سردیوں کی دھوپ تھی- علی کی امی اسے نہلا دھلا کر
کنگھی کر رہی تھیں- اس کا خوشنما سوئیٹر اور ٹوپی بہت خوبصورت لگ رہی
تھی- علی ہاتھ پاؤں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا- اب اس کی
امی اسے گلاس میں دودھ ڈال کر چمچ سے پلا رہی تھیں- اچانک اس نے ہاتھ
مار کر گلاس گرا دیا- اور سارے کپڑے خراب کردیے- میں کرسی سے کھڑی
ہوگئی - میرا خیال تھا کہ اس کی امی اسے ماریں گی یا کم از کم جھڑک
ضرور دیں گی- لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہ کیا- بلکہ تولیے سے منہ صاف کر
کے کپڑے بدلوا دیے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چہل قدمی کروانے لگیں-
میں یہ منظر بلکہ ایسے کئی مناظر کئی سالوں سے دیکھ رہی ہوں- علی ہمارے
پڑوس میں رہنے والا ایک “ اسپیشل بچہ “ ہے- اپنی تمام تر ضروریا کے لیے
دوسروں پر انحصار کرتا ہے- اس کا دماغ دو ماہ کے بچے جتنا ہے- اور اس
کی امی ایک بہت “ خاص ماں “ ہیں جو مسلسل کئی سالوں سے بڑے صبر اور
حوصلے کے ساتھ اس کے ساتھ پل پل آزمائش سے گزر رہی ہیں- لیکن وہ دنیا
داری میں بھی حصہ لیتی ہیں- لوگوں کے دکھ سکھ میں شرکت کرتی ہیں- ان کا
اندازِ نظر مثبت ہے- جو شخص ان سے ملتا ہے٬ اچھی بات سیکھ کر ہی اٹھتا
ہے- نماز٬ روزہ٬ حج٬ حقوق اﷲ٬ حقوق العباد وہ سب کا خیال رکھتی ہیں-
کوئی گلہ نہیں٬ کوئی شکوہ نہیں
زندگی نے انہیں آزمایا ہے لیکن وہ سب کے لیے مشعل راہ بنی ہیں- گرمیوں
میں علی کو بار بار پانی پلاتی ہیں- علی کو رنگوں کی پہچان نہیں ہے-
لیکن پھر بھی وہ اس کے لیے عمدہ لباس خریدتی ہیں- اسے واک کرواتی ہیں-
چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی ہیں خواہ جواب ملے نہ ملے- میں نے ان کے لبوں
سے کبھی یہ نہیں سنا کہ کاش علی نارمل ہوتا- وہ قدرت کے فیصلے پر شاکر
ہیں- کیونکہ وہ ایک ماں ہیں-
محبت و شفقت کا پیکر
ماں کا رشتہ کائنات کا خوبصورت ترین رشتہ ہے- اس میں کائنات کی
خوبصورتی کے سارے رنگ پوشیدہ ہیں- خالق کائنات نے مخلوق سے اپنی “ محبت
و الفت “ کا اظہار کرنے کے لیے اس رشتے کو بطورِ مثال پیش کیا ہے-
اس کی خدمت عبادت
اور دعائیں جنت کا در کھولنے کا باعث
اﷲ تعالیٰ نے اس کا درجہ اس قدر بلند رکھا ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت
رکھ دی ہے- لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جنت کی ضمانت کی مالک یہ ہستی کس
قدر آزمائشوں کی بھٹی سے گزرتی ہے- نو ماہ تک تکلیف سہتی ہے- پل پل اس
کی سانسوں کے ساتھ زندگی گزارتی ہے-
ایک عورت ایثار٬ قربانی٬ درگزر اور سمجھوتے کا پیکر اس وقت بنتی ہے جب
وہ ماں بن جاتی ہے- پھر اس کا ہر قدم ہر فیصلہ اس رشتے کی روشنی میں
دیکھا جاتا ہے-
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مائیں کرب٬ تکلیف سے بھی گزرتی ہیں اور
انہیں اپنے حوصلے اس وقت مجتمع کرنے پڑتے ہیں جب اولاد تکلیف اور درد
سے گزرتی ہے- اولاد کی ہر آزمائش تکلیف صرف اولاد کے لیے نہیں ہوتی- یہ
کرب ایک ماں بھی اپنے دل میں محسوس کرتی ہے-
ایسے بچے جو کسی ذہنی یا جسمانی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں “ اسپیشل
بچے “ کہا جاتا ہے- لیکن میرے نزدیک تو مائیں بہت اسپیشل ہوتی ہیں
جنہیں قدرت اس آزمائش سے گزارتی ہے- کیونکہ ان بچوں کی پرورش و تربیت
عام بچوں سے دگنا ٹائم مانگتی ہے- اور انہیں ہر لمحہ توجہ اور محبت کی
ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر صبر کی- اور یہی جذبات ماں کے دل میں
قدرت نے بدرجہ اتم رکھے ہیں- اس لیے تو ہر ماں کو اپنا بچہ دنیا میں سب
سے زیادہ خوبصورت اور حسین لگتا ہے- شاید دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی
ہوتی ہیں- رنگ٬ نسل٬ طبقاتی تفاوت سے بالاتر ہو کر جب ان کے دل دیکھے
جائیں تو ان کے جذبات یکساں نظر آتے ہیں- اپنی اولاد کے لیے یکساں
جذبات رکھتی ہیں اور سب ماؤں کے لبوں پر دعائیں ایک جیسی ہوتی ہیں- یہ
رشتہ تو رنگ٬ نسل٬ ذات پات کی قید سے آزاد ہوتا ہے-
ہمارے بچپن میں ایک غریب بوڑھی سی اماں ہر جمعرات کو ہمارے گھر آتی
تھی- ان کے ساتھ دو بچے بھی ہوتے تھے جو “ شاہ دولے “ تھے- یعنی ان کے
سر غیرمعمولی چھوٹے تھے اور دماغ کام نہیں کرتا تھا- لیکن وہ ان کا
خیال رکھتی- ہر کھانے کی اچھی چیز انہیں دیتی- کہتے ہیں وہ ان بچوں کو
حفاظت سے چھپا کر رکھتی ہیں کیونکہ بردہ فروش ایسے بچوں کو فروخت کر کے
بھیک منگواتے ہیں- کزن میرج ہو یا کوئی اور وجہ تھی ایسے بچوں کی
پیدائش لیکن اس ماں کا جذبہ قابلِ ستائش ہوتا تھا- قدرت کی اس آزمائش
پر کبھی ناک بھوں نہیں چڑھاتی تھی-
وہ سراپا محبت تھی
شفقت کا سمندر لگتی تھی
کیونکہ وہ ماں تھی اور ماؤں کے دل ایسے ہی ہوتے ہیں انہیں ایسا ہی ہونا
چاہیے- ایسی ماؤں کا صبر یقیناً دگنا بلکہ کئی گنا ہوتا ہے- اور ان کا
اجر بھی اتنا ہی ہوتا ہے- ایسی ماؤں کی زندگی تین چیزوں سے عبارت ہوتی
ہے صبر٬ محبت اور توکل-
مجھے یاد ہے ہماری آنٹی کی بیٹی “ اسپیشل چائلڈ “ تھی- وہ اس بچی کو
پھولوں کی طرح رکھتیں- اسے خوبصورت کپڑے پہناتیں ہئیر پنز سے بال
سنوارتیں- یہ نہیں تھا کہ وہ بچی اکلوتی تھی اس کے باقی بہن بھائی
نارمل تھے- لیکن وہ بچی موسٹ وانٹڈ تھی- سب اس کا خیال رکھنے کی کوشش
کرتے- اس کی علیحدہ سے آیا تھی- یہ ایک ماں کا دل تھا- جس میں اولاد کی
محبت دھڑکتی ہے- اور اس کی سانس کی ڈوری اولاد کی زندگی سے وابستہ تھی-
یہ مائیں جانتی ہیں کہ ان کی اولاد ان کی کبھی خدمت نہ کرسکے گی جیسا
کہ ایک صحت مند اولاد سے توقع رکھی جاتی ہے- زندگی کی تیز رفتاری میں
اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے رہے گا- شاید یہ اسپیشل بچے کبھی وکٹری
اسٹینڈ پر کھڑے نہ ہوسکیں- لیکن اپنی ماؤں سے محبت کے حصول میں پہلے
نمبر پر ہی ہوتے ہیں-
ایسی ماؤں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کے بچے غیر معمولی ذہانت کا
مظاہرہ کریں٬ پڑھائی٬ کھیل یا کسی دوسرے میدان میں نمایاں کارکردگی کا
مظاہرہ کریں لیکن ایسی مائیں زیادہ تعریف کی مستحق ہوتی ہیں جن اس
اسپیشل بچوں کی بہت ہی خوبصورت مائیں ہیں-
کیا ان کی خدمات کے صلے کے لیے ان کی تعریف کے لیے ان کے حوصلے کو
سراہنے کے لیے محض سال کا ایک دن مختص ہونا چاہیے؟ نہیں ان ماؤں کی
سمندروں کی طرح وسیع محبت ہر دن خراج تحسین کی مستحق ہوتی ہے-
تو کیوں نہ ان اسپیشل بہت ہی اسپیشل ماؤں کو خراج تحسین پیش کریں-
جو اپنی عظمت میں
محبت میں
خدمت میں
سب سے جدا ہیں٬ ارفع ہیں اور بلند ہیں- ایسی ماؤں کی عظمت کو سلام- |