زمین سکڑتی محسوس ہو رہی ہے،بائیکاٹ کے اعلانات ہو رہے
ہیں،تکنیکی حربے قانون کو اپنی راہیں بنانے میں مجبور کرتے نظر آتے ہیں،
لیکن آخر کب تک،انجام وہی ہوتا ہے، ایسے کاموں میں دیر تو ہوتی ہے۔اندھیر
نہیں۔ تو وہ وقت آیا تو قانون کیا رنگ دکھلائے گا، صحافتی حلقوں اور اربابِ
اختیارکو اس پر قبل از وقت نظر ڈال لینی چاہیے اور اس پر ضروری قانون سازی
ہوجانی چاہیے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے خطہ میں صحافی اور صحافت کے ساتھ ہر کسی نے
حسبِ استطاعت ظلم و جبر کی محبتیں روا رکھیں۔اور اسکارِ خیر میں امریکہ
بہادر نے بھی اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کیا ہے۔ ڈینیل پرل بل منظور
کیا جس کی رو سے وہ دنیا بھر میں صحافی اور صحافت پر ہونے والے کسی بھی ظلم
پر نظر رکھنے کے اور زیادتی کی صورت میں فوری مداخلت اور ضروری ایکشن کے
ذمہ دار بن گئے۔ اس قانون کے مطابق سب سے پہلا مدعی میں بنا اور اپنی پٹیشن
امریکن سفیر کو بھجوائی، وہاں سے وصولی کی رسید بھی بھجوائی گئی۔ لیکن اس
کے ساتھ ہی فوری طور پر اس قانون کو (InActive)ناکارہ (قانون موجود ہے لیکن
اس پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے)کر دیا گیا۔ کیونکہ اگر اس پر عمل دارآمد ہو
جاتا تو پاکستان میں درست صحافت خوب پھلتی پھولتی اور مذموم ارادوں میں
بالواسطہ معاون سیاہ ستدانوں کی راہ کھوٹی ہوجاتی۔
لیکن اس وقت میں توجہ دلا نا چاہتا ہوں صحاتی ا داروں کی بناوٹ اور کام
بمقابلہ حساس اداروں کے۔ کوئی بھی قوم ضروری معلومات کی روشنی میں اپنے
مستقبل کی راہوں کا تعین کرتی ہے اور پالیسیوں سمیت تمام ضروری کاروائیاں
کرتی ہے۔ اور یہ ضروری معلومات فراہم کرنے میں حساس اداروں کیساتھ ساتھ
صحافتی ادارے بھی کام کرتے ہیں۔ صحافی اور صحافتی ادارے معلومات کی فراہمی
کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔دنیا بھی کے حساس ادارے صحافیوں کے کام سے استفادہ
کرتے ہیں۔
تمام حکومتی اداروں کو حسب قانون معلومات کے حصول کے لئے مطلوبہ فرد کو
گرفتاری سے لیکر جسمانی تشدد کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے جبکہ یہی کام
صحافی اپنی کہنہ مشقی سے کرتا ہے۔ اور بارہا تشدد کا نشانہ بھی بنتا ہے
لیکن اپنی پیشہ وارانہ روش پر قائم رہتا ہے۔ اپنے اہداف کی تلاش میں رہتا
ہے اور کسی بھی طرح اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر لیتا ہے۔حساس ادارے کی
حاصل شدہ معلومات سرکاری فائلوں میں رہتی ہیں جبکہ صحافی حاصل شدہ معلومات
کوتشت از بام کر دیتا ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی میں صحافی سب سے بڑا معاون رول ادا کرتا ہے لیکن کرپٹ
معاشرے صحافی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، مالکان کو خریدتے ہیں، لال
فیتے کی پابندیوں میں لاتے ہیں، اور اپنی راہ میں چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مالکان اپنی مجبوریوں کے مارے ہوئے صحافیوں کواپنی مرضی کی راہوں پر چلانے
کی کوشش کرتے ہیں مجبور ہو کر صحافی ادارے تبدیل کر لیتے ہیں ۔ پاکستانی
صحافیوں کے ادارے تبدیل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، کہیں براہ راست اور
کبھی مالی طور پر صحافیوں کو مجبور کر دیا جاتا ہے۔
پرنٹ میڈیا سے متعلق کتنے صحافی مالی طور پر مستحکم ہیں اور کتنے وقت
گذارنے سے بھی مجبور ہو چکے ہیں۔یہی لوگ جانتے ہیں۔کتنے اخبار و رسائل اس
جبرِ مسلسل کو سہتے سہتے ختم ہو گئے، کتنے مالکان مقروض ہو گئے، بے گھر ہو
گئے، کبھی ایک خبر تک نہ بن سکے، کوئی نہیں جان پایا اور نا جان پائے گا۔
صحافتی ادارہ کیا ہوتا ہے، صحافت پیسہ ہے کیا،اس کی تشریح کسی سلیبس میں
نہیں پائی جاتی، یہ وہی لوگ جانتے ہیں جہنہوں نے اس پیشہ کو اپنی روح سی
اپنایا اور اسی میں گم ہو گئے-
بڑے صحافتی ادارے نا صرف ایک طویل مدت ، سرمایہ اور کہنہ مشق افراد کی طویل
جدوجہد کے نتیجہ میں بنتے ہیں اس لئے کسی بھی قانون کی وجہ سے ان کو مکمل
بند کیا جانا قومی سطح پربہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ دیارِ فرنگ اگر اپنے
قانون کے رگڑے میں178سالہ اخبار کو بند کر سکتا ہے تو اس کا ہر گز ہر گز یہ
مطلب نہیں کہ ہم بھی انہیں راہوں پر ان کے نقشِ قدم پر چلیں ، بلکہ ہمیں
چاہیے کہ اگر یہ صورتِ حال ہمارے سامنے آجائے تو ان اداروں کو بمع املاک
سرکاری تحویل میں لے لیا جائے، بیماری کا خاتمہ کیا جائے نا کہ بیمار ہی
مار دیا جائے۔ہزاروں افراد کو بیروزگاری سے بچایا جائے،اور بیماری ختم کر
کے اس ادارہ کو مثبت راہوں ایک مثالی ادارہ بنا دیا جائے، ہمیں کسی کے نقشِ
قدم پر چلنے کی بجائے، ایک ایسی راہ کا تعین کرنا چاہیے کہ دوسرے ہمارے
نقشِ قدم پر چلنے کا انتخاب کریں۔ |