جامعہ کراچی میں میرا زمانہ طالبِ علمی ۔گزرے دنوں کی کچھ یادیں

یوں تو طالب علمی کا پورا زمانہ کسی بھی انسان کی زندگی کا ایک یادگار اور خوش گوارار دور ہوا کرتا ہے لیکن یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے ہوئے دنوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کی ایک وجہ بہ طور طالب علم اس کا یہ دور شباب کا دور ہوتا ہے اوراس کی حیثیت بہ طور طالب علم اختتام پذیر ہو رہی ہوتی ہے، وہ طالب علمی کو خیر باد کہنے اور عملی زندگی میں داخل ہو نے جارہا ہوتا ہے۔علم حاصل کرنے کا عمل کسی مرحلے پر بھی اختتام نہیں ہوتا، یہ عمل تو ساری زندگی جاری و ساری رہتا ہے۔ اسکول اور کالج کے دور سے گزر کر انسان میں سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہو تی ہے، یونیورسٹی کے تجربات اس کی اس صلاحیت کو نکھار اور سنوار کر زندگی کے دھارے میں بہنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔جامعہ میں گزارے ہوئے شب و روز تمام زندگی ذہن پر نقش رہتے ہیں، اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ بیتا ہوا دور ایک یاد گاربن کر انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے ۔میَں نے اول جماعت سے ایم اے تک ریگولر تعلیم حاصل کی، سولہ سال کے اس تعلیمی عمل میں کوئی گیپ نہیں آیا، میرے والدین کی مالی حیثیت معمولی تھی لیکن چاہتے تھے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہواور ایسا ہی ہوا۔ میَں نے گھر پر قرآن کریم پڑھا، اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ کراچی کا رخ کیا،لائبریری سائنس میں پھر علم سیاسیات میں ایم اے کیا، حصول تعلیم کا عمل جاری رکھتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ترکی زبان، سندھی زبان، کمپیوٹر، انتظامیات اور دیگر کئی موضوعات کے کورسیز بھی کیے۔

میَں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس کیسے پہنچا؟ اس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ میَں ۱۹۷۰ میں بی اے کرنے کے بعد معاشیات میں ایم اے کر نے کی خواہش لیے جامعہ کراچی پہنچا۔مجھے معلوم تھا کہ جامعہ کے شعبہ لائبریری سائنس میں اکرم صاحب ہوتے ہیں۔ اکرم صاحب اور میرے والدحقیقی ماموں، پھوپھی زاد بھائی ہیں اس رشتہ سے آپ میرے چچا ہوئے، نجی زندگی میں ہم انہیں اکرم چچا کہتے ہیں، ان سے بہتر رہ نمائی کون کرسکتا تھا۔ چنانچہ میَں سیدھا ان کے شعبے میں چلا گیا ، شعبہ لائبریری سائنس اس وقت جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا۔ ایک کمرے میں تین لوگ بیٹھے تھے، ایک میز کرسی اکرم صاحب کی تھی، ایک پر سید جلال الدین حیدر اور ایک پر اظہارالحق ضیاء براجمان تھے، بعد میں تینوں علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھنے لگے تھے۔مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کرسکوں ، ارادہ بینکر بننے کاہے۔ اکرم صاحب جو شعبے کے ایک سینئر استاد اور انتظامی امور سے بھی وابستہ تھے ، محبت اور پیار سے بٹھایا ، خوش ہوئے کہنے لگے کہ میں کلاس میں جارہا ہوں واپس آکر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ کلاس سے واپس آئے دائیں بائیں ، اِدھر اُدھرکالے گاؤن پہنے ہوئے کئی طلبہ اور طالبات تھے اپنے کمرے میں آئے کچھ دیر ان سے باتیں کر کے انہیں فارغ کیا۔ اب میری جانب متوجہ ہوکر گویا ہوئے ہاں میاں تو آپ اکنامکس میں ایم کر نا چاہتے ہیں ، بہت خوب اچھا خیال ہے، کیا تم نے فارم لے لیا میں نے کہا کہ نہیں‘ ابھی نہیں لینا ہے۔پھر گویا ہوئے کہ بھئی یہ جو ہمارا سبجیکٹ ہے لائبریری سائنس یہ بھی ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل مضمون ہے اور خاصا اسکوپ ہے اگر تمہیں لکھنے پڑھنے اور کتابوں سے دلچسپی ہے تو اس کے بارے میں بھی سوچومیرا خیال ہے کہ یہ مضمون بھی تمہارے لیے بہتر رہے گا۔مختصر سی گفتگو کے بعد کہنے لگے چلو گھر چلتے ہیں باقی باتیں گھر پر ہو ں گی۔ کیمپس میں رہا کرتے تھے دس منٹ میں گھر پہنچ گئے۔ محتر مہ چچی صاحبہ(بیگم ڈاکٹر سبزواری ) سے تعارف کرا یا کہنے لگے کہ یہ انیس بھائی کے بڑے صاحبزاے ہیں ماشا ء اﷲ بی اے کرلیا ہے اور اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔چچی بھی خوش ہوئیں خیریت پوچھی امی ابا اور بہن بھائیوں کے بارے میں دریافت کیا۔ کچھ دیر میں کھانا میز پر لگ گیا ۔ کھانے کے دوران شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لینے کی پھر بات کی ، محسوس ہوا کہ ان کی یہی خواہش ہے کہ میں اسی شعبہ میں داخلہ لوں ۔ میرے خاندان کے سب ہی لوگ اکرم صاحب سے بہت متا ثرتھے ، نجی محفلوں میں آپ کا ذکر بہت ہی اچھے الفاظ میں ہوا کرتا تھا اور اب بھی یہی صورت حال ہے میں بھی اکرم صاحب سے بہت متا ثر تھا۔ ہمارے خاندان میں اکرم صاحب پہلے فرد تھے جو امریکہ پڑھنے گئے اور یونیورسٹی میں استاد ہوئے۔

میں نے اکرم صاحب کے گھر ہی میں فیصلہ کرلیا کہ میں معاشیات میں نہیں بلکہ لائبریری سائنس میں داخلہ لوں گا۔ لا ئبر یرین شپ میں داخل ہونے کی یہ اولین گھڑی تھی چنانچہ ایک داخلہ فارم اکنامکس میں اور ایک لائبریری سائنس میں جمع کرادیا گیا۔ شعبہ لائبریری سائنس کے انتظامی معاملات میں اس وقت اکرم صاحب ہی کر تا دھر تا تھے چنانچہ داخلہ فہرست میں نام آنا لازمی تھا ایسا ہی ہوا۔میں نے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ جاکر دیکھا بھی نہیں کہ وہا ں کی داخلہ فہرست میں نام آیا یانہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ فیصلے کر چکا تھا۔اس فیصلہ پر میرے والد صاحب خوش اور مطمئن تھے۔کیوں کہ ان کا خیال تھاکہ میں اکرم صاحب کی نگرانی میں بہتر طور پر تعلیم حاصل کرسکوں گا اورشاید ایسا ہی ہوا۔میں اس وقت تک درمیانہ درجے کا طالب علم ہی تھا جامعہ میں دو سال کے دوران میری صلاحیتوں کو جلا ملی حتیٰ کہ مجھ میں لکھنے کا ذوق پیدا ہواجواُسی ماحول، تر بیت اور سر پرستی کا نتیجہ ہے۔

پاکستان میں جامعہ کی سطح پر لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کا آغاز۱۹۵۶ء میں جامعہ کراچی سے ہو ا پھر دیگر جامعات نے اس کی تقلید کی ۔پروفیسر ڈاکڑعبدالمعید پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔انھوں نے ڈاکٹر محمود حسین کی کاشوں سے جامعہ کراچی میں پو سٹ گریجویٹ ڈپلو مہ کورس کی تدریس کے لیے ملک کا پہلا شعبہ،۱۰ اگست، ۱۹۵۶ء میں قائم کیا ۔ ابتدائی طور پر شعبہ جامعہ کے سٹی کیمپس واقع پرنسز اسٹریٹ کی کیمسٹری بلڈنگ میں قائم ہوا ۔ ۱۹۶۳ء میں یہ جامعہ کراچی کے موجودہ کیمپس میں جامعہ کے مرکزی کتب خانہ کی پانچویں منزل پر منتقل ہوا،۱۹۸۲ء میں اسے کلیہ فنون کے تیسرے بلاک کی عمارت میں منتقل کردیا گیا ۔اب یہ وہیں پر قائم ہے۔

تعلیمی سال۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں سے کوئی دن تھا، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی پانچویں منزل پر واقع تھا ۔ تمام کمروں کے چارو ں اطراف کھلی ہوئی جگہ نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کردیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔کلاس روم میں کل۷۷ طلباء جن میں ۴۴ طلباء اور ۳۳ طالبات تھیں۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلباء نے جامعہ کے شو ق میں کالے رنگ کے گاؤن ذیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا۔ پہلی کلا س تعارفی کلا س تھی شعبے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید ، ڈاکٹرغنی الا کرم سبزواری(مشیر امور طلبہ)،ڈاکٹر سید جلا ل الدین حیدر اور اظہار الحق ضیاء کلا س میں موجود تھے ۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب نے تمہیدی کلمات کہے ، شعبے کا تعارف کرایا ، اسا تذہ کے بارے میں بتا یا ، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر رہا ہے۔گندمی رنگ،قد میں چھوٹے، گٹھا ہوا جسم، روشن آنکھیں، سیاہ بال، کلین شیو، کالے رنگ کے چشمے نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے ایک استاد اور بھی ہیں جو بیماری کے باعث اوپر نہیں چڑھ سکتے وہ تھے پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید۔

ڈاکٹر عبدالمعید میرے ان اساتذہ میں سے تھے جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبے پرفائزان چند انسانوں میں سے ہیں جوصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ آپ کا حافظہ زبر دست تھا ، کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے آپ کو تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ تاریخیں بھی یاد تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک کہنہ مشق اور قابل استاد اور ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ تقریر کے فن سے خوب واقف تھے البتہ آپ کا تحریری سرمایہ مختصر ہے۔ ڈاکٹر عبدالمعیدنے بنگال لائبریری ایسو سی ایشن ، کلکتہ سے لائبریری سائنس میں سر ٹیفیکیٹ کورس ، مشیگن یونیورسٹی ، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس، یونیورسٹی آف ایلونائے ، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی ۔

۱۹۸۱ء میں شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کی سلور جوبلی کے موقعے پر ایک کتاب بعنوان ’’ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ ‘‘ شائع کی تھی ، کتاب کی تعارفی تقریب ۲۹ اگست ۱۹۸۱ء کو لیاقت میموریل لائبریری آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی ، اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم جسٹس سید غوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عبد المعید صاحب بھی اس تقریب میں شریک تھے جو نائجیریا سے بطور خاص شعبے کی سلور جوبلی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات نے میری جس قدر قدردانی کی ہے معلوم نہیں میں اس کا مستحق ہوں یا نہیں مقررین نے جو کچھ میرے متعلق کہا میں ان کا بے حد مشکورہوں۔کتاب کے بارے میں کئی مقررین نے اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر اسلم فرخی کا کہنا تھا کہ’’ ڈاکٹر عبدالمعید بڑے خوش نصیب استاد ہیں کہ ان کی خدمت میں تحریری تاثرات کا انمٹ یہ ہدیہ دعقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔یہ کتاب در اصل وہ جذبہ عقیدت و خلوص ہے جو نئی نسل نے پرانی نسل کی خدمت میں پیش کیا ہے۔یہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب کی خدمت عملی کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اس شرف سعاد ت کا اعتراف ہے جو علم اور اہل علم کی خصو صیت ہو تاہے ‘‘۔ میَں نے ڈاکٹر صاحب کا خاکہ بھی تحریر کیا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ آپ ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو کراچی میں اس دنیا ئے فانی سے رحلت کر گئے۔آپ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں، مجھے تجہیز و تدفین میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔

پروفیسرڈاکٹر انیس خورشیدکم گفتار ، دھیمہ لہجہ، اکثر پیچھے بیٹھے ہوئے طلباء آپ کے لیکچر سے محروم ہی رہا کرتے ،اﷲ نے آپ کو قلم کی طاقت سے نوازا ، میَں نے ڈاکٹر صاحب کو مسلسل لکھتے دیکھا،آپ نے بہت لکھا اور خوب لکھا، اپنی بیماری، کمزوریِ صحت کے باوجود قلم کی روانی کو کم نہ ہونے دیا ، لکھتے رہے اور چھپتے رہے۔ آپ کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی کمزوری انسان کے بلند مقاصد کے آڑے نہیں آسکتی ؂
ارادے جن کے پختہ ہوں نگاہ جن کی بلند ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کر تے

ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے سر ٹیفکیٹ کورس (۱۹۵۲ء) سے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا، ۱۹۵۷ء میں جامعہ کراچی سے لائبریر ی سا ئنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور امریکہ سے ۱۹۵۹ میں ایم ایل آئی ایس کیا۔ امریکہ کی(University of Pittsburgh) سے ۱۹۶۹ء میں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان لائبریرین شپ کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ’’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازاجو پاکستان لائبریرین شپ کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے میری ایک کتاب کے بارے میں اپنے ایک خط(۱۸ مئی ۱۹۹۷ء )بہ نام اختر صدیقی مرحوم اپنی رائے کا اظہاران الفاظ میں کیا’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہو نے والی Bio-Bibliographical Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی، presentation بہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرح داری کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔تدوین اور تر تیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتا بیاتی سر گرمیوں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ اپنے ایک اور خط مورخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں آپ نے تحریر فر مایا،’’تمہارا گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی ، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم جیسے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اب اس دنیا میں نہیں،

پروفیسرڈاکٹرسید جلال الدین حیدر شعبے کے با صلا حیت اور محنتی استادتھے۔لانبا قد، بھاری جسم ، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال ،داڑھی مونچھیں صاف یعنی کلین شیو، ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی اور کسیِ قدر اندر کی جانب،مضبوط ہاتھ پیر،ہونٹ قدرِے بڑے ہنستے ہوئے ایک جانب زیادہ ہوجا یا کرتے، زیادہ تر پینٹ شرٹ اور کوٹ پتلون لیکن کبھی کبھی شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کے پیجامے میں بھی ہوا کرتے تھے ، جوانی میں بھی وضع دار تھے تمام زندگی اسی وضع داری میں گزاردی، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ کلاس میں کبھی دیر سے نہیں پہنچے کلاس میں آئے راسٹرم کے پیچھے کھڑے ہوکرمخصو ص انداز سے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر کلائی کی جانب وقت دیکھا ساتھ ہی کلاس پر ایک معنی خیز نظر دوڑائی انداز بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں با لکل وقت پر کلاس میں آگیا ہوں۔ جو کچھ پڑھاتے عالمانہ اور فنی انداز سے پڑھاتے البتہ لہجے میں قدرِے کرختگی ضرور تھی۔آپ نے ۵۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۴ء میں لفبرویونیورسٹی ، برطانیہ (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔اب اس دنیا میں نہیں۔ میَں نے ان کا خاکہ تحریر کیا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ان کا انتقال ۱۷ نومبر ۲۰۰۸ء بروز پیرکراچی میں ہوا، سپر ہائی وے پر قائم قبرستان وادیٔ حسین میں تدفین ہوئی۔

ڈاکٹرغنی الاکرم سبزواری شعبے کے مقبول استاد تھے۔ایک اچھے استاد کی طرح خود بھی محنت کرتے اور طلباء سے بھی محنت لیا کرتے تھے۔ جی جان سے پڑھا یا کرتے تھے، آپ نے اپنے اورطلباء کے درمیان کبھی فاصلہ نہیں رکھا ان سے ہمیشہ پیار ، محبت ، ہمدردی سے پیش آیا کرتے ،آپ نے سعو دی عرب میں قیام کے دوران ۱۹۸۳ء میں سینچری یونیورسٹی کیلی فورنیا ،امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، لائبریری سائنس کے موضوع پر شائع ہونے والے رسالہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس کے بانی مدیر اعلیٰ ہیں۔ امریکن انفارمیشن سینٹر کراچی ، شعبہ لائبریری سائنس ،جامعہ کراچی اور جامعہ اُم القرآ، مکہ المکرمہ میں خدمات انجام دینے کے بعد اب امریکہ، کنیڈا اور پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور تصنیف و تالیف و اشاعت میں وقت گزارتے ہیں۔لمبا قد ،دبلے پتلے ( اب چھوٹی سی تونداور جسم بھی بھاری )،گورا رنگ، گھنی بھنوئیں، کھڑے خوبصورت نقش، کلین شیو(اب سفید چھوٹی داڑھی)، روشن پیشانی ،کتا بی چہرے پر وجاہت، شرافت،آنکھو ں میں چمک،شائستہ اور شگفتہ لہجہ،مزاج میں بڑی معصو میت ،گفتگو میں سوجھ بوجھ اور علمیت کا امتزاج و سنجیدگی اور بردباری، سر تا پا انکسار،چہرے مہرے اور وضع قطع سے مضبوط ارادے اور قوت فیصلہ کے حامل ، دیکھنے والے ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ، عام طور پر پینٹ اور شرٹ گھر میں ڈھیلے پائچے کا پیجامہ پہنتے ہیں ۔ساری زندگی وضع داری میں گزاری۔ وقت اور اصولوں کے پابند،کلاس میں کبھی دیر سے نہیں آئے،شادی و دیگر تقریبات میں وقت مقررہ پر پہنچتے ہیں ۔ متعدد کتابوں اور مضامین کے مصنف و مولف ہیں۔ میَں نے ان پر ایک سوانحی کتاب ’ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات ‘بھی تحریر کی اس کے علاوہ ان کا خا کہ میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے ۔

سبزواری صاحب نے اپنی آپ بیتی ’’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہر ہونے تک ‘‘ میں میرے بارے میں لکھا’’رئیس میاں ماشاء اﷲ تقریر و تحریر میں ماہر القادری ہیں۔ سوانح نگاری میں کمال حاصل کیا ہے۔ اختر صدیقی صاحب ،محمد عادم عثمانی صاحب، میری اور کئی حضرات کے سوانحی خاکے اور مضامین کی شکل میں شائع کر چکے ہیں۔ اپنے پر دادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔ صاحب کا دیوان اپنے چچا مغیث احمد صمدانی صاحب کی خواہش پر دوبارہ شائع کیا ہے۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں جو اُن کو ورثہ میں ملا ہے۔ غالباً شاعری کرتے ہیں لیکن باقاعدہ ابھی منظر عام پر نہیں لارہے ہیں۔ حال ہی میں جامعہ ہمدرد سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر کے اب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی بن گئے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر سبزواری کی بڑائی تو دیکھیے کہ اپنی اس آپ بیتی میں مجھ کم تر سے’ اظہاریہ ‘ لکھوایا ۔ کیوں کہ استاد کا حکم تھا اس لیے تعمیل کی اور اس آپ بیتی کے بارے میں لکھا ’’یہ آپ بیتی ڈاکٹر سبزواری کی ۷۳ سالہ زندگی کی یادوں ، ذاتی تاثرات و مشاہدات اور تجربات کی ایک حسین ، دلچسپ ، تاریخی و سماجی واقعات کی دستاویز ہے۔ اس میں مصنف کے حوالہ سے واقعات بھی ہیں، تاثرات بھی،، تجربات بھی ہیں مشاہدات بھی،شخصیات بھی ہیں ادارے بھی، والدین بھی ہیں بہن بھائی بھی، شریک سفر بھی ہے بچے بھی، دوست بھی ہیں رشتے دار بھی،استاد بھی ہیں شاگرد بھی، محبوب بھی ہیں محبان بھی، الغرض اس
آپ بیتی کی صورت میں ڈاکٹر سبزواری کی یادوں کی بارات چھم چھم کرتی چلی آئی ہے‘‘۔

استادوں میں اظہار الحق ضیاء بھی تھے۔ ابتدا میں سندھ مسلم کالج کے لائبریرین تھے،یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز ، آسٹریلیا سے لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلو مہ کرکے واپس آئے توشعبے میں استاد ہوگئے، پھر نائیجیریا چلے، آج کل ریٹائر لائف امریکہ میں گزار رہے ہیں۔ لمبا قد، گورا رنگ، بھاری گٹھا ہوا مضبوط جسم،چوڑا سینہ، کالے بال، کشادہ پیشانی، تیکھے نقوش، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، بھر بھرا چہرہ، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ،طلباء ان سے خوش رہا کرتے تھے کیونکہ یہ طلباء سے دوستانہ مراسم رکھنے کے قائل تھے۔ تعلق بہار شریف سے تھا ،ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے دور پرے کے عزیز وں میں سے تھے۔بہت سالوں سے انہیں نہیں دیکھا، ای میل پر رابطے میں رہتے ہیں۔

ممتاز بیگم جزو وقتی استاد تھیں اور اسپیشل لائبریری کا کورس پڑھایا کرتی تھیں ۔ ان کی اس کلاس میں سائنس گریجویٹ یا پڑھا ئی میں ذہین طلباء ہی ہواکرتے تھے،میرے پاس بھی یہ کورس تھا۔ ممتاز بیگم کراچی یونیورسٹی سے بوٹنی میں ایم ایس سی اور لندن سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے تھیں۔اس سے پہلے جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کر چکی تھیں، پینسڈاک (PANSDOC)جو بعد میں پاسٹک(PASTIC) بن گیا سے وابستہ تھیں ، پھر لیاقت میموریل لائبریری کی ڈپٹی ڈائریکٹر ؍پرنسپل لائبریرین بھی رہیں، خوش مزاج، خوش گفتار،پر خلوص ، ملن سار، شائستہ اور مہذب۔درمیانہ قد، دبلی پتلی، کالا رنگ، جاذبِ نظر نقوش،کھڑی ناک، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،کالے بال اب سفیدی نمایاں، سفید موتی جیسے دانت جو مسکراتے وقت زیادہ حسین لگا کرتے ،سنجیدہ طرز گفتگو، صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار اور مشرقیت کا اعلیٰ نمونہ۔ ادبی ذوق کی مالک ، شاعرہ بھی۔ کار از خود ڈرائیو کرکے آیا کرتی تھیں، عام طور پر کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی شعبہ میں آجایا کرتیں لیکن کلاس کے وقت کا انتظار اپنی کار میں بیٹھ کرکیا کرتیں۔محنت سے بڑھا یا کرتیں۔ میرے زمانہ طالب علمی میں شعبہ میں تمام ہی اساتذہ اپنے اپنے طور پر قابل اور موضوع پر مکمل گرفت رکھتے تھے۔ مجھے اپنے تمام ہی اساتذہ پر فخر ہے۔

محمد عادل عثمانی صاحب جامعہ کی لائبریری میں اس وقت ڈپٹی لائبریرین اور شعبے میں جذوقتی استاد بھی تھے لیکن جب میں نے داخلہ لیا تو آپ بہ سلسلہ ملازمت سعودی عرب آچکے تھے جس کے باعث میں ان کی براہِ راست شاگردی سے محروم رہا۔ جب میں نے ایم اے کر لیا تو عثمانی صاحب واپس آگئے، میں ایم اے مکمل کرکے فارغ ہوا ہی تھا ابھی نتیجہ آئے ہوئے مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ سبزواری صاحب نے کہا کہ آپ یونیورسٹی لائبریری میں عادل عثمانی صاحب کے پاس چلے جائیں ، میں نے ان سے بات کر لی ہے۔میں پہلی فرصت میں لائبریری چلاگیا ، میں نے اپنا نام بتا یا اور اکرم صاحب کا حوالہ دیا ۔ بہت ہی شفقت اور محبت سے بیٹھنے کو کہا۔عثمانی صاحب کو پہلی مر تبہ اتنے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انتہائی بردبار، مہذب، با اخلاق، درمیانہ قد،مناسب جسم ، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال، کلین شیو، ستواں ناک، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ، روشن آ نکھیں،وضع دار ، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔گفتگو میں شگفتگی، شائستگی، دھیمہ پن اور عالمانہ انداز گفتگو جیسی صفات آپ میں نمایاں تھیں۔

ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ایک فارم دیا کہ اسے بھر دیجیے اورمتعلقہ آفس میں جمع کرادیں کل سے آپ کی نوکری شروع۔یہ میری زندگی کی اولین ملازمت تھی جو ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔کاغذی کاروائی کے بعدمجھے لائبریری کے ریسرچ ریڈنگ روم میں بھیج دیا گیا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا انہوں نے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ایک اسکیم کا آغاز کیا تھا جو NDVPکہلاتی تھی میرا یہ تقرر بھی اسی پروگرام کے تحت تھاجو صرف چار ماہ قائم رہا کیوں کہ میرا تقرر حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے ایک کالج میں گریڈ ۱۷ میں ہوگیا۔ اس طرح عثمانی صاحب کے ساتھ میرا آفیسر اور ماتحت کا تعلق قائم ہوا۔ عثمانی صاحب سے بعد میں بھی تعلق قائم رہا۔ میَں نے ۲۰۰۴ء میں عادل عثمانی صاحب پرانگریزی میں ایک سوانحی کتاب بھی مرتب کی تھی، عثمانی صاحب کا خاکہ بھی لکھا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے ۔عثمانی صاحب کافی عرصے بیمار رہے، سعودی عرب میں ۶ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو حکم الہٰی
کو لبیک کہا،جنت المعلیٰ میں جگہ پائی ۔؂

جامعہ کراچی میں سمسٹر نظام رائج نہیں ہوا تھا بلکہ سا لانہ طریقہ امتحان ہی پر عمل ہو رہا تھا۔ لائبریری سائنس ہم تمام طلباء کے لیے بالکل ہی نیا موضوع تھا ۔ ہم نے کیٹلاگ یا کیٹلاگنگ ، ببلو گرافی، ڈیوی دیسیمل کلاسیفیکشن ، ریفرنس سر وس جیسے الفاظ پہلی بار ہی سنے تھے۔یہ ہمارے اساتذہ کا کمال ہی تھا کہ نئے موضو عات کو اس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ سمجھا یا اور سکھا یا کہ ہماری دلچسپی اس مضمون سے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ راقم الحروف کیوں کہ یہ ارادہ لیے جامعہ میں داخل ہوا تھا کہ اس سبجیکٹ میں ماسٹر کرنا ہے چنانچہ تمام تر سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے پڑھائی کی جانب توجہ مرکوز رکھی۔ایک وجہ چچا کا خوف اور ڈر بھی تھا ۔میں تو اسکول سے گریجویشن تک درمیانے درجے کا طالب علم رہا تھا لیکن شعبہ لائبریری سائنس میں تعلیم کے دوران زیادہ محنت کی، مضمون میں حد درجہ دلچسپی لی، غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ نہیں لیا شرکت کی حد تک شامل ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ میری فرسٹ ڈویژن آئی اور لکھنے اور پڑھنے کی جانب بھی مائل ہو گیا۔ایم اے فائنل میں تھیسس لکھنا اس وقت لازمی تھا چنانچہ میں نے بھی مقالہ تحریر کیا،مقالہ کا عنوان تھا’اردو میں سائنسی و فنی ادب ؛ منتخبہ کتابیات ۱۹۴۷ء ۔ ۱۹۷۱ء‘، اسی مشقت اور محنت نے مجھے کتا بوں کے زیادہ قریب کر دیا اور مجھ میں لکھنے کاشوق اور لگن پیدا ہوئی ۔

فائنل ایر کے امتحانات نزدیک آئے تو کلاس کے چند ساتھیوں نے زیادہ محنت کرنے اور اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی حکمت عملی یہ اختیا ر کی کہ وہ ساتھی جو کیمپس سے با ہر رہا کرتے تھے کیمپس میں کچھ دن کے لیے کوئی جگہ لے لیں اور وہاں منتقل ہوجائیں، تاکہ پڑھائی میں یک سوئی پیدا ہوسکے، اب جگہ کی تلاش شروع ہوئی، ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی ، میرے دوست عابد قریشی نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے پولٹری فام کے نزدیک ایک کمرہ حاصل کرلیا اب میَں، عابد قریشی اور عزیز خان اس کمرے میں منتقل ہوگئے،سبزواری صاحب کیمپس میں رہا کرتے تھے انھیں ہمارے اس منصوبے کاعلم ہوا، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہم پولٹری فارم کے کسی کمرہ میں منتقل ہوگئے ہیں تو پہلے تو انھوں نے ہمیں اپنے گھر منتقل ہونے کو کہا، جب ہم سب نے معذرت چاہیں تو وہ خاموش ہوگئے لیکن ہر روز رات میں ہمارے کمرہ میں آجایا کرتے اور ہماری رہنمائی کیا کرتے ۔اس حکمت عملی کا یہ نیتجہ ہوا کہ ہم تینوں دوست اچھے نمبروں سے پاس ہوئے اس وقت ڈویژن ہوا کرتی تھی ہماری فرسٹ ڈویژن آئی۔

جامعہ میں میرے یہ دو سال بہت ہی یاد گار تھے، جب میں جامعہ میں داخل ہوا، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب تھے، جب میں فائنل ایر میں آیا تو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ریٹائر ہوگئے اور پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین نے شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ذمے داریوں کا آغاز کیا، ہمارے شعبے کی جانب سے دونوں شخصیات کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے لیے الوداعیا تھا جب کہ ڈاکٹر محمود حسین صاحب کے لیے ویلکم پارٹی تھی۔جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کا قیام ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے دور میں ہی عمل میں آیا، انھوں نے شعبے کے قیام کی حوصلہ افزائی بھی کی جب کہ ڈاکٹر محمود حسین جو پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے اولین صدر تھے اور لائبریرینز کی بہت حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی پہلی کانفرنس جو ۱۹۵۸ء میں کراچی میں منعقد ہوئی تھی کی صدارت اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی تھی، یہ ڈاکٹر محمود حسین کی کوششوں سے ہی یہ ممکن ہوسکا تھا۔

ایم اے سال دوم کی کلاس ۶۰ اور فائنل کی ۷۰ طلباء و طالبات پر مشتمل تھی، طالبات کی تعداد زیادہ تھی۔ویسے تو تمام ہی ساتھیوں سے تعلقات اچھے تھے لیکن عام طور پر کلاس میں چھوٹے چھوٹے گروپ لازمی تشکیل پاتے ہیں،ایک طالبہ عطیہ عباس تھی، وہ برقعہ پہنا کرتی تھی، اس کا ظاہری روپ ، عادات و اطواراس کی سادگی اور ذہین ہونے کا کا پتا دیتی تھیں۔ فارغ وقت میں انگریزی ناول پڑھتی نظر آیا کرتی تھی،بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی زندگی میں ایسا تغیر آیاکہ وہ زمانہ طالب علمی سے بالکل مختلف ہوگئی تھی، برقعہ اتر گیا تھا، بال کٹ گئے تھے، ماڈرن ہوگئی تھی ، پھر پتا چلا کہ وہ کسی ایسے ماحول میں پھنس گئی کہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی،ایک اور طالبہ یاسمین شفیع بھی تھی، پڑھنے میں تو عام سی تھی لیکن اس کی آواز میں سریلا پن تھا، سر وتار سے آشنا تھی، غزلیں اچھی گایا کرتی تھی، اس کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ وہ بھی ایسے ماحول میں پھنسی کہ اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی۔جبار اور منظور کی منفرد جوڑی تھی، یہ دونوں ایک ساتھ رہتے، مزاہیہ جملوں کا استعمال خوب کیا کرتے تھے۔منظور کو اﷲ نے جلد اپنے پاس بلا لیا۔یہ پہلے ملک سے باہر چلے گئے واپس آ کر این ای ڈی یونیووسٹی لائبریری سے وابستہ رہے۔ غلام اقبال الدین کو ہم کمانڈر کہا کرتے تھے، یہ بنگلہ دیش سے آئے تھے، کالج لائبریرین رہے، بہار کالونی میں رہائش تھی، اکثر میرے گھر آجایا کرتے، یہ بھی جلد اﷲ کے گھر چلے گئے۔ دیگر کلاس فیلوز میں عذرا قریشی کلاس کی قابل اور ذہین طالبہ میں سے تھی،یہ ملک سے باہر رہی تھی ، انگریزی روانی سے بولا کرتی تھی، امریکہ کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی، اوہی او سے بھی لائبریری سائنس میں ایم اے کیا، انٹر نیشنل اسکول بنکاک ،امریکن سینٹرکراچی، کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ اور ۲۰۰۹ء میں آغا خان یونیورسٹی کی چیف لائبریرین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں،آجکل میرے ساتھ اسکول آف لائبریرین شپ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ مختار اشرف اردو یونیورسٹی کی ڈاکٹر مولوی عبد الحق لائبریری سے وابستہ رہے، عابد قریشی پی آئی اے کی ٹیکنیکل لائبریری سے منسلک تھے۔یامین قریشی برٹش کونسل میں تھے ، پھر باہر چلے گئے اب واپس آکر کسی لائبریری سے منسلک ہیں۔جاوید سلطانہ ملک سے باہر چلی گئی تھیں اب شاہ ولایت اسکول کی لائبریری سے منسلک ہیں۔امتہ الا شمیم،عائشہ نگہت،سید اکبر علی اکبر بھائی کہے جاتے تھے، کالج لائبریرین رہے،غلام سرور، ارجمند بانو، محمد اسلم، محمد ایوب، عزیز خان جامعہ کراچی کے کتب خانے سے وابستہ تھے ، فرخندہ جبیں، سید ہدایت اﷲ ہادی ، عربی اور اسلامیات میں بھی ایم اے ہیں ، لیاقت میموریل لائبریری سے وابستہ رہے، کنیڈا میں مقیم ہیں، اس وقت جامعہ احمدیہ کنیڈا کے اعزازی فیکلٹی ممبر ہیں، محمد ادریس، سید افتخار حسین، جہان خان، عذرا جمیل ، کالج لائبریرین رہیں، محمد جمیل حسین مرحوم پریمئر کالج میں تھے ، خوشنود قیصر برٹش کونسل میں تھے بھر ملک سے باہر چلے گئے، خالدہ اختر، بائیے جمشید مالی، بشارت حسین مرزا، مفتی مقصود احمد، سید محمد احمد مرحوم، مختار اختر جامعہ کراچی کی لائبریری سے منسلک تھیں، ریٹائر ہوگئیں، مظفر احمد ، ظفر حسین نقوی، نسرین اختر، سید ناظر علی ڈی جے کالج سے وابستہ تھے ، قمر جہاں، قمر قاضی،عذرا نسرین قریشی، رابعہ سلطانہ، رفعت، محمد رشید، شبنم سلطانہ رضوی ، کالج لائبریرین رہیں ، سمیع اﷲ مرحوم، کالج لائبریرین رہے ،سائرہ بانو،ثروت جہاں، جمیلہ شکور، مسرت شمس الدین، شمس القمر، طیبے شیرازی، ادیبہ بانو صدیقی، فرزانہ طلعت صدیقی، عبد الکریم، طلعت نسرین ، کالج لائبریرین رہیں، تنورحسین، حبیب جہاں وارثی، محمد یعقوب، محمد یاسین خان اور محمد یوسف کالج لائبریرین تھے، اب امریکہ میں ہیں شامل تھے۔

شعبے میں نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی تھی۔ کتب خانوں کے مطالعاتی اور تفریحی دورے ہر سال ترتیب پاتے، کراچی سے پشاور، اسلام آباد، لاہور، ملتان، بہاولپور، کوئٹہ عام سے بات تھی۔۱۹۷۱ء میں کوئٹہ ، زیارت کا تعلیمی پروگرام تر تیب دیا گیا ۔ تقریباً ۶۰ طلبا کا قافلہ کراچی سے بذریعہ ٹرین کوئٹہ کے لیے روانہ ہوا، کوئٹہ میں تمام طلباء ریلوے اکیڈمی کے بڑے آڈیٹوریم میں ٹھرے جب کہ اساتذہ اور طالبات برابر گیسٹ روم میں تھے۔ افتخار خواجہ(اب ڈاکٹر افتخار خواجہ ہیں) جو ایک سال قبل اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس کوئٹہ میں اپنی ملازمت شروع کر چکے تھے اور آبان رستم جی اپنے اساتذہ اور شعبے کے طلباء کے میزبان تھے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہوکر تمام لوگ بشمول اساتذہ کے آدیٹوریم میں بیٹھ گئے اور پروگرام یہ بنا کہ ہر ایک کچھ نہ کچھ سنائے گا ۔ اس پر مکمل طور پر تو عمل نہ ہو سکا لیکن کئی طلباء نے اپنے جوہر دکھا ئے۔ اساتذہ میں صر ف اکرم صاحب نے طلباء کا ساتھ دیا ایک غزل ترنم کے ساتھ سنائی۔ بعض اچھے گانے والے بھی تھے ان میں ایک طالبہ یاسمین شفیع (مر حومہ ) کی آوازاور طرز بہت اچھی تھی۔اس پروگرام کو خاموشی سے ریکارڈ بھی کیا جا رہا تھا۔ پروگرام ختم ہوا سب لو گ سو گئے ۔ کسی کو یہ شرارت سوجھی صبح سویرے ابھی پوری طر ح روشنی بھی نہیں ہو ئی تھی البتہ پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا۔ آڈیٹوریم میں مائک موجود تھا اکرم صاحب کی گائی ہوئی غزل’ آہ یہ
دور زند گی‘ ۔۔ تیزآواز میں لگا دی گئی اب تمام لوگ حیران و پریشان کہ صبح ہی صبح اکرم صاحب کو کیا ہوگیا حتیٰ کہ اکرم صاحب خود بھی آموجود ہوئے سب کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے ٹیپ بند کرایا۔

کوئٹہ سے زیارت کا پروگرام بھی تھا ہم تمام طلباء و طالبات دو بسوں میں کوئٹہ سے زیارت کے لیے روانہ ہوئے، صبح سویرے سب نے ڈٹ کر ناشتہ کیا، کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ ہم نے بلندی پر جانا ہے، آدھے سے زیادہ سفر آرام سے گزرگیا، بسیں تیز رفتاری سے اوپر کی جانب دوڑے چلی جارہی تھیں،انڈے اور پراٹھوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا، کسی ایک کو متلی شروع ہوئی، آہستہ آہستہ متلی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، مجبوراً بسوں کو روکنا پڑا، اب یہ منظر قابل دید تھا،سڑک کے کنارے میدان ہی میدان، تمام طلبہ و طالبات بسوں سے اتر کر اِدھر اُدھر کھڑے متلی کر رہے تھے۔ جب تمام کے انڈے اور پراٹھے باہر آگئے ، سب نے سکون کا سانس لیا، سفر دوبارہ شروع ہوا، زیارت پہنچ کر قائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری کے دنوں کی آخری آرام گاہ کو دیکھا، یہاں سے کافی فاصلے پر کسی بزرگ کا مزار ہے، پروگرام میں اس مزار پر جانا بھی تھا تمام طلباء و طالبات کا قافلہ اساتذہ کی سربراہی میں آگے پیچھے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پر خطر راستے سے ہوتے ہوئے اس مزار پر پہنچے، ڈاکٹر عبد المعید مرحوم ، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر مرحوم اور اظہارالحق ضیاء ہمارے ساتھ تھے، یہ ایک یاد گار سفر تھا، کوئٹہ میں موجود شعبے کے سابق طلباء خاص طور پر ڈاکٹر خواجہ افتخار ہمارا خوب خیال رکھا،خواجہ افتخار جو اب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ افتخار ہیں ، شعبہ ایجویشن سے صدر شعبہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے انتہائی سنجیدہ، بردبارہیں زمانہ طالب علمی میں اتنے ہی شوخ وچنچل ہوا کرتے تھے، کوئٹہ اکیڈمی میں طلباء کے قیام کے دوران ان کا سائیکل چلانا، کلو پیٹرا کی حیثیت کاروپ اختیار کرنا، غلام اقبال الدین کاپریشان کرنا، اس زمانہ کی یا دگاریں ہیں۔

ایم اے سال سال دوم میں اسلام آباد جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا، سفر ٹرین سے کرنا تھا، ریل کی ۶۵ افراد کی بوگی ریزرو کرانے کی ذمہ داری میری تھی، میرے والد صاحب کے ایک جاننے والے ریزرویشن میں تھے میَں نے ان کے توسط سے ریل کی بوگی کراچی سے لاہور میں قیام کے بعد راولپنڈی جانے اور واپسی تک وہ بوگی ہمارے زیر استعمال رہی،کئی اسٹیشنز پر شعبے کے سابق طلباء جنہیں اس پروگرام کا علم ہوا آتے رہے اور اپنے اساتذہ کی خدمت میں مختلف قسم کی چیزیں لاتے، لاہور میں پنچاب یونیورسٹی میں قیام رہا، اسلام آباد میں قائد اعظم یونیوورسٹی جوتعمیر کے مراحل میں تھی میں قیام تھا۔ ایک دن کے لیے مری بھی گئے۔

شعبے کے تمام طلبا پکنک منانے ساحل سمندر گئے شعبہ کے اساتذہ میں ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزوری (اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے)،ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر(اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے)، اختر حنیف، اظہار الحق ضیاء اور ممتاز بیگم بھی تھیں۔چند طلباء جن میں افتخار خواجہ( اب ڈاکٹر افتخار الدین خواجہ ہیں)بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس کے بانی صدر شعبہ ہوئے بعد از آں شعبہ تعلیم سے ریٹائرہوئے، رموز احمد خان(اس وقت شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس ، اسلامیہ یونیورسٹی ، بہاولپور کے صدر شعبہ ہیں)، عبدالجبار اور منظور الکریم (مر حوم) اس تماشے کے بنیادی کردار تھے۔ رموز احمد خان کو سر سے پیر تک سفید چادر ڈا ل کر زمیں پر لٹا دیا گیااور افتخار خواجہ نے ان سے سوالات دریافت کر نا شروع کیے۔ان کے چاروں جانب طلباء اور اساتذہ کھڑے تھے۔ پہلے ڈاکٹر عبد المعید کی جانب اشارہ کیااور پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر عبد المعید ، پوچھا کہ یہ اس وقت کہا ں ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں جواب دیا گیا کہ یہ اس وقت آشور بنی پال کے کتب خانے میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ میں اس کتب خانے کی کتابیں جو مٹی کی تختیاں ہیں کس طرح اپنے ساتھ لے جاؤں۔(زور دار قہقہ اور تالیاں)، پھر سبزواری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دیا کہ یہ سر اکرم ہیں اور اس و قت سوچ رہے ہیں کہ پکنک پر آئے ہوئے جن طلباء نے چندہ نہیں دیا ان سے کیسے وصول کیا جائے اس کے بعد تماشہ گر نے جلال صاحب کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دیا یہ سر جلا ل ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ ۲۵ نمبر میں سے کس کس کو زیرو نمبر دوں اس جواب پر تمام لوگوں نے زور دار قہقہ لگایا(واضح رہے کہ جلال صاحب دوران لیکچر ۲۵ نمبروں کا خوف بہت زیادہ دلایاکرتے تھے یہاں تک کہ بعض طلبہ نے انہیں سر ۲۵ نمبر بھی کہنا شروع کر دیا تھا)، اسی طرح اختر حنیف صاحب مرحوم کے لیے بھی ان کی خصو صیات کی مناسبت سے مزاحیہ جملہ کہا گیا۔

شعبے میں منظر اور اسلام الدین دو دفتری تھے، منظر کو طلباء ڈاکٹر منظر بھی کہا کرتے تھے ، یہ تمام ہی اساتذہ کا چہیتا تھا خاص طو پر ڈاکٹر عبدالمعید اور سبزواری صاحب کا بہ اعتماد خدمت گزار ، اس نے شعبے میں چائے خانہ بھی قائم کیا ہوا تھا جو ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے اوپر کی منزل پر تھا، ایک طرح سے اس کا قہوہ خانہ مخصوص طلباء کے ملاپ اور وقت گزارنے کی جگہ بھی تھی، اکثر طلباء جب آئندہ ملنے کا پروگرام طے کرتے تو دن اور وقت طے کرکے یہ کہا کرتے کہ ’’ٹھیک ہے پھر ڈاکٹر منظر کے پاس ملتے ہیں‘‘، منظر کاقہوہ خانہ طلباء و طالبات سے ہر وقت بھرا رہتاتھا۔

ڈاکٹر انیس خورشید صاحب اپنی ٹانگوں کی تکلیف کے باعث اوپر نہیں جاسکتے تھے، ان کا کمرہ لائبریری کی زمینی منزل پر تھا، اسلام الدین ڈاکٹر انیس خورشید کا خدمت گزارتھا، یہ زیادہ تر نیچے ہی رہا کرتاتھا، سنجیدہ ،برد باراور اچھی عمر کاانسان تھا، ایک دن ہم ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کی ببلوگرافی کی کلاس جو نیچے ہی ہوا کرتی تھی لے کر نکلے ہی تھے کہ اسلام الدین شیخ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کے کمرہ کے سامنے دھڑام سے نیچے گر گیا، ہم اس کے قریب ہی تھے ایک دم اس کی جانب لپکے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نے اس کے اوپر پانی کی بالٹی الٹ دی ہے، ہم اپنی کتابوں سے اسے ہوا کرتے رہے ، محسوس ہوا کہ اسے د ہوئیل کا دورہ پڑا ہے، اُسے اٹھا کر جامعہ کی ڈسپنسری لے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی ، میرا ایک ہاتھ اس کی نس پر تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نس ڈوبتی ہی چلی گئی اور وہ ہمارے ہا تھوں اور نظروں کے سامنے اﷲ کو پیارا ہوگیا، ملیر میں رہا کرتا تھا، ہم اس کے جسد خاکی کو جامعہ کی ایمبو لینس میں لے کر اس کے گھر ملیر گئے اور اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی، اسلام الدین کے بیٹے کو جامعہ میں ملازمت دیدی گئی، وہ جامعہ کے انتظامی یونٹ میں کام کرتا ہے، جب کبھی اسے دیکھتا ہوں تو اسلام الدین یاد آجاتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے۔

جامعہ کراچی میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے ہوئے دو سال میری زندگی کا قیمتی سرمایا ہیں۔انھی دو سالوں میں میَں نے زندگی کو صحیح معنوں میں برتنے کا سلیقہ سیکھا، عملی زندگی میں قدم رکھنے کے طور طریقے سیکھے۔ جامعہ کراچی میں گزارے ہوئے انھی دوسالوں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مجھ میں زندگی کو سمجھنے، برتنے اور گزارنے کا ڈھنگ آگیا، آج میں جو کچھ بھی ہوں، میَں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اوراپنے علم ، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نئی نسل کو تحریر کی صورت میں کچھ بھی دے سکا ہوں اسی مادر علمی کے طفیل ممکن ہوا۔تیس سے زیادہ کتابیں اور۲۵۰ سے زیا دہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اردو ویب سائٹ ’’ہماری ویبHamari Web‘‘ پر ۵۰ مضامین آن لائن ہیں۔ کراچی ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء
(مصنف کی کتاب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ میں شامل)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437712 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More