ہم اور ہماری سوچ

قوموں کے اندر جب سچ سننے کی قوت ختم ہو جائے ،جب معاشروں میں انا پرستی آجائے،جب لوگ اپنے گریبان میں جھانکنا چھوڑ دیں تو پھر وہ معاشرے ،وہ قومیں ایک جھنڈے کے نیچے، ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتی،ایک زبان ،ایک سوچ ،ایک نظریے پر متفیق ہو نا ممکن نہیں، معاشروں میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے کہ قوت برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے۔سچ اور جھوٹ کے فرق کو سمجھا جائے،حقیقت کو تسلیم کیا جائے، انسان کو زبان،علاقے،برادریوں میں تقسیم کر کے کبھی بھی بہتری نہیں لائی جا سکتی،جب کسی دوسرے پر تنقید کی جائے تو شاباش اور جب وہی بات اپنے بارے میں کہی جائے تو انتقام کی آگ بھڑک اٹھے اس سوچ سے پروان چڑھنے والی نسل کیا ایک دوسرے کی بات کو براداشت کر نے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے،یوں تو ہمارے معاشرے میں ہر جگہ،ہر مقام پر دن رات قرآن ،و حادیث،کے حوالے دے کر فلسفے جھاڑے جاتے ہیں،دوسرے ممالک کے انسانوں کی کہانی سنا سنا ترقی یافتہ قوموں کا راز بتایا جاتا ہے،مگر جب وہی راز وہی عمل خود پر آجائے تو ان کے تہور بدل جاتے ہیں،کسی بھی معاشرے میں اگر بہتری آتی ہے تو وہ کسی ایک خاندان یا کسی فرد پر نہیں بلکہ ایک نسل ایک قوم کی ہوتی ہے،تعمیر کے لئے تنقید ضروری ہے،جب تنقید نہیں ہوگی ،جب کسی مسئلے کو سامنے نہیں لایا جائے گا تومسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا،بد قسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں جس کلچر کو ہم پروان چڑھا رہے ہیں اس میں سچ سننے کی ہمت نہیں یہاں پر سچ بولنا جرم سمجھا جاتا ہے، اور انسانی تذلیل کی حد تک اس کی سزا دی جاتی ہے،سچ کی سز پر صدیوں پرانے جہاہلوں کے دورو کے قصے سنائے جاتے ہیں،اور دعوے ترقی کے دور میں رہنے کے کئے جاتے ہیں،اپنی اصلاح نہ کرنے کے نتیجے میں ہم اخلاقی قدروں سے ہاتھ دھو رہے ہیں،اس کا نقصان ابھی تو نہیں نظر آتا البتہ آنے والے وقت میں ہمیں احساس ہو گا کہ ہم نے اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کی خاطرکتنا بڑا نقصان کیا ،وقت ،حالات،کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے،یہ بدلتے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں بھی لاتے ہیں،ان تبدیلیوں کے پیچھے کون فراعون غرق ہو رہا ہوتا ہے ،کس شداد کی روح ہوا میں معلق پرواز کرتی ہے،کون محمد بن قاسم کی شکل میں سامنے آتا ہے یہ سب وقت کی تبدیلیاں بتاتی رہتی ہیں۔ایک شخص ایک میٹنگ میں اپنے تجربات کی روشنی میں بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ہم اخلاقی گراوٹ میں تو اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر وہ وقت بھی سامنے ہے جب ہم گھونگے،بہرے لولے لنگڑے،دنیا کے سامنے اپنے ماتم کا تماشہ دیکھ رہے ہونگے،اس کا کہنا تھا کہ آج جو نسل اپنی اپنی برادری، دولت، علاقے کی طاقت پر غرور کر کے اپنے ہاتھ پاوں باندھے بیٹھے ہیں کل یہ لوگ نکارہ لوگوں کی صف میں ہونگے،ایک ایسی نسل جس کو آج پیسا جا رہا ہے جسکو آج پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہا ہے وہ ابھر کر سامنے آئے گی تو پھر اسے روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔اس شخص کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس سچ اور حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ،تاریخ ایسے واقعات اور حقائق سے بھری پڑی ہے کہ کئی کئی سو سال تک حکمرانی کرنے والے خاندان صفہ ہستی سے مٹ گئے۔اور وہ لوگ جن سے ہاتھ ملانا برا سمجا جاتا تھا آج دنیا میں نہ صرف حکمرانی کر رہے ہیں بلکہ آپناسکہ جمائے ہوئے ہیں
ایک رائٹر، کالم کار،دانشور،اپنے تجربات،مشاہدات،معاشرے کی بہتری کے لئے قلم کے ذریعے شیئر کرتا ہے تو اس کا مطلب اس کی تشہر نہیں ہوتا بلکہ وہ حاکم وقت کو ،با اختیار لوگوں کو، اس وقت کے منصفوں کو،معاشرے کی تقدیر بدلنے کے ٹھیکیداروں کو الررٹ کر رہا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے اپنی سوچ کا ،اپنے اختیارات کو،اپنی طاقت کا جائزہ نہ لیا اس کو ٹھیک سمت استعمال نہ کیا تو اس کا خمیازہ آپ ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلیں تک بھگتیں گی،مگر المیہ یہ ہے کہ جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے ۔۔۔۔یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی نے کیا لکھا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس نے لکھا ہے،اور پھر ہر با اختیار،طاقت ور اپنی طاقت کے نشے میں مست اپنی اصلاح کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کی طاقت کا پر انحصار کرنے والوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔حیرت کی اور عجیب بات یہ ہے کہ اگر گھول مول بات کی جائے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آتی اور اگر اصلاح کے لئے کسی ایک حقیقت کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو ایک محاز کھڑا ہو جاتا ہے،میں تو اس عجیب کیفیت سے دوچار ہوں کہ چور کو چور نہ بولاجائے ،کرپٹ کو کرپٹ نہ کہہ جائے،ظالم کو ظالم کہہ کر نہ پکارہ جائے،نمرود،فراعون،ہٹلر،کے الفاط استعمال نہ کئے جائیں تو کیا کیا جائے۔اچھے کو اچھا اور برے کو برا نہ سمجھا جائے تو بہتری کیسے آئے گی۔ددلت کے زور پر کب تک اس دنیا میں مقابلہ کیا جائے گا۔ایک شخص اپنے بچے کو اپنے اختیارات سے کچھ کلاسوں کا امتحان تو پاس کر وا سکتا ہے مگر وہ اس کو اس دنیا میں مقابلے کے لئے تیار نہیں کر سکتا،ایک برادری ،یا قبیلہ،خاندان،اپنے دولت یا کسی بھی دوسری طاقت کے ذریعے اپنے بچوں کو مقابلے میں شامل تو کروا سکتا ہے مگر جتوا نہیں سکتا اگر جیت بھی جائے تو وہ اس جیت کو قائم نہیں رکھوا سکتا۔اس لئے اگر ہمیں اجتماعی ترقی،بہتری،کامیابی چاہئے تو ہمیں ایک زبان،ایک نسل،ایک سوچ سے آگے بڑھنا ہوگا،ایک سکول آف تھاٹ سے اس دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا،ہاں اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ لے کر ہم اپنے فن سے ون مین شو کا مظاہرہ تو کر سکتے ہیں مگر من حیث القوم ہم کچھ نہیں کر سکتے ،پھر ہمارا انجام کہ زندوں میں بھی نہیں رہے گانام ہمارا۔ہم غلام ہی نہیں غلام در غلام ہیں،جس خطے کا کوئی مستقبل نہیں اس میں بسنے والوں کا کیا ہوگا، ہمیں چاہیے کہ ہم ایک زبان ،ایک سوچ،ایک نظریہ پیدا کریں،اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی توہمارا آنے والا کل بھیانک ہوگا۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.