آپؐ نے قران کی صورت میں انسانیت کا دستور دیا اور راہ زندگی کا نور دیا۔قران کی انقلابی تعلیمات نے انقلاب برپا کر دیا اور ایسا انقلاب کہ دنیا اس کی مثال لانے سے قاصرہے۔ قران کی تعلیمات نے شہروگاوں بدل ڈالے، معیشت بدل ڈالی، معاشرہ بدل ڈالا، ڈاکو محافظ بن گئے۔ لٹہرے نگہبان بن گئے۔ عرب کے چرواہے زمانے کے مقداء اور رہنما بن گئے۔جو زرہ تھا وہ گروہ بن گیا، جو قطرہ تھا وہ دریا بن گیا، جو پیاسا تھا وہ ساقی بن گیا، ابوبکرؓ، صدیق بن گیا، عمرؓ، فاروق بن گیا اور علیؓ، حیدرکرار بن گیا۔یہ سب کچھ کیسے اور کیونکر ہوا؟ یہ اقلاب کیسے آیا؟؟؟ یہ انقلاب حضورؐ کے تعلیمات اور اسلامی اُصولوں پر عمل پیرا ہونے سے آیا۔ یہ تغیر قران کو اپنا رہنما اور مقتداء ہونے سے پیدا ہوا۔

اُس دور کے مسلمان اس لئے معزز تھے کہ ان میں جہاد کا جذبہ تھا۔ اﷲ پر پُختہ یقین تھا۔ ان کے درمیان اتحاد واتفاق قائم تھا۔لیکن آج ہم مسلمانوں میں جہاد کا وہ جذبہ نہ رہا جس جذبے کی حاطرطارق بن ذیاد نے اُندلس میں کشتیاں جلائی تھی ۔ جس جذبے سے سرشار ہو کرمحمد بن قاسم نے راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجایا تھا اور خالدبن ولید نے شہادت کی آرزو کی تھی۔آج ہم میں وہ ایمان نہ رہا جسکی بدولت ابراہم ؑ آتش مرود میں کھوداتھااور اسماعیل ؑ ذبح ہونے کے لئے تیار ہوئے تھے۔آج ہم وہ یقین نہ رہا جس یقین کی خاطر حضرت سعد بن ابی وقاص نے دریا میں گھوڑے دوڑائے تھے۔

ہم مسلمان پہلے کیا تھے اور اب کیا ہوگئے ہیں۔پہلے ہم خیرالامم تھے لیکن آج ارذل الامم بن گئے ہیں۔پہلے ہم اشرف المحلوقات تھے لیکن آج بدترین ہوگئے ہیں۔پہلے ہم جن قوموں پر رُغب جماتے تھے، آج اُن کے سامنے عاجزی وذلت سے گٹھنے ٹھیک دیئے ہیں۔جن سے خراج لیتے تھے، اُن سے بھیگ مانگتے ہیں۔جن کے سر جُھکائے تھے، آج اُن کے قلم ہمارے قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ عالم اسلام خود عرضی کی ہنگامہ آرائیوں میں مُبتلا ہے، مغرب نواری نے اسلامی برادری کا خاتمہ کر ڈالا ہے۔ اسلامی ذہنیت میں افسوس ناک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے، سیاسی ومذہبی فرقہ بندیوں اور اختلافات نے مسلمان قوم کا شیرازہ پر آگندہ کر دیا ہے۔

آج کے مسلمان کا ایمان دُرست نہیں۔ خُدا کے خالص کلمہ طیبہ کا اقرار مُنہ اور زبان سے تو کرتے ہیں مگر دل سے اسے ماننے کے لئے تیار نہیں۔نماز وروزہ ریا کاری کا ہے۔ زکواۃ کا یہ حال ہے کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے اور حج تو صرف حاجی صاحب کہلانے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔عرض یہ کہ اسلامی احکام کے ہماری برادری میں نام ونشان تک باقی نہ رہا ۔اس لئے جہاں بھی دیکھوں، مسلمان پر ظلم وستم ہو رہا ہے۔اُن کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ٹھیک کہا تھا کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قران ہو کر

اگر ہم مسلمان ریا کاری کو اپنے دل سے نکال دیں، قران کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائے، اپنے اندر ابوبکرؓ کی صدق، عمر ؓ کی بہادری اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت جیسی خوبیاں پیدا کریں تو پھردنیا کا کوئی طاغوتی قوت ہمیں اپنے پنجرے میں بند نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہمیں کوئی شکست دے سکتا ہے۔پھر ہم ساری دنیا پر غالب آسکتے ہیں اور اسلام کا پرچم ہر جگہ سجا سکتے ہیں۔۔۔۔۔