بچہ، مارکر، مستقبل

کھانے کے میز پر سب بچے موجود تھے مگر ان میں ایک بچی جو کل تک بہت خوش تھی اور نہ صرف کھانے کی میز پر تھی بلکہ وہ خود کھانا لگا رہی تھی آج اس کی غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان تھا والدین نے آواز لگائی کہ بیٹا کھانا لگ گیا ہے آجاؤ ایک بار دو بار مگر وہ نہ آئی،ماں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے جا کر دیکھا تو بچی افسردہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہے ا سے پوچھا گیا کیا ہوا،کسی نے مارہ، ڈانٹا ،یا کوئی تکلیف ہے ۔ان تمام باتوں سے انکار کرتے ہوئے اس نے کہا کل سے میں سکول نہیں جاؤں گی !میں نے اب آگے نہیں پڑھنا!میں نے پوری سال اتنی محنت کی کلاس میں بھی میں سب سے بہتر تھی مگر آج جب رزلٹ آیا تو میرا نام صرف پاس ہونے والوں میں تھا میں خود کو پہلی پوزیشن کے لئے تیار بیٹھی تھی مگر بورڈ میں میرا 13واں نمبر ہے ایسا ہو نہیں سکتا،ماں باپ نے سہارا دیا اسے مطمئن کیا ،کھانا کھیلایا،اس بات کاا فسوس صرف بچی کو ہی نہیں تھا بلکہ اس کے والدین، اور رشتے دار بھی اس بات سے پریشان تھے کہ ایسا کیسے ہو گیا دن رات محنت کرنے والے اور سکول میں اکثر نمایا رہنے والے بچوں میں اس کا شمار ہوتا تھا یہ رزلٹ توقع کے بھر خلاف تھا ،اسی بے چینی کو دور کرنے کے لئے اس کے والد نے باضابطہ طور پر درخواست دے کر بچی کے پیپر نکلوائے،جواسے دیکھائے نہیں گے بس بتایا گیا کہ بچی نے جو مارکس لئے ان میں دس مارکس جمع ہی نہیں کئے گئے،اور مذید انکشاف یہ بھی ہوا کہ ایک سوال جو پانچ نمبروں کا تھا چیک ہی نہیں ہوا،بورڈ والوں نے جب اس کے دس نمبر جو ٹوٹل کرتے وقت رہ گئے تھے ، جمع کئے تو وہ بچی تیرویں نمبر سے چوتھے نمبر پر آگئی،پھر اس کے والد نے وہ پانچ نمبر جو اس کو نہیں دیئے گئے تھے ان کو دینے کا کہا تو اس سے جواب دیا گیا کہ اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا یہ مارکس ہم نہیں دے سکتے اور نہ ان کا اب کوئی حل ہو سکتا ہے وہ جو ٹوٹل میں کمی تھی وہ تو ہم نے جمع کر دیے مگر وہ نمبر جو اسے ملنے چاہئے تھے اس کا سوال ٹھیک تھا مگر اس کے نمبر نہیں لگے وہ نہیں دے سکتے،بچی کے والد نے جب یہ سنا کہ ایسا کوئی قانون نہیں جس جو سامنے نظر بھی آتا ہو کہ یہ خامی ہے ،یہ غلطی ہوئی ہے،یہاں پر ایک بچی کا حق مارا گیا ہے مگر وہ اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے،یہ کیسا مارکر ہے جو ایک بار چل جائے تو پھر اس کو دنیا کی کوئی طاقت، قانون تبدیل نہیں کر سکتا،وہ حیرت کی دنیا میں گم بے بسی کی تصویر بن گیا،اس کا کہنا تھا کہ میں نے وہ تمام سوال کئے وہ تمام باتیں ان کو بتائیں کہ ایک غلطی آپ کو پتہ بھی ہے اپ کے سامنے بھی ہے آپ اس کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے یہ ایک بچے کے مستقبل کا سوال ہے،یہ بچے کی نفسیات کا سوال ہے،یہ بچوں کی صلاحیتوں سے کھیلنے کے مترادف ہے مگر وہ بورڈ کے اہلکار ایک ہی بات رٹتے رہے کہ ہم اب اس کا کچھ نہیں کر سکتے بلکہ کوئی بھی اس کو کچھ نہیں کر سکتا،وہ بچی جو دس نمبر ملنے سے تیروی سے چوتھی پوزیشن پر آگئی تھی پانچ نمبر اور ملنے سے اس کی پوزیشن کیا ہوتی آپ خود فیصلہ کریں پھر اس کے ا عتماد کا لیول کیا ہوتا،یہ شاخسانہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے بورڈ کا نہیں بلکہ اپنے ڈسٹرکٹ ایلیمنٹری بورڈ باغ کا ہے۔جس کا مارکر اتنا طاقت ور ہے کہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا سکتا ہے ،ایک بار اس بورڈ کا مارکر چل جائے تو دنیا کا کوئی قانون اس کو چیلنج نہیں کر سکتا،اس بورڈ کے پاس اتنے اختیارات تو ہیں کہ وہ جس بچے کے مستقبل سے چائیں کھیل سکتے ہیں مگر اس کو سنوارنے کی ان کے پاس نہ کوئی قلم ہے نہ قانون،نہ اختیارات۔کتنے بچے جو غیریب والدین کے دن رات محنت کرتے ہونگے کہ ان کو ان کی اس محنت کاپھل ملے گا مگر وہ معصوم بچے اس طاقت سے بے خبر ہیں کہ بورڈ والوں کے پاس جو قلم ہے اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی،یہ بھی تیر کمان سے نکلنے والی بات ہے۔

نام نہاد ترقی کے اس دور میں یہاں ٹیکنالوجی ،دولت ،شہرت کا مقابلہ ہے وہاں انسان ایک دوسرے سے آگے نکلنے لے لئے کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کرتا،کسی کو نیچا دیکھانا ہو یا کسی کی زندگی چھین کر اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنا ہو ہر طرف کسی نہ کسی شکل و صورت میں مقابلہ بازی ہی نظر آتی ہے،اس مقابلے کو اگر اپنی اپنی صلاحیت کی حد تک رکھا جائے تو یہ معاشرے اور قوم کی بہتری کا سبب بنتا ہے اور اگر یہی مقابلہ صرف اپنا نام کمانے کی غرض سے کیا جائے تو یہ تباہی کا باعث بن جاتا ہے،دنیا کے اس میدان میں یہاں سرمائے کا بول بالا ہے،یہاں امیر غیریب کی جھنگ ہے یہاں انا اورہوس پرستی کا نشہ ہے وہاں کچھ معصوم پھول جو دنیا کی چلاکی سے بے خبر اپنے آپ کو مقابلے کے لئے دن رات تیار کرتے ہیں مگر جب ان کے ساتھ نا انصافی ہو جب ان کے معصوم ارادوں کے ساتھ کھیلا جائے،ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے تو وہ مایوس ہی نہیں ہوتے بلکہ اندر ہی اندر وہ ذہنی اذیت سے بھی دو چار ہوتے ہیں،وہ جذبہ جو ان کو اس دنیا کے مقابلے کے لئے تیار کرتا ہے مر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے جن کا اس قوم کو معاشرے کو سدھارنے میں بہت اہم کردار ہے ،یہی تعلیمی ادارے آنے والے وقت کا مقابلہ کرنے والی نسل کو تیار کرتے ہیں مگر جب ان کے اندر بھی اس طرح کی لاپروائیاں ہونے لگے ،اور پھر اس کا ازالہ بھی ممکن نہ ہو تو اس کو کیا کہا جائیگا۔بچوں کے امتحان کوئی معمولی بات نہیں یہ ایک بچے کا نہیں بلکہ اس قوم کا اس نسل کا اس معاشرے کے بچے کا امتحان ہوتا ہے۔وہ بچے جن کو قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے اگر اس کے ساتھ ہی کھیلا جائے تو پھر مستقبل کا اﷲ ہی حافظ ہے،تعلیمی اداروں میں ایسا قانون ضرور ہونا چاہئے کہ اگر غلطی سے نمبروں میں کمی پیشی ہو جائے تو اس کو تمام تر چھان بین کے بعد تبدیل کیا جائے تاکہ کسی بچے کا حق نہ مارا جائے،اس کی محنت کے جذبے میں کمی نہ آئے۔ ۔۔۔۔۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69292 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.